پاکستان پر بھارتی جارحیت کے جواب میں ہماری مسلح افواج کے منہ توڑ جواب کے بعد دونوں ممالک میں جنگ بندی ہو چکی ہے۔ اس مختصر عرصے میں پاکستان کی مسلح افواج نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کی قیادت میں یکجان ہو کر بھارت کے عسکری ٹھکانوں پر جو کاری ضرب لگائی ہے وہ تاریخ میں یاد رکھی جائے گی۔ پاک فضائیہ کے شاہینوں نے پہلے فضائی معرکے میں ہی جس بہادری اور بےمثال مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انڈیا کے چھ جہاز تباہ کرکے انڈین ائیر فورس کو بے اثر کیا اس نے قوم کے حوصلے بلند کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح پاک بحریہ نے بھی سمندری سرحدوں کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنائے رکھا جس کی وجہ سے دشمن کو آبی راستے سے کسی جارحیت کی جرات نہیں ہوئی۔ علاوہ ازیں پاکستان کی سیاسی قیادت اور عوام نے بھی ہر محاذ پر اپنی مسلح افواج کا بھرپور ساتھ دیا جس کی وجہ سے سفارتی، سیاسی اور میڈیا کے محاذ پر بھی بھارت کو ناکامی کا سامنا رہا۔
اس چند روزہ جنگ میں اگرچہ ہمارا پلہ بھاری رہا اور ہم نے انڈیا کو شکست فاش سے دوچار کیا لیکن اس کے باوجود ہماری سیاسی و عسکری قیادت نے جنگ کو طول نہ دے کر امن پسندی اور دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔ قبل ازیں پہلگام واقعہ سے متعلق بھی پاکستان غیر جانبدار تفتیش کی پیشکش کرکے پوری دنیا کے سامنے اپنی امن پسندی کا ثبوت پیش کر چکا ہے۔ اب بھی پاکستان کی یہ پیشکش برقرار ہے تاکہ دنیا کے سامنے انڈیا کے اس "فالس فلیگ" آپریشن کی حقیقت سامنے آ سکے۔ اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان نے کشیدگی کے آغاز سے ہی نہایت صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر اپنا کردار ادا کیا جبکہ اس کے جواب میں ہندوستان کی حکومت اور میڈیا نے اسے پاکستان کی کمزوری سمجھتے ہوئے دھمکیوں اور الزام تراشی کا سلسلہ جاری رکھا۔
اب یہ دھمکیاں اور جھوٹ ان کے اپنے گلے کا طوق بن چکے ہیں اور بھارت کے عوام بار بار یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر انڈیا یہ جنگ جیت رہا تھا تو پھر اس نے سیز فائر کیوں کیا۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ قابل رحم حالت ان انتہا پسند طبقات کی ہے جو سمجھے رہے تھے کہ پاکستان ان کے لئے ایک تر نوالہ ثابت ہو گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے اپنے سیاسی مفادات کے لئے اپنے ہی شہریوں کو جنگی جنون میں مبتلا کرکے گھاٹے کا سودا کیا ہے جس کی سیاسی قیمت آنے والے وقت میں اسے ادا کرنی پڑے گی۔دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ اس بحران کے دوران بھارت کی طرف سے پاکستان کو سفارتی طور پر تنہائی کا شکار کرنے کی کوششیں بھی کامیاب نہیں ہوئیں۔
اس حوالے سے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے پہلگام واقعہ سے متعلق پاکستانی موقف کو تسلیم کیا جبکہ چین، ترکیہ، ایران، بنگلہ دیش، سعودی عرب، آذربائیجان اور دیگر دوست ممالک نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا۔ علاوہ ازیں بھارت کے ساتھ اس عسکری معرکے میں پاکستان کی کامیابی میں چین کی دفاعی ٹیکنالوجی اور تعاون نے اہم کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے جوابی حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی انڈیا نے جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کر دی اور اب بھارت کی تمام سیاسی و عسکری قیادت اپنے شہریوں کو وضاحتیں پیش کرتے پھر رہی ہے۔ اس مس ایڈونچر سے نہ صرف مودی حکومت کی سیاسی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے بلکہ آنے والے وقت میں یہ بحران بھارت کے عالمی طاقت بننے کی خواہش میں بھی بڑی رکاوٹ ثابت ہو گا۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے بھارت نے اپنی معاشی اور عسکری طاقت کے زعم میں پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کو دبائو میں رکھنے کی پالیسی اپنا رکھی تھی۔ بھارتی حکومت نے طویل عرصے سے جنوبی ایشیا کے ممالک کے مابین باہمی تعلقات اور معاشی تعاون کے لئے بنائی گئی تنظیم سارک کو غیر فعال بنا رکھا تھا۔ علاوہ ازیں بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ کی حکومتوں کو بھی بھارت نے اپنا زیرنگیں سمجھنا شروع کر دیا تھا اور اس کی پوری کوشش تھی کہ پاکستان کو بھی کسی نہ کسی طرح محکوم بنایا جائے۔ تاہم پاکستان نے دیوالیہ ہونے کے خطرات کا دانشمندی سے مقابلہ کرتے ہوئے نہ صرف معاشی طور پر اپنی حالت کو بہتر بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے بلکہ بھارت کی عسکری بالادستی کا خواب بھی چکنا چور کر دیا ہے۔ اس طرح پاکستان نے خطے کے دیگر ممالک میں بھی بھارت کی بے جا مداخلت کا راستہ بند کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر کے مسئلے کو بھی دوبارہ عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
امریکہ کی طرف سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ جب تک کشمیر کے مسئلے کا مستقل اور پرامن حل نہیں نکالا جائے گا دونوں ممالک کے درمیان مستقبل میں بھی جنگ کے امکانات موجود رہیں گے۔ علاوہ ازیں مودی حکومت نے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرکے دونوں ممالک کے مابین ایک نئے تنازع کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اس لئے جب تک عالمی برادری دونوں ممالک کے مابین موجود تنازعات کا پرامن اور منصفانہ حل یقینی نہیں بنائے گی جنگ کا خطرہ موجود رہے گا۔ بی جے پی کی قیادت کو یہ سمجھ جانا چاہیے کہ ہر بار الیکشن سے پہلے پاکستان دشمنی کو ہوا دے کر اپنی کوتاہیوں کو چھپانے کی یہ پالیسی مزید کامیاب نہیں ہو گی۔ اس حوالے سے بھارت کی موجودہ اپوزیشن جماعتوں کا کردار بھی اہم ہے کہ وہ دونوں ممالک کے مابین تنازعات اور کشیدگی کو بڑھانے پر مودی حکومت کا کھل کر محاسبہ کریں۔ اس طرح جنگی جنون کا خاتمہ کرکے دو ایٹمی ممالک کے تعلقات معمول پر لا کر اس خطے کو امن کاگہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