سیاست جب کاروبار ہو جائے اور سیاستدان ’جمہوریت کا بزنس، شروع کردیں تو سیاسی اسپیس ختم ہوجاتی ہے اور سب اپنا کاروبار بچانے کی خاطر بی ٹیم بننے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو اگر پارلیمنٹ کو ’سیاسی اسٹاک ایکسچینج‘ کا نام دے دیا جائے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ سیاست میں مثبت، منفی یا ملا جلا رجحان پایا جاتا ہے۔ کبھی کسی بڑی سیاسی تبدیلی کے نتیجے میں مارکیٹ کریش بھی کر سکتی ہے۔ 2013ءکےا لیکشن کے وقت پی پی پی، بلوچستان کے رہنما آیت اللہ درانی مرحوم نے مجھ سے کمال جملہ کہا جب میں نے ان سے پوچھا الیکشن میں پی پی پی کا کیا چانس ہے۔ بولے ’’مظہر بھائی، اس بار ٹینڈر ہمارے نام نہیں کھلا لہٰذا ہماری منڈی میں تو منفی رحجان ہے۔ اس بار لگتا ہے ٹینڈر میاں صاحب کو ملا ہے‘‘۔
بس آپ کو ایک اہم بات بتاکر اپنے موضوع پر واپس آتا ہوں کہ پاکستان کے پچھلے پچاس سال کی سیاست پرجلد تین اہم افراد کی تین کتابیں آنے والی ہیں چونکہ یہ اندر کے لوگوں نے لکھی ہیں اس لیے جب تک منظر عام پر نہ آ جائیں نام بتانا مناسب نہیں ہوگا ان کا تعلق بڑی سیاسی جماعتوں سے ہے میں نے کچھ کے ڈرافٹ دیکھے ہیں اس لیے زیادہ بات نہیں کرتا بس اتنا کہتا چلوں کہ سیاست میں کچھ تو ہلچل مچے گی۔ کیا سیاست کاروبار سے واپس عوام تک جا سکتی ہے؟ لیکن اگر ملک میں الیکشن ہی منصفانہ نہ ہوں مینڈیٹ تسلیم نہ کیا جائے تو سیاست کرنے والا کاروبار ہی کرے گا یا پھر جیل کاٹے گا۔ ایسا نہیں کہ جو آج تک کاروبار کررہے ہیں انہوں نے جیل نہیں کاٹی بس آہستہ آہستہ اپنی اسپیس کھوتے چلے گئے اور پھر ’ ڈیل‘ کر لی۔
آج کے حکمراں ہوں یا کل کے، آج کی اپوزیشن ہو یا ماضی کی، معاملہ بس انیس بیس کا ہی ہے۔ حیرت ہوتی ہے تو ان پر جو انہی سیاستدانوں کے حوالے سے کیا فائلیں نہیں بناتے اور دکھاتے ہیں، کبھی خبریں لیک توکبھی پلانٹ کرواتے اور پھر جس سے معاملات طے ہو جائیں وہی ’’سکندر‘‘ بن جاتا ہے مقدر کا۔
سیاست کو کاروبار بنانے کا سلسلہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پروان چڑھایا گیا تھا آہستہ آہستہ ہمارے سویلین حکمران کبھی ہارس ٹریڈنگ کے نام پر تو کبھی ملکی مفاد کے نام پر مارکیٹ لگاتے ہیں۔ کبھی عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے تو کبھی ناکام، یہ کروڑوں اربوں روپے کہاں سے آتے ہیں اس کا اندازہ صرف عوام کی بدحالی دیکھ کر ہی ہوتا ہے۔ جس ملک میں صرف ایک بینک اس مقصد کیلئے ہی کھولا جائے تو دوسرے بینکوں میں بے نامی اکاؤنٹس برآمد کیے جائیں، پیسوں کی ڈلیوری کبھی ’حوالہ‘ سے تو غیر ملکی کرنسی میں ہو، وہاں کیسی سیاست اور کیسا نظریہ۔ افسوس ہوتا ہے تو ان سیاسی کارکنوں کی حالت زار دیکھ کر جو آج بھی بسوں میں سفر کر کے جلسوں میں جاتے ہیں مشکل پڑے تو جیل جاتے ہیں اور کبھی کبھی تو لیڈر کی خاطر پھانسی چڑھ جاتے ہیں۔
