قارئین کرام ! آپ کو تو یاد ہوگا، جنوبی ایشیائی پرآشوب پیش منظر میں لازم ہے کہ یونیورسٹیوں کے انڈرگریجویٹ زیر تعلیم تمام اسٹوڈنٹس اور فریش گریجویٹ ذہن نشین کرلیں کہ دسمبر 1979ء کے آخر سرد روز و شب میں پوری مغربی دنیا کرسمس کی تیاریوں میں مصروف تھی، آنجہانی سوویت یونین (باقیماندہ آج کے روس) کی ایک لاکھ فوج کھلی جارحیت کی مرتکب ہوتی دریائے آمو عبور کرکے اپنے مکمل اثر میں آگئے ہمسایہ افغانستان میں داخل ہوگئی۔ جواز یہ بنایا کہ کابل میں 10 ماہ قبل دائود رجیم کو اکھاڑ کر خود ماسکو نے جو کمیونسٹ کٹھ پتلی حکومت قائم کی ہے فوج اس کی دعوت پر بغاوت کو دبانے کی معاونت کیلئے افغانستان میں آئی ہے۔ یوں آزاد منش روایتی قبائلی غلبے کی افغان سرزمین مقبوضہ ہوگئی ہے۔ کریملن (سوویت مرکز اقتدار) کی مہم جوئی کابل میں کٹھ پتلی حکومت کے قیام اس کے تحفظ اور کسی امکانی عوامی بغاوت کو روکنے تک محدود نہیں رہی، بلکہ افغان سماج کی اپنے تئیں تیزتر سوویٹائزیشن بھی ہونے لگی جو افغان سماج کے بنیادی مذہبی عقائد و قدیمی روایات و اقدار سے مکمل متصادم تھی۔ جبکہ پاکستان کو کمیونزم کا اپنے دروازے پر پہنچنے کا دھڑکا واضح تھا، اور اس حوالے سے مشرقی سرحدات سے سلامتی کے خطرات کے پیدا ہونے اور بڑھنے کا دھڑکا بالکل درست تھا۔ امریکہ کی پوری سرد جنگ میں سوویت یونین اور اس کے اثر کو اس کی اپنی ہی حدود میں رکھنے کی اپروچ اور اقدامات اس کی بطور غالب عالمی طاقت فطری اور باجواز تھی۔ لیکن اس بنی غیر معمولی صورت حال میں اہم ترین اسٹیک ہولڈر اور متاثرہ فریق اول افغان عوام ایٹ لارج تھے۔ جنہوں نے روسی یلغار شروع ہوتے ہی متحدو منظم ہو کر روسی براہ راست بشکل قبضے، جارحیت کابل میں کٹھ پتلی حکومت، افغان سرزمین کی تیزی سے جاری سوویٹائزیشن پر بند باندھنے کے لئے ملک گیر سطح پرنو مختلف افغان مجاہدین تنظیموں کا اتحاد وجود میں آگیا جو بلاشبہ قبائلی غلبے کے افغان سماج سے نکلی صورت حال کے عین مطابق افغانستان کی قوت اخوت عوام کا مظہر تھا، یہ اتحاد، جہادی جذبے اور عمل کو ابتدائی اہداف حاصل کرنے میں مقررہ سے زیادہ کامیاب ہوا۔ اس میں اتحاد کو حاصل پاکستان کی معنی خیز پشت پناہی کے ساتھ ایک بڑی عالمی معرکہ آرائی کے لئے جملہ عالمی، علاقائی اور سرگرم ملکوں کے اعتماد اور حوصلہ افزائی کا گراف آغاز پر ہی بلند ہو کر بڑھتا ہی رہا۔ پاکستان کی معاونت کے حوالے سے ان کا اعتماد اور حوصلہ افزائی امریکہ اس کے مغربی اتحادیوں اور عالم اسلام کے مسئلہ افغانستان کے حوالے سے تحفظات و مفادات بہت بنیادی، بڑے اور زیادہ تھے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ پاکستان ایک طرف افغان عوام اور افغانستان پر روسی یلغار و قبضے پر تلملاتے امریکہ مغربی و اسلامی ممالک کی آنکھ کا تارا بن گیا۔ پاکستانی قوت اخوت عوام افغانیوں کی معاونت میں آزاد دنیا سے ہم آہنگ ہوگئی حکومت سے کم نہ تھی۔ نہ بھولا جائے اور ذہین نشین رہے، کریملن کی اس مہم جوئی میں پاکستانی پشت پر واقع شمال تا جنوب طویل بھارتی سرحد کے ساتھ ساتھ، افغانستان میں جارح و قابض عسکری فوج اور روس کے قریبی معتبر کے طور بھارت کے درمیان سینڈوچ پوزیشن میں تھا لیکن قبضہ افغانستان اور اسے چھڑانے کے پاکستانی مکمل اصولی تاریخ ساز اور بے باک موقف پر ناصرف مستقبل قریب میں پیرا ڈائم شفٹ کا سبب بننے والی اس عالمی معرکہ آرائی کے اولین تین چار فریقین اور روسی حریفوں کی فہرست میں ٹاپ پر شامل تھا۔ واضح رہے یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کا ایٹمی پروگرام سرگرم عمل اور مارشل لائی دور میں افغانستان پر روسی جارحیت سے قبل محدود رکھنے کے شدید امریکی مغربی سفارتی سیاسی دبائو میں تھا لیکن اسے پاکستانی قوت اخوت عوام کی متفقہ حمایت ایسے ہی حاصل تھی جس طرح جہاد افغانستان کو حکومت مخالف افغان عوام کی اور جہادی افغان عوام کو پاکستانی قوم کی۔ (جاری ہے)
پانی حل شدہ مسئلہ، فوکس کشمیر فلیشنگ
پاک بھارت تنائو کے موجود پیش منظر سے پہلے کے ماحول میں پاکستان تو بہت حد تک اور بھارت بھی داخلی عوامی بغاوتوں کے ساتھ دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں۔ کاش، دہشت گردی عالمی و علاقائی سیاست میں جتنا تشویشناک موضوع بن گیا ہے اتنا ہی انسداد دہشت گردی کا حقیقی اور بین الاقوامی موثر اور قابل قبول بندوبست ہوتا۔ نہیں کیا گیا تو دہشت گردی اب پراکسی وار اور متحارب فریقین میں ایک خطرناک ہتھیار بن گئی ہے۔ پہلگام المیے اور شدید قابل مذمت دہشت گردی پر وزیر اعظم مودی نے جتنے غیر ذمے دارانہ انداز میں بھارتی سلامتی کے فوری اور پُرخطر مسئلے کے طور پر نشاندہی کرکے اس کی بلاتاخیر اور اسٹیک ہولڈرز کے لئے قابل قبول تفتیشی طریق کا مطالبہ کرتے تو یقیناً ان کی سنی بھی جاتی اور سنی جانی چاہیے۔اپنے مصروف مقام سیاحت کے تحفظ میں اپنے انتظامی ڈیزاسٹر کا حکم ہدایت دیئے بغیر انہوں نے یکدم اس کا ملزم ہی نہیں، بہار کے جلسہ عام کو عدالت بنا کر معصوم پاکستان کو اس کا مجرم بنا دیا۔ اس طرح کے شک والا بھی تو کوئی ثبوت سزا دیتے ہوئے نہیں بتایا، دکھایا، جو الٹے پلٹے الزامات دکھائے بتائے گئے وہ بغیر کسی ملزم کو سامنے لائے چار پانچ روز بعد کشمیریوں کے گھر بلڈوز کرنے کےبعد جھوٹے دعوئوں کے طور پر ’’مودی عدالت‘‘ سے سزا ایسی دی کہ خطے پر ایک ہولناک جنگ کا ماحول پیدا کردیا۔ ’’پاکستان کو مٹی میں ملا دیں گے، پانی بند کررہے ہیں، سندھ طاس معاہدہ منسوخ‘‘۔ اس انتہائی شرانگیز اور شیطانی منصوبہ بندی کو مودی نے بلاابتدائی تفتیش عدالت نے سزا کے طور پر پیش کیا جبکہ دونوں ملکوں میں پانی کی تقسیم قیام پاکستان کے بعد پہلے نوزائیدہ مملکت کے لئے پیدا کئے مسائل میں سے ایک بھارت کی طرف سے پانی کی بندش تھی، جو اپنی نوعیت کے مطابق فوری عالمی سطح پر ایڈریس ہوا ، مکمل اتفاق سے حل ہوا۔ مکمل تسلیم شدہ ویل گارنٹڈ ہے۔ دونوں ملکوں میں تین جنگوں میں کسی بھارتی حکومت نے سندھ طاس معاہدے کا نام بھی نہیں لیا۔ پاکستان کا اس پر ردعمل، اس شیطانی اقدام کا مطلب جنگ بھارتی اعلان کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں۔ "POK" اور سندھ طاس کی تنسیخ دونوں چھیڑی گئیں، دنیا بھر میں کشمیر کی جنت بہت پرخطر فلیش پوائنٹ کے طور پر تسلیم کرنے سے توجہ ہٹانے کیلئے ہے۔ پاکستان اس پر زور دار موجود بھارتی رویے سے ’’قومی بیانیہ‘‘ تیار کرکے اس سے بھارت کو انتباہ اور دنیا کو متوجہ کرے۔ وماعلینا الالبلاغ۔