فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے میں غیرمسلح ہونے کی شق میں ترمیم کا مطالبہ کر دیا۔
فلسطینی ذرائع کے مطابق حماس کے مذاکرات کاروں نے منگل کو دوحہ میں ترک، مصری اور قطری حکام کے ساتھ بات چیت کی، حماس کچھ شقوں میں ترمیم کرنا چاہتی ہے۔
ذرائع نے کہا کہ حماس اسرائیل کے مکمل انخلا اور رہنماؤں کے اندر یا باہر قتل نہ کیے جانے کی بین الاقوامی ضمانتیں چاہتی ہے، حماس کو جواب دینے کے لیے زیادہ سے زیادہ دو یا تین دن درکار ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کے لیے 20 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا تھا اور ساتھ ہی انہوں نے حماس کو دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے امن منصوبہ تسلیم نہ کیا تو پھر انہیں سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے مجوزہ امریکی امن منصوبے پر حماس کو جواب کے لیے تین سے چار روز کا وقت دیا تھا۔ حماس نے امن تجاویز منظور نہ کیں تو افسوس ناک انجام ہوگا، امن منصوبے پر بات چیت کی گنجائش کم ہے۔
ٹرمپ کے غزہ امن معاہدے کے تحت حماس کے جنگجو مکمل طور پر غیر مسلح ہوں گے اور انہیں مستقبل کی حکومت میں کوئی کردار نہیں دیا جائے گا، البتہ جو ارکان ’پرامن بقائے باہمی‘ پر راضی ہوں گے انہیں عام معافی دی جائے گی۔
منصوبے کے مطابق اسرائیل تقریباً دو سال سے جاری جنگ کے بعد بتدریج غزہ سے نکلے گا تاہم ٹرمپ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے بعد جاری کردہ ایک ویڈیو بیان میں نیتن یاہو نے کہا کہ فوج غزہ کے بیشتر حصوں میں رہے گی اور واشنگٹن میں مذاکرات کے دوران انہوں نے فلسطینی ریاست کے قیام پر اتفاق نہیں کیا۔