حکمراں اتحاد جن میں نمایاں مسلم لیگ(ن)، پی پی پی اور ایم کیو ایم ہیں اپنی سیاسی اسپیس کھونے کے بعد بیساکھیوں کے سہارے کی تلاش میں ہیں جبکہ اپوزیشن پاکستان تحریک انصاف کو آپس میں لڑنے سے ہی فرصت نہیں۔ اب عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا اس کا دارومدار ان کی سیاست اور جماعت پر ہے جو بہرحال اب تک بظاہر ناکام نظر آتی ہے کوئی دباؤ بڑھانے میں۔ ’شریف‘ کاروبار کے لحاظ سے زرداری اور خان سے زیادہ تجربہ کار ہیں اور بقول انہی کے ایک قریبی ساتھی نے چند سال پہلے بتایا تھا کہ سیاست میں آنا ان کی چوائس نہیں تھی مگر بڑے میاں صاحب کو بھٹو دور میں قومیائی فیکٹریاں واپس کرتے ہوئے کہا گیا، ’’سیاست بھی کریں اور کاروبار بھی‘‘ مہران بینک، اصغر خان کیس ایم آر او وغیرہ یہ سب اسی ’اسٹاک مارکیٹ‘ سیاست کے شیئرز ہیں۔
ایسا نہیں کہ ہماری سیاست میں طاقت نہیں تھی، فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں تھی، ایسا نہ ہوتا تو پاکستان آج ایٹمی قوت نہ ہوتا پروگرام شروع کرنے والا بھی سیاستدان اور دھماکہ کرنے کا فیصلہ کرنے والا بھی سیاستدان، ایک پھانسی چڑھا اور دوسرا عمر قید کے بعد جلاوطن ہو گیا چاہے ڈیل کر کے ہی باہر گیا ہو۔ تیسرا جو آج زیر عتاب ہے نکالا اس وقت گیا جب اس نے اپنے اختیار کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔ فیصلہ غلط ہی صحیح ،بات جنرل مشرف کوہٹانے کی ہو یا جنرل فیض کو ISIچیف برقرار رکھنے کی۔ ایسا نہیں کہ پاکستان کی سیاست میں جان نہیں رہی ایسا ہوتا تو سندھ میں غیر معمولی ’کینال تحریک‘ کامیاب نہ ہوتی اور پی پی پی اور سندھ حکومت وفاق پر دباؤ بڑھانے پر مجبور نہ ہوتی۔ اگر سیاست بہت کمزور ہوتی تو تمام تر رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود 8فروری 2024ءکو لوگ ووٹ کے ذریعے فیصلہ نہ سناتے اب آپ اس مینڈیٹ کو نہ مانیں تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔ سیاست میں اب بھی جان ہے مگر اس کا مقابلہ ایک طرف کاروباری سیاستدانوں سے ہے جو ہرجماعت میں پائے جاتے ہیں تو دوسری طرف انتہا پسندوں سے۔
مگر کمزور سیاستدان اپنی اسپیس خود ہی دوسروں کے حوالے کر رہے ہیں پاکستان کو اس نازک موڑ پر ’قومی سیاسی پالیسی‘ کی ضرورت ہے جو ’جیو اور جینے دو‘ کی بنیاد پر ہو۔ سیاست ہر جمہوری ملک میں اعلیٰ اخلاقی قدروں پرکھڑی ہے کسی وزیر اعظم یا وزیر پر الزام ہی اس کے استعفیٰ دینے کیلئے کافی ہوتا ہے۔
10مئی، 2025کے بعد ہم ایک مضبوط قوم کے طور پرسامنے آئے ہیں اور ہمیں وفاقی، سفارتی اور سیاسی یہاں تک کہ میڈیا کے محاذ پر بھی کامیابی ملی ہے۔ ایک طرح سے ہمارے حکمرانوں کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ اس نے سیاسی طور پر بکھری ہوئی قوم کو متحد کردیا تمام تر اختلافات کے باوجود کیا ہی اچھا ہوتا اگر وزیر اعظم صرف اپوزیشن رہنما عمران خان کو پیغام ہی نہیں دیتے، ’قومی یکجہتی‘ کا بلکہ اعتماد سازی اور جمہوری روایات کو برقرار رکھتے ہوئے کچھ بڑے فیصلے کرلیتے چاہے پوچھ کرہی کرنے پڑتے مثلاً شاہ محمود قریشی اور ڈاکٹر یاسمین راشد کی رہائی کا فیصلہ میڈیکل گراؤنڈ پر ہی سہی۔ سیاست ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر فیصلے کرنے کا نام ہے نفع اور نقصان تو کاروبار میں دیکھا جاتا ہے۔