• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری کہانیوں کی پہلی سامع میری بیٹی نویرہ تھی جو ہر رات ایک نئی کہانی سننے کی ضد کرتی تھی۔ جب جنگل کے سب طوطے، مینا، بلبل اور ہد ہد وقت کے لگڑ بگڑ کھانے لگے تو پھر گھر کے افراد کی باری آئی کچھ ہمسائیوں کی مگر اس کے سوال کڑوے ہوتے گئے۔ آپ کے پاس سائیکل کیوں ہے باقی لڑکیوں کے ابو گاڑیوں پر آتے ہیں ہم کرائے کے گھر میں ایسی گلی میں کیوں رہتے ہیں اور واپسی پر ہمیں جو بڑے بڑے گھر نظر آتے ہیں وہ صرف ڈاکوئوں کے تو نہیں ہو سکتے کہ آپ نے بتایا تھا کہ وہ غاروں اور جنگلوں میں رہتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ ضد کرتی کہ یہ پہلے سے سنی ہوئی کہانی ہے۔ بعد میں چھوٹی بیٹی کی ضد ہوتی جو کہانی آپ نے باجی کو سنائی اس کی جگہ اور سنائیں۔ پھر ضیا الحق صاحب تشریف لے آئے تو وہ کہتی آپ کے پا س ایک ہی کہانی ہے بس یہی وجہ ہے میرے پہلے ایک دو افسانوی مجموعوں کے نام ہی ’پہلے سے سنی ہوئی کہانی‘ اور ’ایک ہی کہانی‘ ہیں۔

جب میں ترکیہ میں اردو پڑھانے پر مامور ہوا تو اشرف صاحب نے الف آم ب بکری والا با تصوير قاعدہ مجھے دیا۔ پر پہلے دن ہی آم کے لفظ پر طالب علموں نے ہنسنا شروع کر دیا۔ یہ وہ دور تھا جب بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ اقتدار میں آئی تھیں۔ پہلی مرتبہ تو انہیں نواب زادہ نصرالله کو صدر پاکستان بنانے نہیں دیا گیا تھا اس لئے اب انہوں نے نواب زادہ صاحب کو کشمیر کمیٹی کا چیئر مین بنا دیا۔ نواب صاحب نے ملتان، مظفر گڑھ کے آموں کو عالمی سطح پر متعارف کرنےکیلئے ترکیہ کے عمائدین کیلئے میٹھے اور رسیلے آموں کی ٹوکریاں بھیجیں جو انہوں نے پاکستانی سفارت خانے میں عزت و احترام سے چھوئے بغیر واپس بھجوائیں۔ تب میں نےمنو بھائی کو لکھا کہ ترک پھلوں کو رسیلا ہونے سے پہلے اس کا اچار یا ترشو بناتے ہیں دوسرے وہ وجہ بھی لکھی کہ یہاں آم کس مطلب کیلئے استعمال ہوتا ہے جو کبھی آدم و حوا کے اساطیری قصے میں انجیر کا تھا۔ منو بھائی نے میرا مکتوب اپنے ’’گریبان‘‘ میں شائع کیا اور آخر میں لکھا یار و چلی گل تے دس۔

انقرہ یونیورسٹی نے مجھے سکھایا کہ یہاں پڑھانے والا ہی بورڈ آف اسٹڈیز اور اکیڈمک کونسل وغیرہ ہوتا ہے وہ خود اپنا کورس ڈیزائن کر سکتا ہے سو میں نے سوچا کہ انہیں اردو کے ابتدائی قاعدے پڑھانے کی بجائے ترکوں پاکستانیوں کے محبوب کردار ملا نصیر الدین کی حکایات، ناظم حکمت کی نظمیں اور عزیز نیسن کی کہانیاں اردو ترکی مشترک الفاظ میں کیوں نہ پڑھائی جائیں۔ یوں وہ چار برس میری تدریسی زندگی کے خوش گوار برس بن گئے۔ پھر میں پلٹ کے آیا۔

آج سے 18برس پہلے ریٹائر ہوا۔ پہلے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد سے وابستہ ہوا، کچھ عرصے بعد اوساکا جاپان میں اردو پڑھانے پر مامور ہوا تب میں یہ کرتا کہ جاپان میں ٹی وی اور پریس میں زیر بحث آنے والے واقعات کو کلاس روم میں لے جاتا اور ان سے کہتا آئیں مل کر کہانی لکھتے ہیں۔ میں نے وہاں کے اخبارات میں پڑھا کہ ان کی ایک اداکارہ نے خود کشی کر لی ہے مگر اس طرح کہ یہ خود کشی اس نے اپنے آنجہانی والد کی قبر پر جا کے اپنی معذور ماں کو وہاں وہیل چیئر پر لے جا کر کی۔

میں نے کہا بچو! آئو سوچتے ہیں خود کشی کے وقت اس نے عالم بالا میں موجود اپنے والد کو ایک خط لکھنا چاہا ہوگا تو وہ کیا ہو گا۔ اتفاق سے یہ میرا ’’آخری خط‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ تب ایک دن میں گھر آیا تو میری نواسی اریبہ نے میرے رائٹنگ پیڈ کے ہر نفیس ورق پر وہ کیڑے مکوڑے بنائے ہوئے تھے جو اس کی ماں نے اس کی عمر میں میرے میٹرک کے سرٹیفکیٹ پر بنائے تھے میں نے بے بسی میں جھلا کے کہا اوئے میری بیٹی اریبہ، کیا کیا ہے؟ نانا نے تو خط لکھنے ہوتے ہیں۔ اریبہ نے کہا، نانا آپ آخری خط تو لکھ چکے ہیں۔

تازہ ترین