• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موت کو برحق مان کر ہم سب دوسرے جہان جانے کا سرسری تذکرہ کرتے رہتے ہیں مگر نظر کے سامنے کوچ کرتے لوگوں کو دیکھ کر بھی موت کا اس طرح اعلان نہیں کرتے جس طرح تجمل کلیم نے کیا۔

پچھلے دو تین سال سے شاعری میں نئی ریت اور اسلوب کا نمائندہ تجمل کلیم صحت کی صعوبتوں کا شکار تھا ، ایک بار صحت مند ہو کر گھر لوٹ آیا مگر تخیل کی اْڑانیں بھرنے والے نے طبیبوں کی تجویز کردہ زمینی احتیاط کا پاس کیا نہ اپنے معمولات انکی مرضی کی خوراک اور دوا دارو سے باندھے ، نہ دوستوں کی سجائی شعر کی محفلوں سے منہ موڑا اور نہ منہ کو لگی کافر دوا کو چھوڑا ، شاید اگلے سفر پر روانہ ہونے کی جلدی پھر ہسپتال لے گئی۔ لاغر جسم نے سوچنے اور محسوس کرنے کو سانس لینے کیساتھ مشروط کر دیا ، بیماری کے کربناک لمحات میں روز قریب اور دور دراز سے شعر وادب سے جڑے دوستوں کی حاضری اسے توانائی دیتی تھی، وہ ان کی مہمانداری میں انھیں تازہ کلام پیش کرتا جس میں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیا جانے والا مکالمہ اور آخری سانس کی سرگوشی شامل ہوتی تھی۔ دوست یہ شعرسن کر تڑپ جاتے اور وہ مسکراتا رہتا ،اتنی گہری مسکراہٹ کہ آنسو گرنے لگتے۔

دن تے گن میں مر جانا ای

تیرے بن میں مر جانا ای

میں گڈی دے کاغذ ورگا

توں کِن مِن میں مر جانا ای

جیہڑے دن توں کنڈ کرنی اے

اوسے دن میں مر جاناای

جان دی بولی لا دتی او

اک، دو، تن، میں مر جانا اے

خود مریا واں تیرے تے

تیتھوں نئیں ساں مردا میں

تجمل کلیم سے پہلے پنجابی شاعری پر بھاری شاہانہ لب و لہجے اور دقیق لفاظی کا راج تھا ۔ تجمل کلیم نے روزمرہ برتے جانیوالے مقامی اور مانوس لفظوں میں تخیل کے موتی پرو کر درویشانہ انداز میں غزل کہنی شروع کی تو پورا ماحول عَش عَش کر اٹھا۔دل کی بات دل سےسنی گئی اور احساس میں رچائی گئی۔ زبان کی سادگی اور لہجے کی حلیمی نے محبت کے قلم سے جو بھی لفظ لکھا لوگوں کو اسیر کرتا گیا۔ اسکی بے پناہ پزیرائی اور پسندیدگی میں عام فہم لب و لہجہ ہے جو اسے خواص کے کسی گروپ تک محدود کرنے کی بجائے ہر طبقے کا شاعر بناتا ہے۔کیونکہ وہ انکی زبان میں انکے دکھ سکھ کی بات کرتا ہے۔ بہت تھوڑے عرصے میں انفرادیت ، اختصار اور جامعیت نے اسے وقت کا سب سے چاہے جانیوالا شاعر بنا دیا ۔چھوٹی بحر میں بڑے کمالات دکھانے والا ، گہری رمز سے سحرزدہ کر دینے والا رومان کے پیکر میں پیچیدہ اور فلسفیانہ مضامین سموکر پنجابی شاعری کو نئے ذائقے عطا کر گیا۔

وعدے پورے کر نئیں جاندا/سوچ رہیاں کیوں مَر نئیں جاندا/جس دن نہ مزدوری لبھے /بوہے ولوں گھر نئیں جاندا

اْنکی تمام شاعری سہل ممتنع کی عمدہ مثال ہے ۔ زندگی کی تلخیوں، سماجی ناہمواریوں،روحانی تجربات ، منفی رویوں اور انسانی جذبات کی گہرائیوں کو بہت سادہ مگر مؤثر انداز میں بیان کرنا صرف تجمل کلیم کا اعزاز ہے۔ اپنی شاعری میں اگرچہ کسانوں ، مزدوروں اور سفید پوشوں کو درپیش مسائل اور دکھوں کو موضوع بنا کر سماجی شعور رکھنے والا مظلوم طبقے کا نمائندہ شاعر بن کر سامنے آتا ہے۔ لیکن وہ اظہار کیلئے وہ انداز اپناتا ہے جس سے سستی نعرے بازی اور غم و غصّے سے شعریت کا دامن داغدار نہ ہو ۔ وہ تصنع کی بجائے صداقت اور قصیدہ گوئی کی بجائے احتجاج کا علمبردار ہے ، اْسکی شاعری کسی ایک شخص کیلئے نہیں بلکہ سماج کے ہر بےمروت کردار کے گرد گھومتی ہے۔اگر ایک جملے میں بات کی جائے تو حسن ، صداقت ، خیر، محبت ،مساوات جیسے آفاقی تصورات اس کے محبوب ہیں اور شرکی ہر نمائندہ قوت اور فرد اس کا رقیب۔اسکی شاعری ہماری دیہی ثقافت کے خوبصورت رنگوں، صوفیانہ دانش کے موتیوں اور عصر حاضر کے معاملات و مسائل کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔

کچی وستی لنگن لگیاں/راتیں بدل ٹْٹ کے رویا/لٹھے دی تھاں پاٹے لیڑے/چور قبر نوں پُٹ کے رویا

قصور کی مٹی سے جنما تجمل کلیم رخصت ہوگیا مگربلھے شاہ کی آفاقی دانش کیساتھ تجمل کلیم کی شاعری کا اسلوب بھی نئے لکھنے والوں کی تحریروں میں نظر آتا رہے گا۔

مرن توں ڈردے او بادشاہو /کمال کردے او بادشاہو /اے میں کِھڈاری کمال دا ہاں /کہ آپ ہردے او بادشاہو

.................

اَکھ کھولی تے دُکھاں دے جال ویکھے/اسیں ویکھیا لہو دا رنگ چِٹا /اسیں پھل کپاہواں دے لال ویکھے/میں نچیاں جگ دے سکھ پاروں/سد?بلھے نوں میری دھمال ویکھے

تازہ ترین