میں اس وقت دبئی میں ایک نجی دورے پرہوں لیکن پاک بھارت سرحدی کشیدگی میں اضافے کے اثرات یہاں بھی محسوس کیے جارہے ہیں۔منگل اور بدھ کی درمیانی رات پاکستان کے خلاف بہیمانہ جارحیت کی خبریں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئیں،میڈیا اطلاعات کے مطابق بھارت نے پاکستان کے مختلف مقامات پر حملوں کے دوران نیلم جہلم ہائیڈروپاورپراجیکٹ کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ بزدلانہ جارحیت کا نشانہ بنانے سے قبل بھارتی پردھان منتری نریندرمودی کا ایک بیان بھی میڈیا کی زینت بنا کہ بھارت سے نکلنے والے پانی کی ایک بوند کو بھی باہر جانے نہیں دیں گے، مودی نے کسی ملک کا نام نہیں لیا لیکن سمجھنے والا ہر سمجھدار اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ انکا اشارہ پاکستان کی طرف تھا جو پہلے ہی پہلگام واقعے کی آڑ میں سندھ طاس معاہدے کی منسوخی کا سامنا کر رہا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے خطے میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کا دارومدار دریائے سندھ، براہماپترا (چینی نام:یارلنگ ژانگ بو)اور ستلج دریاؤں کے پانی پر ہے، جغرافیائی طور پر یہ دریا چین کے زیرانتظام اونچے ترین مقام تبت سے نکلتے ہیں جو بھارت سے گزرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوجاتے ہیں، دریاؤں کے بہاؤ کے لحاظ سے چین اور بھارت بالائی ممالک ہیں جبکہ پاکستان نچلی سطح پر واقع ہے۔ بٹوارے کے فوراََ بعد پاکستان اور بھارت کے مابین دریاؤں کے پانی کا تنازع کھڑا ہوگیاجسکا نتیجہ1960ء میں عالمی بینک کی ثالثی سے سندھ طاس معاہدے کی صورت میں سامنے آیا، مذکورہ معاہدے کے تحت پاکستان کو تین مغربی دریاؤں( سندھ، جہلم، چناب) کے پانی کا مکمل اختیار مل گیا جبکہ تین مشرقی دریا (راوی، بیاس، ستلج) بھارت کو مل گئے۔بھارت کی جانب سے مختلف ڈیموں کی تعمیر سےدریائے راوی کے کنارے بسنے والے تاریخی شہرلاہور کے لوگوں کیلئے دریائے راوی اجنبی ہوچکا ہے جبکہ پاکستانی عوام نے دریائے بیاس کا صرف نام ہی سنا ہے جو کبھی پاکستانی علاقے میں بہا کرتا تھا۔ حالیہ برسوں میں بھارت کی جانب سے اپنے ملکیتی دریاؤں کا پانی مکمل کنٹرول کرنے کے بعد متنازع علاقے مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے ملکیتی دریاؤں پر پن بجلی منصوبوں کی تعمیر نے پاکستان میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے،پاکستان اپنےملکیتی دریاؤں پربھارت کی جانب سے متنازع علاقے میں کشن گنگا اور رتلے ڈیم کی تعمیر کو سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتا ہےجبکہ بھارت اپنی جغرافیائی پوزیشن کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ دوسری طرف چین نےاپنےزیرانتظام علاقے تبت سے نکلنے والے دریائے یارلنگ ژانگ بو پردنیا کا سب سے بڑا ڈیم تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہےجو سالانہ 300 ارب کلو واٹ گھنٹوں کے حساب سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کا حامل ہوگا، یہ دریا بھارت میں داخل ہوکر براہما پترا کا نام اختیار کرتے ہوئے پھر بنگلہ دیش کی سرزمین کو سیراب کرتا ہے، تاہم بھارت کو چین کے ساتھ سرحدی کشیدگی کے تناظر میں یہ خدشات لاحق ہیں کہ مذکورہ چینی منصوبے سے براہماپترا کا بہاؤ کم ہو سکتا ہےجسکی وجہ سے شمال مشرقی بھارت کی زراعت اور ماحولیاتی نظام کوشدید نقصان پہنچےگا۔ مزید برآں، بھارتی سرکار کو یہ خطرہ بھی ہے کہ چین اپنے علاقے سے گزرنے والے دریاؤںکے ذریعے خشک سالی کے دوران پانی کی بندش یا برسات کے موسم میں اچانک پانی چھوڑکر بھارت کو شدید بحران سےدوچار کرسکتا ہے۔اگرچہ چین کا موقف ہے کہ اسکا بھارت کی جانب بہنے والے دریاؤں کا رخ موڑنے کاکوئی ارادہ نہیں، تاہم بھارت اور چین کے مابین دریائی پانی کے حوالے سے کوئی باقاعدہ قانونی معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے بھارت تشویش میں مبتلا ہے کہ چین تبت کے علاقے میں میگاڈیم کی تعمیرکرکے دریا کو اروناچل پردیش میں داخل ہونے سے روک سکتا ہے،مودی سرکار کی پریشانی کی ایک اور بڑی وجہ چین کی جانب سے اپنے قریبی دوست ملک پاکستان کے زیرانتظام گلگت بلتستان میں دیا مر بھاشا ڈیم جیسے سی پیک منصوبے بھی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے خطے میں بھارت، چین اور پاکستان کے درمیان پانی کے مسائل اور ڈیموں پر کشیدگی درحقیقت خطے میں جاری چپقلش کی عکاس ہے ،تینوں ممالک پاکستان، بھارت اور چین اپنے عوام کیلئے پانی اور توانائی کے حصول کیلئے کوشاں نظر آتے ہیں لیکن باہمی اعتماد اورعلاقائی تعاون کے بغیر یکطرفہ کوششیں خطرناک رُخ اختیار کر گئی ہیں جسکی ایک جھلک ہمیں حالیہ پاک بھارت جھڑپوں کی صورت میں نظر آئی ہے۔ میری نظر میں مودی سرکارچین کی جانب سے دریائی پانی کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال ہونے سے شدید خوفزدہ ہے، بھارتی پردھان منتری کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی منسوخی اور رات گئے اندھیرے میں پاکستانی سرزمین پر حملے جیسے غیرذمہ دارانہ اقدامات یہ عندیہ دیتے ہیں کہ وہ پاکستان پر دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں، مودی سرکارکی چال ہے کہ چین جنگی جارحیت کا نشانہ بننے والے پاکستان کی حمایت میں آگے آئے اور پھر اگر جنگ کے بعد عالمی برادری کی کوششوں سے کوئی امن معاہدہ طے پاجاتا ہے تو پاکستان کے ساتھ اسکے اتحادی چین کو بھی آبی پانی کی تقسیم کیلئے پابندکیا جائے۔تاہم پردھان منتری مودی کو سمجھنا چاہیے کہ طاقت کا استعمال کسی مسئلے کا دیرپا حل نہیں، ہمارے خطے میں صدیوں سے بہنے والے دریا بغیر کسی تفریق کے مخلوق خدا کو فائدہ پہنچاتے رہے ہیں، آج بھی مشترکہ دریاؤں کا مستقبل تصادم میں نہیں بلکہ تعاون میں ہے، آج بدلتے وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دریاؤں کو نہیں بلکہ دریائی پانی کی منصفانہ تقسیم اورتوانائی کے حصول کیلئےمشترکہ طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے ۔ بلاشبہ ماضی کی ہر پاک بھارت جنگ کا نتیجہ امن معاہدے کی صورت میں سامنے آیا ہے، میرا پردھان منتری مودی کو مشورہ ہے کہ کیوں نہ اس مرتبہ اپنے عوام کو جنگ میں جھونکنے سے قبل ہی ڈائیلاگ کی میز پر بیٹھ جائیں؟