• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان کی گرین بیلٹ کا اہم ترین شہر، اوستہ محمد

صوبہ بلوچستان کے سرسبز و شاداب خطّے’’ گرین بیلٹ‘‘ میں واقع معروف مشہور شہر اوستہ محمّد، نہ صرف بلوچستان کی زرعی اجناس کی سب سے بڑی منڈی ہے، بلکہ یہ شہر چاول صاف کرنے کی ایک سو سے زائد رائس ملز کے حوالے سے مُلک بھر میں خاصی شہرت کا حامل ہے۔ نصیر آباد ڈویژن کا یہ اہم کاروباری مرکز ماضی میں تاجروں کے لیے ایک پُرکشش مارکیٹ، منافع بخش کاروبار کا ذریعہ سمجھاجاتا تھا اور اس وقت کے ہندو تاجروں کے لیے آئیڈیل سٹی کا درجہ رکھتا تھا۔ 

تب ہی بلوچستان اور سندھ کے ملحقہ شہروں سے ہندو تاجر، جُوق در جُوق اوستہ محمّد کا رُخ کرتے۔ 2010ء کےتباہ کُن سیلاب کے بعد سندھ کے مختلف شہروں اور دیہات سے ہزاروں افراد نے ہجرت کرکے اس شہر کو اپنا مسکن بنایا کہ یہاں اُنہیں جان و مال کے تحفّظ، چادر، چار دیواری سمیت کاروباری سہولتیں بھی میسّر تھیں۔ ہر طرف چین، سکون اور خوش حالی کا دور دورہ تھا، پڑوسی آپس میں بھائی چارے، باہمی رواداری اور اخلاص کے لازوال رشتوں میں بندھے تھےکہ اچانک حالات نے کروٹ بدلی، اس پُرامن شہر میں بدامنی، لاقانونیت اور باہمی نفرت نے ڈیرے ڈال دیئے۔ 

لوگوں میں عدم تحفّظ کا احساس دن بہ دن بڑھنے لگا، سیکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر متعدد ہندو گھرانے اس شہر سے اپنا دیرینہ رشتہ توڑ کر شکستہ دِلوں کے ساتھ بھارت روانہ ہوگئے۔ بدامنی اور عدم تحفّظ کا احساس بڑھنے لگا، تو کاروباری سرگرمیاں بھی ماند پڑگئیں۔ ماضی کے پُرامن و خوش حال شہر میں بھوک، افلاس اور بے روزگاری کے عفریت نے ڈیرا جمالیا، لوگ رفتہ رفتہ شہری سہولتوں سے محروم ہوتے چلے گئے۔ 

چاروں طرف سے پھل دار درختوں، خوش نُما پھولوں اور ہَرے بَھرے میدانوں سے گِھرا یہ شہر آج کھنڈرکا بدنما منظر پیش کرنے لگا ہے۔ جہاں کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، شکستہ حال گلیاں اور نکاسی آب کی ٹوٹی ہوئی نالیاں شہریوں کی مجبوری و بے کسی کا منہ چڑا رہی ہیں۔

شہریوں کو نہ صرف بدامنی اور اسٹریٹ کرائمز کا سامنا ہے، بلکہ بجلی، گیس اور پینے کے صاف پانی کی عدم دست یابی کا مسئلہ بھی شدت سے درپیش ہے۔ امن و امان کی تیزی سے بگڑتی صورتِ حال میں کوئی شخص کسی بھی جگہ خُود کو محفوظ تصوّر نہیں کرتا۔ دن دیہاڑے لُوٹ مار کے واقعات نے شہریوں اور کاروباری طبقے کو ہراساں کر رکھا ہے۔

جرائم پیشہ عناصر کُھلے عام دندناتے پھرتے ہیں اور پولیس امن وامان قائم کرنے میں عملاً ناکام دکھائی دیتی ہے۔ بینکوں سے رقم نکلواکر جانے والے تاجروں اور عام شہریوں کو بلاخوف راستوں ہی میں لوٹ لیا جاتا ہے۔ موٹر سائیکلز اور گاڑیاں چھیننے کی وارداتیں معمول بن چکی ہیں۔ ڈاکو گلی، محلّے کے دکان داروں تک کو اسلحے کے زور پر لوٹ لیتے ہیں۔

