• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

قارئین کرام! غور فرمائیں، بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے افغانستان و پاکستان کے نامساعد حالات میں آزاد منش افغانستان پر اچانک کھلی سوویت جارحیت و قبضہ تو دنیا کے لئے چونکا دینے والا تھا ہی اس کے خلاف دونوں ہمسایہ ملکوں کا ردعمل بھی دنیا کی اہم حکومتوںکے لئے اندازوں کے برعکس اور کمال حوصلے و عزم کا حامل تھا۔ ہر دو کا یہ بلاانتظار و احتیاط ردعمل ان کی نظریاتی بنیاد اور آزادی و سلامتی کے بنیادی تقاضوں کے علاوہ جرأت مندی اور اپنے اپنے قومی اتحاد و اتفاق کا مکمل عکاس تھا۔ ذہن نشین رہے کہ اس وقت پاک امریکہ تعلقات اپنی دوری کی انتہا پر تھے۔ صدر جمی کارٹر کی اپیل کو خاطر میں لائے بغیر ضیاء حکومت ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دے چکی تھی۔ لیکن اسے اس وقت بھٹو مخالف تحریک سے چارجڈ دائیں بازو کی مکمل حمایت حاصل تھی اور پھانسی پر پی پی کا ردعمل نحیف تھا۔ تاہم اس کے ردعمل میں پاکستان کو گندم کی مفت فراہمی کا پروگرام پی ایل۔40بند ہوگیا تھا۔ ڈیموکریٹ کارٹر انتظامیہ پاکستان میں نفاذ مارشل لا سے نالاں تھی۔ مکہ میں خانہ کعبہ پر یمنی گروہ کے حملے اور امریکہ کے خلاف شک سے مشتعل ہو کر پاکستانیوں کے ایک مشتعل ہجوم نے اسلام آباد پر دھاوا بول کر امریکی سفارتخانے کو نذر آتش کردیا تھا۔ اس میں عملے کے دو امریکی ہلاک ہوگئے تھے۔ اس سے امریکی حکومت و عوام سخت اشتعال میں تھے۔ پاکستان سیٹو سے اپنی رکنیت ختم کرکے ناوابستہ ممالک کی تحریک (NAM) کا رکن بن چکا تھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارت کے ساتھ نام نہاد معاہدہ دوستی (اصل میں دفاعی معاہدہ) کے بعد پاک، روس تعلقات افغانستان پر جارحیت سے پہلے ہی کم تر سطح پر تھے، تاہم عوامی جمہوریہ چین سے دوستی پروان چڑھنے کا گراف مسلسل بڑھ رہاتھا اور چین نے پاک افغان یک نکاتی موقف ’’افغان سرزمین سے روسی قابض افواج کا انخلا‘‘ پر افغانیوں کی غیر معمولی معاونت اور پاکستان کی ایسی ہی معاونت کی حمایت و تائید تادم روسی انخلا (1991) تک جاری وساری رکھی۔ یہ بھی واضح رہے کہ:صدر ضیاء الحق نے کابل میں ترکئی کی روسی کٹھ پتلی کمیونسٹ حکومت سے دوطرفہ تعلقات کو ممکنہ حد تک سنبھال کر رکھنے کی حکمت عملی اختیارکی کہ یہ افغانیوں کی مزاحمت اور پاکستان کی بطور بیس کیمپ کے آپریشنز کو موثر اور نتیجہ خیز بننے کا تقاضا تھا۔ اسی حکمت عملی پر عمل پیرا رہے۔ وفاقی وزیر تجارت زاہد سرفراز نے دونوں ملکوں میں تجارتی حجم بڑھانے کے لئے کابل کا دورہ کیا۔ اسی پس منظر کا تناظر تھا جس میں روسی جارحیت کے خلاف اسلام آباد کی کھلی مذمت اور افغانوں کی بطور فرنٹ لائن کنٹری بھرپور عملی معاونت کے باوجود ترکئی کی کٹھ پتلی حکومت میں ہی کیا، جلدی جلدی تبدیل ہوتی افغان پپٹ حکومتوں میں بھی پاک افغان تعلقات میں کوئی کمی و رکاوٹ نہ آئی۔ سو درہ خیبر کی تاریخی راہ داری سے دوران جہاد افغانستان ، مہاجرین کے ریلے کے ریلے ایک عشرے تک پاکستان میں داخل ہوتے رہے اور پاکستان و افغانستان کے پیپلز، پیپلز ریلیشنز مثالی رہے، جو سوویت قبضے کو برقرار رکھنے کی شدت اور کمال نتیجہ خیز مزاحمت کو دنیا بھر میں آشکار کر رہے تھے۔

