• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمسائے افراد کے ہوں یا ریاستوں کے، بے حد اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ ایک تو ان کا ساتھ مستقل ہوتا ہے اور دوسرے وہ آپ کی زندگی جنت بھی بنا سکتے ہیں اور جہنم بھی۔ اسی لئے تو دانا لوگ ہمسایوں کے ساتھ بنا کر رکھتے ہیں۔ مگر مملکت پاکستان کی بد قسمتی کہ ماسوائے چین، ہمارا ہمسایوں کے ساتھ یا ہمسایوں کا ہمارے ساتھ کوئی نہ کوئی مسئلہ ضروررہتا ہے۔ پاکستان۔ایران تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار وزیراعظم کے حالیہ ( 11-12 مئی( دورہ ایران کو ’’دیر آید درست آید‘‘ کے طور پر بھی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ اہم وزٹ بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا، جبکہ اس کا اہتمام تب کیا گیا جب مزید سستی کی گنجائش نہیں تھی اور شاید اس دیری کے سبب دورہ سے وابستہ توقعات پوری نہ ہو سکیں۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ رواں سال کے ابتدائی مہینوں میں یکے بعد دیگرے متعدد اہم عرب شخصیات کی اسلام آباد آمد نے کئی قصے کہانیوں کو جنم دیا تھا۔ نائب وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کے بعد ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز کی تشریف آوری پر تو خوب حاشیہ آرائی ہوئی اور ’’فکر ہر کس بقدر ہمت اوست‘‘ والا سماں تھا۔ اس موقع پر جاری ہونے والی جائنٹ اسٹیٹمنٹ سے تو بعض حلقوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش بھی کی تھی کہ پاکستان خلیج کی عرب ریاستوں کو ایران کے خلاف سیکورٹی فراہم کرنے جا رہا ہے۔ بعض تجزیہ نگار تو اس حد تک چلے گئے کہ وزیراعظم عدم مداخلت کا لاکھ پرچار کریں، مگر سعودیہ میں گزارے سات برسوں نے ان کی ذہنی سوچ اور قلبی کیفیت کو یقیناً متاثر کیا ہے۔
ایسے میں تہران کی طرف سے الزام آیا کہ پاکستانی علاقہ سے ایران کے اندر دہشت گردی ہو رہی ہے اور کارروائیوں میں ملوث تنظیموں کو بعض مغربی خفیہ ایجنسیوں کی اعانت حاصل ہے۔ فروری 2014 میں ایران کے پانچ بارڈر سیکورٹی گارڈز کے اغوا کا ملبہ بھی پاکستان پر گرا۔ ایرانی وزیر داخلہ کے دورہ کے دوران بھی یہ مسئلہ پورے شد و مد کے ساتھ اٹھا۔ اور مغوی گارڈز کبھی بھی ہماری سرزمین پر نہیں رہے۔ اس کے باوجود دھمکی آئی کہ مغویان کی رہائی کیلئے پاکستانی سرحد کے اندر طاقت استعمال بھی کی جا سکتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان کا موقف درست نکلا اور حالات و واقعات نے واضح کر دیا کہ برادر ملک کی بد گمانی درست نہیں تھی۔ گوغلط فہمی دور ہو گئی مگر پاکستان اس سارےعرصہ میں شدید دبائو کا شکاررہا۔ آزاد و خودمختار ریاستوں کے مابین دو طرفہ معاملات برابری کی سطح پر طے پاتے ہیں۔ رواداری بھی اچھی چیز ہے اور سفارت کاری کا حسن خیال کی جاتی ہے مگر دوسروں کو کمفرٹیبل کرنے میں ہم کچھ زیادہ ہی آگے چلے جاتے ہیں اور ہمارا رویہ معذرت خواہانہ ہو جاتا ہے۔ کوئی ہفتہ بھر پہلے ( 16 مئی ) ایرانی بارڈر فورس نے ہماری سرحد کے اندر ضلع پنجگور کے نکور نامی گائوں پر بلا اشتعال فائرنگ کر کے ایک شخص ہلاک اور دوسرا شدید زخمی کردیا تھا اور ہماری رواداری کا یہ عالم کہ اس سانحہ پر احتجاج بھی نہیں کر پائے۔
روایتی طور پر ہمارے صدور اور وزرائے عظام کے غیر ملکی دورے ’’بے حد کامیاب‘‘ ہوتے ہیں اور اس فارمولہ کے تحت وزیراعظم کے حالیہ دورہ ایران نے بھی کامیابی کے خوب جھنڈے گاڑے ہیں۔
آٹھ عدد تو معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر ہی دستخط ہوئے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ان دستاویزات کے موضوعات ازکار رفتہ قسم کے دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً سزا پوری کرنے والے مجرموں اور قیدیوں کی حوالگی،غیر قانونی طریقے سے رقوم کی منتقلی کی روک تھام، مشترکہ سرحدی کمیشن، شماریات کے شعبے میں تعاون، کھیلوں کے فروغ، ماحولیاتی آلودگی کے کنٹرول میں تعاون، ثقافتی پروگراموں کے باہمی تبادلے اور تجارتی تنظیموں کے مابین تعاون سے متعلق مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کئے گئے۔ فائلوں کا پیٹ بھرنے کی حد تک تو ٹھیک ہے، مگر عملی طور پر اس ساری کارروائی سے فریقین کو کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں۔ دو طرفہ ملاقاتوں کی روداد بھی سفارتی زبان کی گلکاریوں کا شاہکار ہے۔ وہی خیر مقدمی جملے، وہی روایتی قسم کا اظہار تشکر۔ وہی قریبی برادرانہ تعلقات کی خواہش۔ کچھ نئے پرانے منصوبوں کی بکھری سی داستان۔ کچھ مواعید اور پند و نصائح۔ دو طرفہ تجارت کو پانچ بلین ڈالر تک پہچانے کی بات بھی ہوئی۔ جبکہ ایران کو موسٹ فیورٹ نیشن قرار دیئے جانے کے باوجود موجودہ مقدار ایک بلین ڈالر سے بھی کم ہے۔ بہتری کی خواہش دل کو لبھانے والی ضرور ہے۔ مگر اس کے لئے ہوم ورک بھی ضروری ہوتا ہے۔ جو بد قسمتی سے نہ ہونے کے برابر ہے۔
فی الوقت پاکستان اور ایران کے مابین اہم ترین معاملہ گیس پائپ لائن پروجیکٹ کاہے۔ مقام حیرت ہے کہ بیکار قسم کی نصف درجن مفاہمتی دستاویزات پر تودستخط ہو گئے، مگر اس اہم ترین منصوبہ کے حوالے سے کسی قسم کی لکھت پڑھت کو ضروری نہ سمجھا گیا۔ سارے وزٹ میں اس کا سرسری سا ذکر بھی غالباً ایک مرتبہ ہی ہوا۔ پاکستان اس ملٹی بلین پراجیکٹ کیلئے کمٹڈ توہے،مگر اقتصادی پابندیوں کا خوف بھی جان کو آیا ہوا ہے۔ سرکار شدید تذبذب کا شکار ہے۔ گویا سانپ کے منہ میں چھپکلی ہے، جسے نگلنا بھی محال ہے اور اگلنا بھی دشوار۔ زرداری صاحب نے بھی اپنے عہد اقتدار میں خوب پتے کھیلے۔امریکہ کو شیشے میں اتارنے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر ناکام رہے۔ جاتے جاتے فقط اتنا کر پائے کہ 11 مارچ 2013ء کو گیس پائپ لائن منصوبہ کے افتتاح کی غرض سے ایران تشریف لے گئے اور ایرانی ہم منصب کے ساتھ سرحدی قصبہ چاہ بہار میں فیتہ کاٹ آئے۔ موجودہ حکومت کا حال بھی پیپلز پارٹی سے مختلف نہیں۔ ایک طرف منزل کی شدید خواہش، دوسری جانب درپیش دشواریوں کا خوف۔ تب ہی تو واضح موقف اختیار نہیں کرپائے۔ اقتدار میں آتے ہی اعلان کیا کہ گیس پائپ لائن منصوبے کو بہرطور پایہ تکمیل کو پہنچایا جائے گا، مگر جلد ہی عزائم پر گویا اوس پڑ گئی اور گومگو کی کیفیت کا شکار ہوگئے۔ ایسے میں ہم بھول گئے کہ بین الریاستی معاہدات بچوں کا کھیل نہیں ہوتے۔ معاہدے کے تحت ایران یکم جنوری 2015ء سے روزانہ 750 ملین کیوبک فٹ گیس مہیا کرنے کا پابند ہے۔ جس کا وہ انتظام کرچکے۔ سرحد تک 1100 کلو میٹر طویل پائپ لائن بچھ چکی ہے جبکہ ہم نے ابھی تک بسم اللہ بھی نہیں کی۔ اب اگر ہم روایتی سستی اور دیگر وجوہ کے سبب ایرانی گیس وصول کرنے کی پوزیشن میں نہیں، تو خمیازہ تو بھگتنا ہو گا، جو بھاری جرمانے کی شکل میں بھی ہوسکتا ہے۔ اس حوالے سے مذکورہ دورہ میں کسی قسم کی پیش بندی کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ بیانیہ کی حد تک پاکستان۔ایران تعلقات مضبوط تاریخی اور مذہبی بنیادوں پر استوارہیں۔ ہمارے لسانی، تہذیبی اور ثقافتی رشتے بھی سانجھے ہیں۔ہمسائیگی بھی ہے اور بین الاقوامی فورمزپر باہمی اخلاقی اور سفارتی تعاون کی تاریخ بھی۔ اس پس منظر میں بدیہی طور پر دونوں ملکوں کے برادرانہ تعلقات کو فروغ ملنا چاہئے تھا۔ اگر ایسا نہیں ہوپایا تو اس کی کچھ وجہ ضرورہے، جسے ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ملاقات میں لگی لپٹی رکھے بغیر شرح صدر کے ساتھ بیان کر دیا۔ فرمایا: ’’تم اپنے فیصلے ازخود کرنے پر قادر نہیں ہو۔ اس کے لئے تمہیں کسی اور سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ ایران کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنا چاہتے ہو تو امریکی دبائو سے نکلنا ہو گا۔ کیونکہ سارے بگاڑ کا ذمہ دار وہی ہے، جو اپنے مغربی کاسہ لیسوں کے ساتھ مل کر ہمارے درمیان اختلافات اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کی سازش کرتا رہتا ہے۔ مزید فرمایا کہ انہیں پاکستانی اتنے ہی عزیز ہیں جتنے کہ ایرانی اور وہ دونوں برادر ملکوں کے باہمی تعلقات کے فروغ کیلئے دعا گو ہیں۔‘‘ ہماری تمنا ہو گی کہ موصوف کی دعا اللہ کے حضور شرف قبولیت پائے۔ مگر یاد رہے، بین الریاستی امور محض دعائوں کے سہارے نہیں چلا کرتے۔
تازہ ترین