ایک طرف لوٹ مار کے واقعات کا تسلسل ہے، تو دوسری جانب ناجائز منافع خور تاجروں کی لوٹ مار کے سبب عام شہری خودساختہ منہگائی کی چکّی میں بھی بری طرح پس کر رہ گئے ہیں۔ یاد رہے، اوستہ محمّد میں مارکیٹ کمیٹی کے قیام سے قبل فروٹ اور سبزی منڈی پر دو سے تین آڑھتیوں کی اجارہ داری کے سبب اوستہ محمّد، سندھ اور بلوچستان کا سب سے منہگا شہر گردانا جاتا تھا اور شہریوں کے پُرزور احتجاج اور مسلسل مطالبات کے باوجود انتظامیہ، منہگائی پر قابو پانے سے قاصر تھی۔ 

ایسے میں بڑے پیمانے پر ’’مارکیٹ اسکوائر‘‘کی تکمیل کے بعد شہریوں کو توقع تھی کہ مارکیٹ کمیٹی میں اوپن بولی سے سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں بہت حد تک کمی آئے گی، لیکن بدقسمتی سے صورتِ حال اب بھی جوں کی توں ہے۔ ناجائز منافع خوروں کی اجارہ داری کی وجہ سے آڑھتی، مارکیٹ کمیٹی میں بھی اپنے پنجے گاڑنے میں کام یاب ہوگئے ہیں۔

مبیّنہ طور پر یہ سب کچھ مارکیٹ کمیٹی کے اربابِ اختیار کی ملی بھگت ہی سے ہورہا ہے کہ ماشہ خور سبزی فروش اور ریڑھی بان برملا طور پر انھیں ہی منہگائی کا ذمّے دار قرار دیتے ہیں۔ اُن کے بقول انہیں مارکیٹ میں نیلامی اور اوپن بولی کی بجائے سبزیاں اور فروٹ ناپ تول کر اپنے طور پرمقرر کردہ قیمتوں پر دیئے جاتے ہیں۔ 

جب کہ چھوٹے پیمانے پر کاروبار کے ذریعے اپنے بچّوں کی روزی روٹی کا وسیلہ بننے والے یہ غریب ریڑھی بان اور دکان دار ان آڑھتیوں کے مقروض ہیں اور وہ اِن کی مجبوری کا پورا فائدہ اٹھا کر منہگائی کا سارا ملبہ شہریوں کے ناتواں کاندھوں پرڈال رہے ہیں۔

ایک غیر سرکاری سروے کے مطابق، سندھ کے ملحقہ شہروں کی نسبت اوستہ محمّد میں سبزیاں، پھل، فارمی مرغی، بکرے اور گائے کے گوشت کی قیمتوں میں 30سے 50فی صد کا فرق نمایاں ہے۔ اس کے باوجود روزہ مرّہ استعمال کی اشیاء سمیت تعمیراتی میٹریل کی قیمتوں کو اعتدال پر لانے اور کوالٹی کنٹرول کا میکنزم بنانے پر کوئی توجّہ نہیں دی جارہی۔ 

ناجائز منافع خور، ہول سیلرز اور ریٹیلرز کو گویا اس شہر میں، جہاں غربت و افلاس نے پہلے ہی پنجے گاڑے ہوئے ہیں، گویا کُھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ منہگائی اور بے روزگاری اس قدر بڑھ گئی ہے کہ شہر میں بھکاریوں، گداگروں کی تعداد میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ 

سوال یہ ہے کہ ان معاملات کو ٹھیک کرنا کس کی ذمّے داری ہے، کیوں کہ جن کی ذمّے داری ہے، وہ تو غالباً مصلحتاً خاموش ہیں، تو کیا شہری اسی طرح چوروں، ڈاکوؤں، لٹیروں کے ہاتھوں لُٹتے رہیں گے؟ اس شہر کا امن و امان خراب کرنے والے حکومت کی رِٹ کو اسی طرح چیلنج کرتے رہیں گے؟ گرین بیلٹ کی رونقیں بحال کرنے کے لیے بالآخر متعلقہ اداروں کو غیر مقبول فیصلے کرنے پڑیں گے کہ قانون کی حکم رانی قائم کرکے ہی ان مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہے۔