• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرےایک دوست نے کسی کی تعریف یاتنقیص کرنا ہو تو وہ ایک صفت یا ایک نقص بیان کرنے کی بجائے بیک وقت تین نقائص بیان کرتےہیں، مثلاً انہوں نے اگر کسی دکان سے فالودہ کھایا ہے اور وہ انہیں پسند آیا ہے تو وہ اس کی تعریف یوں کریں گے’’فالو دہ بہت اچھا ہے، ایک تو اس میں دودھ خالص ہے ، دوسرے مٹھاس متوازن ہے اور تیسرے صفائی بہت ہے‘‘، کوئی شخص ناپسند ہو تو اس پر تبصرہ کرتے ہیں ،’’ایک تو وہ بولتا بہت ہے، دوسرے بے وقوف ہے، تیسرے گنجا ہے‘‘،میرے یہ دوست گزشتہ روز میرے پاس تشریف لائے اور کہا’’تمہارے پاس آج کا اخبار ہے‘‘۔ میں نے اخبار لاکر پیش کیا، اخبار پر ایک نظر ڈالی اور بولے ’’اخبار بینی بھی ایک عذاب ہے ایک تو اس میں اچھی خبر نہیں ہوتی، دوسرے غیر مستحق لوگوں کو لیڈر بنا کر پیش کیا جاتا ہے، تیسرے اس میں بقیے بہت ہوتے ہیں‘‘۔ میں اپنے اس دوست کی ’’تثلیث‘‘ سے بہت تنگ آیا ہوا ہوں۔ ایک دن تنگ آکر میں نے ان سے کہا’’یار یہ تم تین کی بجائے ایک صفت یا ایک نقص بیان نہیں کرسکتے‘‘ کہنے لگے’’ کرسکتا ہوں مگر اس میں ایک پرابلم تو یہ ہے کہ دل کا بوجھ ہلکا نہیں ہوتا، دوسرے بات ادھوری رہ جاتی ہے اور تیسرے یہ کہ کچھ عادت بھی ہوگئی ہے‘‘۔
میرے خیال میں میرے دوست کی یہ تیسری بات زیادہ صحیح ہے اور یہ عادت صرف انہی کی نہیں بلکہ پوری قوم کی ہے کہ جسے پسند کرتے ہیں اس کی شان میں سہ غزلے کہتے ہیں اور جسے ناپسند کریں، اس پر تین حرف ضرور بھیجتے ہیں، میں نے کئی دفعہ اپنے دوستوں سے کہا کہ زندگی ڈپٹی نذیر احمد کا ناول نہیں جس کا ہر کردار فرشتہ یا شیطان ہو، بلکہ گوشت پوست کی جس مخلوق کو ہم انسان کہتے ہیں وہ بڑی پیچیدہ چیز ہے، اس میں بیک وقت رحمانی اور شیطانی صفات ہوسکتی ہیں چنانچہ ایک ہی شخص کے کردار کا حصہ قابل تحسین اور دوسرا قابل مذمت ہوسکتا ہے۔ میں نے اس ضمن میں انہیں بہت سی مثالیں بھی دیں مثلاً ایک سیاستدان نے ملک توڑنے میں اہم کردار ادا کیا اور بقیہ ملک کا حکمران بننے کے بعد اس کی تعمیر کے لئے بہت کچھ کیا یا ایک فوجی حکمران نے ملک کو سیاسی، اخلاقی اور معاشی تباہی کے دہانے پر بھی لاکھڑا کیا اور دوسری طرف کچھ مثبت کام بھی کئے،مگر ہم لوگ کسی نظرئیے کے حوالے سے کم اور شخصیت کے حوالے سے زیادہ شجاعت کے جوہر دکھانے میں مشغول رہتے ہیں، ہم لوگوں کا یہ رویہ سیاست ہی نہیں مذہبی معاملات میں بھی در آیا ہے۔ فروعی مسائل کو ہم نے زندگی موت کا مسئلہ بنا رکھا ہے۔ اب فرقے خود مختار مذاہب میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں کسی معمولی سے اختلاف کو بھی چشم زدن میں کفر اور اسلام کا مسئلہ بنایا جاسکتا ہے، کسی دوسرے کی کوئی بات ہمیں اچھی نہیں لگتی، کمزور اور من گھڑت روایات سے لوگوں کو ان کی جہالت اور تشدد میں پختہ کیا جارہا ہے اور یوں ایک ہی بنیادی سچائی کو ماننے والے لوگ ایک دوسرے سے ازلی دشمنوں کی طرح برسرپیکار ہیں۔
