اس دنیا میں جو سب سے زیادہ اذیت ناک اور دردناک چیز ہے ، وہ خوف ہے ۔وزن کم کرنا مشکل ترین کام ہے لیکن خوف میں مبتلا شخص دنوں میں پتلا ہو جاتا ہے ۔ خدا جب انسان پر اپنی عظیم ترین نعمتوں کا ذکر کرتا ہے تووہ کہتاہے کہ تم بھوکے تھے، میں نے تمہیں کھانا دیا او رتم خوف کی حالت میں تھے، میں نے تمہارے ذہن پہ امن نازل کیا۔
دماغ کی خوفناک ترین بیماریوں میں سے ایک Obsessionکہلاتی ہے ۔ اسکا مریض اپنے ہاتھ دھونے شروع کرتاہے تو گھنٹوں دھوتا رہتاہے ۔ پانی ختم ہو جاتاہے ، اسکے ہاتھوں کی جلد اترنا شروع ہو جاتی ہے ۔ مریض کو یقین نہیں آتا کہ اس کے ہاتھ صاف ہو چکے ہیں ۔ اس بیماری کی اصل وجہ بھی خوف ہی ہے ، جراثیم کا خوف۔ یہ تو خیر اس شخص کی بات ہے جو شدید ذہنی بیماری سے دوچار ہے لیکن عام شخص بھی اگر کسی خوف کا شکار ہو تووہ بے پناہ اذیت میں ہوتا ہے ۔ وہ سوچتا ہے کہ میں گھر سے نکلوں گا تو گھات میں بیٹھا ہوا دشمن مجھ پر یا میرے اہلِ خانہ پہ حملہ آور ہوجائے گا۔
کوئی نہیں جانتا کہ اس دنیا کے بڑے بڑے لوگ اندر ہی اندر ایک بے پناہ خوف کا شکار ہیں ۔ تین لاکھ سالہ تاریخ میں انسان اس دنیا میں اتنے خوفناک حادثات دیکھ چکا ہے کہ اب وہ اس خوف سے کبھی نہیں نکل سکتا۔ کیا جاپانی قوم ایٹم بم کے صدمے سے مکمل طور پر کبھی باہر آسکتی ہے ؟انسان کے آبائو اجداد نے کرــہ ارض پہ اتنے خوفناک حادثات دیکھ رکھے ہیں ، جو بیان نہیں کیے جا سکتے ۔خوف اور نفسیاتی سانحے انسان کی اولاد میں منتقل ہوتے ہیں ۔ پہلی بار جب انسان نے کسی کو بھوک سے مرتے دیکھا تویہ خوف اس کے اندر اتر گیا کہ کل کو یہ میرے ساتھ بھی ہو سکتا ہے ۔ اس کا حل اس نے یہ نکالا کہ جتنا ہو سکے، روپیہ جمع کرو ۔
اس خوف کا منبع کیا ہے ؟ جب انسان کوئی جرم یا گناہ کرتاہے تو اس کے اندر یہ خوف پیدا ہونا شروع ہو جاتاہے ۔ انسان اپنی کم علمی کی وجہ سے بھی خوف کا شکار ہوتاہے ۔ انسان چونکہ سوچنے کی صلاحیت رکھتاہے ، اس لیے وہ کل کے بارے میں سوچتا ہے کہ کل کیا ہوگا۔دشمن حملہ کرے گا، میرا مال و متاع لوٹ کر لے جائےگا ۔ میں اور میرے اہلِ خانہ بھوکے مر جائیں گے ۔پھر وہ سوچتا ہے کہ بیرونِ ملک دولت منتقل کر لوں ۔ اگر یہاں آفت ٹوٹی تو باہر نکل بھاگوں گا۔اپنی تقدیر سے انسان کہاں بھاگ سکتاہے ؟
جس شخص کا خدا سے تعلق ہوتاہے ، وہ مومنٹ ٹو مومنٹ یا لمحہ حال میں زندگی بسرکرتاہے ۔ وہ جانتاہے کہ اس دنیا میں ، ایک کمزور جسم میں میری روح ایک مہمان ہے ۔ یہ جسم اور یہ دنیا ایسی بنی ہی نہیں کہ مکمل حفاظت کابندوبست ہوسکے۔
یوں بُنی ہیں رگیں جسم کی
ایک نس ،ٹس سے مس اور بس
ایک ننھا بچہ سیب کھا رہا تھا۔ نوالہ حلق میں پھنسا اور موقع پر جاں بحق ہوگیا۔ کیا اس کا باپ تصور بھی کرسکتا تھا کہ اپنے ہاتھ سے لختِ جگر کی موت خرید رہا ہے ؟بیالیس برس لیبیا پر حکومت کرنے والا معمر قذافی سوچ سکتا تھا کہ ہجوم کے ہاتھوں سڑک پہ قتل ہو گا؟صدام حسین کے ساتھ کیا ہوا، جو چوبیس برس عراق میں کوس لمن الملک بجاتا رہا۔
