• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنگ تباہی تو لاتی ہی لاتی ہے اس کا سب سے بڑا خطرناک اور خوفناک پہلو یہ ہوتا ہے کہ کسی کو بھی علم نہیں ہوتا کہ جنگ کا نتیجہ کیا نکلے گا اور کس کے حق میں نکلے گا۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ سائز میں چھوٹا ملک ہونے کے باوجود پاکستان نے اپنی دفاعی،سفارتی اور تکنیکی دھاک بھی بٹھائی اور فتح یاب ہو کر باوقار جنگ بندی کرنے میں بھی کامیاب رہا ۔ کئی دہائیوں کے بعد 1965ء والا جذبہ دوبارہ سے دیکھنے میں آیا۔پاکستان میں اس دفعہ ہر کسی کو یقین تھا کہ بھارت غلطی پر ہونے کے باوجود زیادتی کر رہا ہے اور پاکستان اس دفعہ حق پر ہونے کے باوجود جارحیت سے گریز کرکے مدافعانہ حکمت عملی پر رواں دواں ہے۔ بھارت او رپاکستان دونوں جمہوری اور امن پسند ممالک ہیں دونوں ملکوں کی غالب آبادی امن اور خوشحالی کی خواہاں ہے لیکن بھارتی وزیر اعظم پر دوسروں کو مس گائیڈ کردیاگیااور انہیں قائل کیاگیاکہ ہندوتوا کے مذہبی تصور کے ذریعے خطے میں برتری اور بالادستی ثابت کرنے کا بھوت سوار ہے ۔جبکہ برصغیر کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں کے لوگ کسی کی بالادستی قبول نہیں کرتے بالخصوص زور زبردستی سے تو اس خطے میں حکمرانی کرنا ناممکن ہے۔ تاریخ میں دو حکمرانوں نے 40 سے 50 سال تک اس خطے میںبہترین حکمرانی کی ہے۔ اشوکا اور اکبر اعظم دونوں رواداری، انصاف، محبت اور دانش سے اس خطے کے بہترین حکمران تصور کئے جاتے ہیں۔ مودی جی شروع میں امن کی طرف مائل تھے مگر پھر ہندوتوا کے جھوٹے نعرےکے رتھ پر سوار ہو کر ان میں رعونت اور ضد آگئی اور یوں اس بار وہ 400 سے پار جانے کے احمقانہ ہدف سے کہیں پیچھے رہ گئے۔ تاریخی طور پر پاکستان نے جنرل مشرف کے دور سے خود پرلگنے والے دہشت گردی کے الزامات کا اندرونی طور پر احتساب کیا ہے۔ فیٹف کا بیرونی دبائو اس کے علاوہ تھا مگرجنر ل مشرف، جنرل راحیل شریف، جنرل باجوہ اور جنرل عاصم منیر کی طرف سے امن اور صلح کی پیش کشوں کے باوجود مودی جی نے انہیں درخور اعتنا نہیں سمجھا ۔ اور تو اور صدر زرداری، نواز شریف اور عمران خان نے ذاتی حیثیت میں ہمیشہ امن کی حمایت کی مگر بھارت نے متکبرانہ سرد مہری سے انہیں نظر انداز کردیا اور اس پر مستزاد یہ کہ پاکستان کی جہادی پالیسی میں نمایاں تبدیلی کے باوجود کشمیر میں الٹا بھارت نے مزید سختیاں بڑھا کر یہ پیغام دیا کہ پاکستان جو مرضی کرلے ہم نہیں مانیں گے۔ دوسری طرف بلوچستان اور خیبر پختونخوامیں دہشت گردی کی سرپرستی سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ۔ حد تو یہ کر دی کہ پاکستان کے اندر اپنے تخریب کاروں کی مدد سے سابق جہادیوں کو ٹارگٹ بنایا۔ یہ سارے واقعات بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف جنگی اقدامات تھے۔ حالیہ دنوں میں جب پاکستان معاشی استحکام اور پھر معاشی اڑان کی طرف لےجانا چاہتا ہے، یہ اقدامات بھارت کے سازشی عزائم کو بھی آشکار کرتے تھے۔

الحمد للّٰہ ، باوقار اور باعزت جنگ بندی کے بعد توقع کی جانی چاہئے کہ مودی جی کا ہندوتوا اور بالادستی کا نظریہ تبدیل ہوگا اور وہ چانکیہ سیاست کی بجائے مخلصانہ اقدامات کریں گے کیونکہ آج کل ملک اکیلے ترقی نہیں کرتے، خطے ترقی کرتے ہیں۔ یورپی یونین اور آسیان ممالک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کو دبا کر اور اپنی بالادستی قائم کرکے نہیں بلکہ باعزت پارٹنر شپ اور معاشی تعاون سے ترقی کر سکتا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ بھارت سنگا پور بن جائے اور خطے کے دوسرے ممالک پیچھے رہ جائیں یہ خیال ِخام ہے مودی جی اور انڈیا کو جتنی جلد یہ بات سمجھ آ جائے بہتر ہے۔

