پہلا فیصلہ یہ ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی نے فوج کو یہ اختیار دیدیا کہ وہ بھارتی حملے کا بھرپورجواب دے۔ کمیٹی نے یہ بھی اختیار دیا کہ فوج جواب دینے کے لئے وقت، طریقہ کار اور مقام کا تعین خود کرسکتی ہے۔ شنید ہے کہ پاک فوج سپہ سالار جنرل عاصم منیر کی قیادت میں دشمن کو عبرتناک جواب دینے کے لئے مکمل طور پرتیار ہے لیکن بعض اقدامات کے لئے اجازت ضروری تھی جواب انہیں مل گئی ہے اب بھارت اس جواب کا انتظار کرے جو وہ ایک طویل عرصے تک یاد رکھے گا ۔فوج کو مکمل اختیار ملنے کا سن کر بھارت میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ بھارتی فوج کو معلوم ہے کہ پاک فوج کا جواب کتنا سخت ہوگا۔ مودی بھی اب پچھتا رہے ہیں اور دوست ملکوں سے رابطے کرکے پاکستان کے ساتھ صلح کرانے کی اپیلیں کررہے ہیں۔ بھارتی عوام پر خوف کا عالم طاری ہے اور وہ مودی کوبرملا برابھلا کہ رہے ہیں۔ جس طرح پاکستانی قوم اور سیاسی جماعتیں متحد ہوکر اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں اس کابھارت میں تصور بھی نہیں ہے۔ بس اب بھارت انتظار کرے جوزیادہ لمبا انتظار نہیں ہوگا کہ افواج پاکستان بھارتی حملوں کے جواب میں کیا کرتی ہیں اور بھارت نے مزید غلطی کی تو بات دور تک جائے گی جو خطے کے امن کے لئے شدید نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ دوسرا اہم فیصلہ سپریم کورٹ کی طرف سے آیا ہے جو پانچ معزز جج صاحبان کی اکثریت نے متفقہ طور پردیا ہے جبکہ دومعزز جج صاحبان نے مخالفت کی ہے۔ یہ فیصلہ فوجی عدالتوں میں سویلین افراد کے ٹرائل سے متعلق دیاگیا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس اکثریتی فیصلے میں یہ اختیار دیا گیا ہے کہ شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ عدالت نے ایک سابقہ فیصلہ کو کالعدم قرار دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ سویلین افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا۔ اس فیصلے کے خلاف وزارت دفاع، شہدا فاؤنڈیشن اور دیگر نے اپیلیں دائر کی تھیں۔ سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے پانچ ، دوکی اکثریت سے تمام اپیلیں منظور کرتے ہوئے فوجی عدالتوں میں سویلین افراد کے خلاف مقدمات چلانے کو درست تسلیم کرلیا اور آرمی ایکٹ میں کی گئی بعض ترامیم کو بھی کالعدم قرار دےکر اس ایکٹ کو مکمل طور پر بحال کردیا ہے۔ واضح رہے کہ فوجی عدالتوں میں اس وقت تک زیادہ تر مقدمات کا تعلق نومئی کے شرمناک واقعات سے ہے۔
نومئی 2023ء کو ایک نام نہاد سیاسی جماعت نے شرپسندی کا منصوبہ تیار کیا اور پھر اس منصوبے پر عملدرآمد کےلئے شرپسندوں کو اکھٹا کرکے سارا پلان سمجھایا۔ اس کے بعد اس جماعت کے رہنماؤں کی ڈیوٹیاں لگائی گئیں ، شرپسندوں کو گائیڈ کرتے ہوئے انہیں مختص مقامات تک پہنچایاگیا۔ اس سے بڑی ملک دشمنی اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہدایات کے مطابق دفاعی تنصیبات،ریڈیو پاکستان ،پشاور اور متعدد ٹول پلازوں پرحملے کرکے جلایاوہاں لوٹ مار کی۔ اور تو اور جی ایچ کیو اور آئی ایس آئی کے دفاتر کے علاوہ جناح ہاؤس لاہور میں حملہ کرکے لوٹ مار کی۔ املاک کو توڑ پھوڑ کر جلایا اور آرمی وردی کی توہین کی لیکن شہداء کی یادگاروں کی جو بے حرمتی کی وہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک تھی۔ یہ تمام واقعات کھلی دہشت گردی تھے۔ ایسا کبھی پاکستان کی تاریخ میں کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔
سپریم کورٹ کا یہ تاریخی فیصلہ ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔ آئندہ کوئی ایسا کرنے کا سوچے گا بھی نہیں۔ اب فوجی عدالتوں پرقوم کی نظریں لگی ہوں گی۔ سپریم کورٹ نے تو اپنا فرض پورا کرکے نہایت احسن فیصلہ دیا ہے۔ قوم کی یہی آرزو تھی کہ فوجی عدالتوں کے ذریعے ملوث افراد کوایسی سخت سزائیں دی جائیں کہ آئندہ کے لئے مثال بن جائے۔ نومئی واقعات میں ملوث افراد کے خلاف نہ صرف ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں بلکہ کئی افراد کی گواہی بھی ریکارڈ پرہے۔ ان مذموم واقعات میں ملوث افراد کو یہ خوف تھا کہ فوجی عدالتوں میں مقدمات چلنے سے ان کو سخت سزائیں ہوسکتی ہیں اس لئے وہ عدالتوں میں طرح طرح کی درخواستیں دائر کرتے رہے کہ معاملے کو نہ صرف طول دے دیں بلکہ فوجی عدالتوں سےبھی بچ نکلیں۔ فوجی عدالتوں کے ٹرائل سے بھاگنا اور لیت ولعل سے معاملے کو طول دینے کی کوششیں بذات خود اعتراف جرم ہیں ورنہ وہ فوجی عدالتوں سے خوفزدہ کیوں ہوتے۔ اگر وہ شریک جرم یا مرتکب جرم نہیں تھے تو وہ فوجی عدالتوں سے نہ ڈرتے کیونکہ ان ہی فوجی عدالتوں سے ایسے کئی لوگ بری ہوئے، کچھ کو معمولی سزائیں ہوئیں جن پر نومئی کے واقعات میں ملوث ہونے کا شبہ تھا لیکن فوجی عدالتوں نے دوران ٹرائل یہ دیکھا کہ یہ لوگ ملوث جرم نہیں ہیں تو ان کو بری کردیا۔
اب قوم اور شہداء کے خاندانوں کو امید ہے کہ ان واقعات میں ملوث منصوبہ سازوں، سہولت کاروں، شرپسندوں اور بنیادی مجرمان کے خلاف بلا امتیاز کارروائی جلد کی جائے گی۔