رسالت مآب ﷺنے ارشاد فرمایاتھا: اگر تم اللّٰہ پہ اس طرح توکل کرو، جیسا کہ توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں اس طرح رزق ملے گا، جیسے پرندوں کو ملتاہے ۔ وہ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کے لوٹتے ہیں ۔ ادھر انسان جس طرح مال اکھٹا کرتا چلا جاتاہے ، اسی طرح اس کے خوف میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ۔بھوک کا خوف بھی ختم نہیں ہوتا اور یہ خوف بھی اس میں شامل ہو جاتاہے کہ ایک دن یہ سب لوٹ لیا جائے گا ۔
دنیا کی بڑی بڑی شخصیات بے پناہ خوف کا شکار ہیں ۔ٹرمپ سپر پاور کا صدر بن گیا، پھر بھی سوچتا رہتاہے کہ کس کا مال چھینوں ۔ شیخ حسینہ کیوں اس وحشت و بربریت پہ اتر آئی تھی ۔خود اپنے ہاتھ سے اس نے اپنی بربادی کا بندوبست کیوں کیا؟ جواب: بے پناہ خوف۔ زرداری اور شریف خاندان نے جو جائیدادیں بیرونِ ملک خفیہ طور پر خریدیں کہ مشکل میں کام آئیں ، وہ الٹا ان کے گلے میں پھنس گئیں ۔
بڑے بڑے لوگ عجیب عجیب خوف کا شکار ہوتے ہیں ۔ یہ خوف ان کی زندگیاں کھا جاتاہے۔ سوچ ایک نکتے پہ پھنس جاتی ہے ۔ اسے ہی Obsessionکہتے ہیں ۔ خوف اتنا بڑھتاہے کہ انسان نارمل لوگوں کی حدود سے باہر نکل جاتاہے ۔ ایک شخص ٹی وی دیکھ رہا ہے ۔ صدر ٹرمپ نائب صدر جے ڈی وینس کے کان میں کوئی بات کہتاہے ۔ بیمار شخص کو سوفیصد یقین ہوتا ہے کہ ٹرمپ نے نائب صدر کے کان میں میرے خلاف کوئی بات کی ہے ؛حالانکہ مریض نہ تو کبھی امریکہ گیا اور نہ ٹرمپ کبھی چیچوں کی ملیاں آیا ۔
پاک بھارت جنگ میں جس طرح بھارتی طیارے گرے،اسکا نتیجہ یہ ہے کہ بھارت اور اسرائیل کبھی پاکستان کے خوف سے باہر نہیں نکل سکیں گے ۔ سوگ بھارت سے زیادہ اسرائیل میں منایا جارہا ہے۔ دنیا میں کوئی اورمسلمان فضائیہ اتنی مہارت کی حامل نہیں ۔ رافیل گرنا کوئی چھوٹا واقعہ نہیں ۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا، خوف سے بڑی اذیت اس دنیا میں اور کوئی نہیں ۔
پاکستان یہ پوری صلاحیت رکھتاہے کہ غزہ کی قتل و غارت اور اس پہ قحط مسلط کرنے کیخلاف دبائو ڈال سکے ۔ ایسے دانشوروں کی بھی کمی نہیں ، جن کا خیال یہ ہے کہ اپنے مظلوم مسلمان بھائی کی مدد کے سوچنے سے بڑی حماقت اور کوئی نہیں ۔ رسالت مآبﷺ نے فرمایا تھا : مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں ۔ ایک عضو بیمار ہو تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتاہے ۔ہم کیوں تکلیف محسوس نہیں کرتے ؟ کیا ہم مسلمان ہیں ہی نہیں ؟ یہ تکلیف آپ کو یمن کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ نظر آتی ہے ، جن کے پاس مال و دولت اور جہاز نہیں مگر احساس اور ایمان ضرور موجود ہے ۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم اپنی عافیت کے دائرے سے نکلنے پر تیار نہیں ۔