• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رہائشی ایڈریس میں تضاد پر اسکول ٹیچر کے تقرر سے انحراف کے معاملے پر تحریری فیصلہ جاری

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے شناختی کارڈ اور ڈومیسائل پر رہائشی ایڈریس میں تضاد پر اسکول ٹیچر کے تقرر سے انحراف کے معاملے پر تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔

جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی ریگولر بینچ نے تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ ڈائریکٹر ایجوکیشن افسر چارسدہ بنام سونیا بیگم کیس میں اصول طے کر چکی، عدالت طے کر چکی کہ کے پی قانون کے تحت رہائشی ثبوت ڈومیسائل ہوتا ہے، آئی ڈی کارڈ نہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ جب کسی قانونی نکتے پر فیصلہ ہو جائے تو اسے دوبارہ نہیں سنا جاسکتا ہے، نظرِ ثانی آرٹیکل 188 اور رولز کے تحت ہی ہو سکتی ہے، نظرِثانی کے لیے فیصلے میں کسی واضح غلطی کی نشاندہی لازم ہے، محض ایک فریق کا عدم اطمینان نظرثانی کی بنیاد نہیں ہو سکتا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ نظرِ ثانی کیس میں فریق پہلے سے مسترد ہو چکا نکتہ دوبارہ نہیں اٹھا سکتا، نظرِ ثانی کی بنیاد یہ بھی نہیں بن سکتی کہ فیصلے میں دوسرا نکتہ نظر بھی شامل ہو سکتا تھا۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ پاکستان میں اس وقت 22 لاکھ مقدمات زیرِ التوا ہیں، سپریم کورٹ میں 56 ہزار سے زائد کیسز زیرِ التوا ہیں، ان زیرِ التوا کیسز میں بڑا حصہ نظرِ ثانی درخواستوں کا بھی ہے، من گھڑت قسم کی نظرِ ثانی درخواستوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے، سپریم کورٹ میں دائر کی گئی نظرِ ثانی 13 دن زائد المعیاد ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ نظرِ ثانی میرٹس پر اور زائد المعیاد ہونے پر خارج کی جاتی ہے، جسٹس محمد علی مظہر کا اضافی نوٹ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل بینچ نے سماعت کی۔

واضح رہے کہ 29 فروری 2022ء کے فیصلے پر نظرِ ثانی اپیل دائر کی گئی تھی۔

قومی خبریں سے مزید