یہ جو ’’آئین نو‘‘ کے جاری اس موضوع کی پہلی قسط کے اختتام پر واضح کیاگیا تھا کہ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع ہوکر سرگرم ہو چکا تھا۔ امریکہ اور یورپ میں بھارت کے ایٹمی دھماکے (1974) کے جوابی اقدام کے طور پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے آغاز پر وہ اس کے خلاف بلند درجے کے سفارتی دبائو اور پروپیگنڈے ’’اسلامی بم‘‘ کا زور دار آغاز مغربی حکومتوں اور میڈیا سے شروع ہوگیا تھا۔ پہلے تو پاکستان سے امریکی مطالبہ یہ رہا تھا کہ پروگرام ہی ختم کر دیا جائے۔ بلاشبہ ذوالفقار علی بھٹو اس کےخلاف بیباک مزاحمت کرتے رہے۔ بعد ازاں جب ضیاء دور کی ابتدا میں کہوٹہ لیب کے قیام کی رفتار تیز تر ہوگئی اور ڈاکٹر عبدالقدیر نے اپنا کام بڑے اعتماد اور مرحلہ وار کامیابی سے شروع کردیا، عالمی سفارتی حلقوں میں پاکستانی پروگرام کے جاری و ساری رہنے کا یقین بڑھنے لگا تو مطالبہ انسداد ایٹمی پھیلائو کے عالمی معاہدے (این پی ٹی) پر دستخط کرنے کا ہونے لگا۔

مودی کی رگوں میں دوڑتا سیندور

7مئی کی علی الصبح سے 10مئی کی ڈھلتی شام تک کے 80گھنٹوں میں پاکستان نے آپریشن سیندور کا جو جواب چند گھنٹوں میں دے کر مودی اور بھاجپا گینگ آف فائیو کو بڑے گہرے زخم لگائے ہیںپورا بھارت اس سے بیمار ہوگیا اب تو بھاجپا میں سیاسی انتشار اور کتنی ہی بلیم گیم شروع ہوئی ہیں اس میں ہندوتوا اور شائننگ انڈیا کا تمام تر کھوکھلا پن پوری دنیا کے سامنے بے نقاب اور پاکستان کی بھارت پر مصدقہ بالادستی نے مملکت خدا داد پاکستانی کمال و جمال کو بھی کیا خوب آشکار کیا ہے۔ مودی اور ان بنیاد پرست کا راج پلوامہ کے بعد اب پھر مکمل نکما لڑاکا، لے کر ڈوبنے والا پارٹنر اور امید لگائے ہوئے امریکہ جیسے ملک کیلئے بڑا بوجھل ساتھی ثابت ہوا ٹرمپ نے تو پناہ مانگ لی۔ مودی صاحب تو پاکستانی فضائیہ کے لگائے زخموں کے دردسے ہی جان نہیں چھڑا پا رہے۔ دماغ اتنا الٹ گیا پھر اب بڑھکوں سے اپنی تشفی اور بھڑکائے بھارت کو پھر پاکستان مخالف بھڑکتی تقریروں اور نفرت انگیز بیان بازی سے درد و صدمہ دور کرنے کی اذیت سے دو چار ہیں۔ لیکن کوئی افاقہ نہیں ہورہا۔ آپریشن سیندور نے پاکستان کا تو کچھ نہیں بگاڑا، 224ملین ڈالر فی رافیل کے حساب سے تین اور چھ جہازوں سمیت کل 95ارب ڈالر کی تباہی کا بوجھ اٹھائے بس مودی صاحب سٹپٹائے اور پاکستان کا پانی بند کرنے اور آزادکشمیر پر قبضے کا مزید مذموم ارادہ بس پہلے کی طرح باندھ ہی رہے جو بندھا ہی رہ گیا۔ اب ایک عوامی اجتماع میں قوم کو یقین دلایا کہ میری رگوں میں خون نہیں اب سیندور دوڑ رہا ہے۔ مشہور ملکی اینکر پرسن نیلوویاس نے مودی کے خلاف اس نئے بیانیے پر سیاسی رہنمائوں کی کیمسٹری کے ماہرین کو مدعو کرکے مودی صاحب کے علاج معالجے کے سوال شروع کردیئے۔ جواب ایک ہی آ رہا تھا ، سیندور کی خون میں موجودگی دماغ کے لئے بہت خطرناک اور جان لیوا ہے۔ بس آپریشن سیندور تو بھسم ہوگیا سیندور اب مودی صاحب کی رگوں میں دوڑتا ان کے دماغ کو گرم کئے ہوئے ہے۔ رہے پاکستان مخالف مذموم عزائم، درہم برہم ہوگئے۔ ایسے میں ان کی بھارتی سیاسی قیادت بڑی پرخطر ہوگئی ہے، لیکن پاکستان میں مزید مذموم ارادوں کو پھر بھسم کرنے کے لئے اب سیاسی عمل کو آئینی ڈھب پر لانا لازمی اور فوری متقاضی ہے۔ انتشار زدہ بھارت میں ہماری اگلی فتح کا یہ ہی تقاضا ہے۔

وما علینا الالبلاغ۔

تازہ ترین