دوسری طرف ہمیں بھی فتح کے نعرے لگاتے ہوئے تکبر اور عظمت کے نشے میں چور نہیں ہونا چاہیے، اسلامی تعلیمات کےمطابق فتح مکہ کے روز سرور دو عالمؐ نے سب کو معاف کردیا، دشمن کے سردار کے گھر کو جائے امان قرار دیا۔ ابوجہل کا بیٹا اسلام قبول کرنے کیلئے آنے والا تھا تو محبوبؐ خدا نے اس کے شایان شان استقبال کو یقینی بنایا اور صحابہ کرامؓ کو کہاکہ آج اس کے والد ابوجہل کے خلاف بات نہیں کرنی کہ اس کو برا نہ لگ جائے۔ بعد میں عکرمہ بن ابوجہل بڑے صحابی بنے۔ ہمیں بھی فتح کے نشے میں مدہوش ہو کر بھارت اور اسکے امن پسند شہریوں کی توہین سے باز رہنا چاہیے۔ اسلام میں فتح کے بعد عاجزی اور خدا کے سامنے سجدہ ریز ہونے کی روایت ہے۔ مودی کو سب و شتم کا نشانہ بنا کر ہم صلح کی روح کو نقصان پہنچائیں گے۔ اسی طرح بھارت کے جنونی میڈیا کوبھی پاکستان کو جھوٹا ثابت کرنے، اس کے لیڈروں کی توہین کرنے اور ہمارے ملک کو کمزور ثابت کرنے کی گفتگو سے پرہیز کرنا چاہیے۔ بھارتی میڈیا کے کاغذی اور صوتی جنرل تاریخ میں جنگی جنونی کہلائیں گے جب آنے والے کل میں لوگ جنگوں کو بے وقوفی اور بے عقلی قرار دیں گے تو بھارتی میڈیا کے ان نام نہاد جرنیلوں کا تاریخ میں وہی مقام ہوگا جو ہٹلر کے دست راست جوزف گوئبلز یا صدام حسین کے وزیر اطلاعات سعید صحاف کا ہے۔

آئینی بندوبست کے اندر رہ کر جنرل عاصم منیر نے جس طرح سے ولولہ انگیز لیڈر شپ دی ہے، اس سے ان کی قبولیت اور مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ، انکی سیاسی مخالفت کرنے والے بھی ان کی تعریفیں کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں ایسے میں ان کی ذمہ داری معاشی اور دفاعی سے بڑھ کر قومی ہوگئی ہے۔انہیں اب زیادہ سوچ بچار کرنی چاہیے کہ جس طرح حالت جنگ میں پوری قوم ان کے پیچھے کھڑی ہوئی، حالت امن میں بھی یہ اتحاد قائم رہے۔ دوسری طرف کپتان خان کو بھی ملک کے اندر ہونے والی تبدیلیوں کا ادراک کرنا چاہیے۔ تازہ حالات میں نہ فوج غیر مقبول ہے اور نہ اس کے سربراہ۔ بلکہ معاملہ اس کے الٹ ہوگیا ہے جنگ میں جنرل عاصم منیر ایک ہیرو بن کر ابھرے ہیں، اب انکی عوامی پوزیشن کمزور نہیں بلکہ بہت مضبوط ہوگئی ہے اس لئے نئی صورت حال میں عمران خان کو اپنی جنرل مخالف پالیسی میں فوراً تبدیلی کرنی چاہیے۔

جنگیں جہاں تباہی لاتی ہیں وہیں ان سے نئے مواقع اور نئے حالا ت بھی جنم لیتے ہیں اس جنگ بندی کو پاکستان اور بھارت کے کروڑوں باشندوں کیلئے امن اور خوشحالی کا موقع بننا چاہیے۔ فرانس اور انگلینڈ سوسالہ دشمنی کے بعد دوستی کے بندھن میں بندھ چکے ہیں، اسی طرح خلیجی ممالک ازلی دشمن اسرائیل سے ہاتھ ملا رہے ہیں ۔دنیا میںسب کچھ بدل رہا ہے آج معیشت، عقل اور ٹیکنالوجی کا دور ہے مقابلہ اب جنگوں کی بجائے اِن شعبوں میں کرنا چاہیے ستر سالوںمیںنہ بھارت نے کچھ ایجاد کیا ہے اور نہ پاکستان نے۔ کاش دونوں ملک جنگیں چھوڑ کر امن اور خوشحالی کی طرف چلیں وگرنہ دنیا اس خطے کو جنونیوں کا علاقہ سمجھے گی۔

تازہ ترین