میں نے اپنے انہی دوست سے جو ہر مسئلے پر شدت سے اظہار خیال کے لئے سہ نکاتی پروگرام پیش کرتے ہیں، ان مسائل پر گفتگو کی اور پوچھا کہ ہم لوگ اپنے رویوں میں معتدل کیوں نہیں رہے؟ بولے ’’معتدل ہونے کی کیا ضرورت ہے، معتدل ہونے سے ایک تو بات میں وزن نہیں رہتا، دوسرے اس سے انسان کی بزدلی ظاہر ہوتی ہے اور تیسرے یہ کہ لوگ معتدل رویے کی وجہ سے ایک دوسرے سے محاذ آرائی کی بجائے ایک دوسرے کے قریب آنا شروع ہوجاتے ہیں‘‘۔ یہ سن کر میں چونکا اور پوچھا’’مکالمے کے ذریعے کسی مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کی بجائے محاذ آرائی کا راستہ اختیار کرنا کیوں ضروری ہے؟‘‘بولے’’یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے، محاذ آرائی سے ایک تو انسان متحرک رہتا ہے دوسرے وہ ڈانواں ڈول نہیں ہوتا اور تیسرے محاذ آرائی سے بے روز گاری میں کمی کی جاسکتی ہے‘‘۔ میں اس آخری نکتے پر پریشان سا ہوگیا اور کہا ’’یہ کیا بات ہوئی، محاذ آرائی سے بے روزگاری میں کمی کس طرح کی جاسکتی ہے‘‘،دوست نے کہا’’ایک تو ہزاروں کی تعداد میں نعرے لگانے والے بھرتی کئے جاتے ہیں، دوسرے اپنے حامیوں کو ملازمتیں دینا پڑتی ہیں اور تیسرے یہ کہ جنہیں کسی اصطبل میں گھوڑے کو خرخرے کرنے کی ملازمت بھی نہ مل سکتی ہو اس محاذ آرائی کے طفیل وہ وزیر اور مشیر بن سکتے ہیں‘‘۔
اپنے دوست کی اس گفتگو سے میں خاصا متاثر ہوا بلکہ انہوں نے محاذ آرائی کے حق میں اتنے مسکت دلائل دئیے کہ نہ صرف یہ کہ میں لاجواب ہوگیا بلکہ ہمنوا بھی۔ مجھے تو کچھ یوں بھی محسوس ہوا جیسے دوست کی روح مجھ میں حلول کر گئی ہے، چنانچہ گفتگو کے اختتام پر جب دوست نے پوچھا کہ اب اس مسئلے کے بارے میں تمہاری رائے کیا ہے تو میں نے کہا’’محاذ آرائی کا سلسلہ جاری ہی نہیں رہنا چاہئے بلکہ اسے تیز سے تیز تر ہونا چاہئے تاکہ مارشل لاء کی منزل قریب سے قریب تر آئے‘‘۔
یہ سن کر اس دفعہ میرے یہ دوست چونکے اور بولے’’ تم مارشل لاء کا انتظار اتنی بے تابی سے کیوں کررہے ہو‘‘۔ میں نے کہا’’ایک تو اس لئے کہ میرا تعلق بھی مفاد پرست طبقے سے ہے جسے مارشل لاء کی غلامی راس آتی ہے، دوسرے سیاستدانوں کی اپنی خواہش بھی یہی لگتی ہے اور تیسرے اس لئے کہ ویسے بھی گزشتہ کچھ برسوں سے مارشل لاء نہیں لگا‘‘۔


.
تازہ ترین