• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکہ 18مئی 1974ء کو پاکستانی سرحد سے صرف 93میل کے فاصلے پر راجستھان میں کیا تھا … یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کو دولخت ہوئے تقریباً ڈھائی سال ہو چکے تھے اور اندرا گاندھی اس فتح میں سرشار دوقومی نظریہ کو ہمیشہ کیلئے خلیج بنگال میں ڈبو دینے کا دعویٰ کر چکی تھیں۔ جب مشرقی پاکستان علیحدہ ہو چکا تو ایسے حالات میں یہ سوال بہت اہم تھا کہ بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیوں اور کس لئے کیا…؟ اور بھارت اس دھماکہ سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا…؟ بھارت شروع سے ہی توسیع پسندانہ اور جارحانہ عزائم کا حامل ملک رہا ہے۔ بھارتی رہنمائوں کے فعل ، عمل اور کردارسے بھی ان کے توسیع پسندانہ اور متشددانہ عزائم کی تائید وتوثیق ہوتی ہے۔ مثلاً حیدرآباد دکن، جوناگڑھ، مناوادر کے علاوہ ریاست جموں کشمیر کے ایک بڑے حصے پر قبضہ، بھوٹان اور سکم پر چڑھائی، 1962ء میں چین میں گھسنے کی کوشش، پاکستان کے ساتھ تین جنگیں، مشرقی پاکستان میں کھلی مداخلت… یہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کی صرف چند ایک مثالیں ہیں۔ 18مئی 1974ء ، 11مئی 1998ء کے ایٹمی دھماکے، ایٹمی میزائل سازی، مہنگے و تباہ کن اسلحہ کے انبار و ذخائر سب اسی سلسلہ کی کڑی ہیں۔ اسلحہ کے یہ انبار و ذخائر پاکستان سمیت پڑوسی ممالک کی خیرسگالی و خوشحالی کے لئے نہیں بلکہ ان کو بربادی سے دوچار کرنے کیلئے جمع کئے گئے ہیں۔جبکہ پاکستان کی اسلحہ سازی اور ایٹمی پروگرام صرف اور صرف اپنی بقاو دفاع کیلئے ہے اور دو وجوہات کی بنا پر پاکستان کیلئے ازحد ضروری ہے۔
اولاً! ہمیں بھارت جیسےدشمن کا سامنا ہے جس نے آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ یہ ہمارے دین، ملک، سلامتی، سا لمیت ، نظریہ اور اقدارو روایات کا دشمن ہے۔یہاں باقاعدہ حکومتی، مذہبی، سیاسی، عوامی، سماجی اور فوجی سطح پر اسلام اور پاکستان دشمن جذبات و خیالات کاشت کئے جاتے ہیں۔ اکھنڈ بھارت، بھارتی حکمرانوں کا مذہبی، حکومتی اور عسکری جنون و ایجنڈا ہے۔ بھارتی حکمرانوں کے پاکستان کے بارے میں آج بھی وہی عزائم و ارادے ہیں جو 1947ء یا 1971ء کے موقع پر تھے۔ بس فرق اتنا ہی کہ آج انہوں نے طریقہ واردات بدلا ہے۔
ثانیاً! پاکستان ترقی پذیر ملک اور توانائی بحران کا شکار ہے۔ خاص کر جب سے بھارت نے ہم پر آبی جارحیت مسلط کی ہے ہمارے ملک میں پانی کی شدید کمی، توانائی کا بحران اور زراعت کو بھی فروغ نہیں مل رہا۔ ایٹمی توانائی کو بروئے کار لا کر ہم دفاع اور توانائی کے ان تمام مسائل سے بطریق احسن عہدہ برآ ہو سکتے ہیں۔
28مئی اس اعتبار سے بہت عظیم دن ہے کہ یہ یوم تکبیر کے نام سے موسوم ہے۔ تکبیر کا مطلب ہے’’ اللہ اکبر‘‘ یعنی اللہ سب سے بڑا ہے۔آج پھر پاکستان مشکلات سے دوچار اور مصائب کا شکار ہے۔ یوں لگتا ہے کہ 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کی تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ 1998ء میں جب ایٹمی دھماکے کئے گئے تو اس وقت وہاں بی جے پی اور پاکستان میں میاں نواز شریف کی حکومت تھی۔ آج بھی وہی منظر ہے۔ درمیان میں صرف 16سال کا فاصلہ ہے۔ 16سال کا وقفہ اتنا لمبا اور طویل نہیں کہ ہمارے حکمران اسے بھول جائیںکہ انہیں ایٹمی دھماکے کیوں کرنے پڑے تھے اور انہیں یہ بھی یاد ہو گا کہ اس وقت بی جے پی کے پاکستان کے بارے میں کیا عزائم و ارادے تھے۔ اگر انہیں یہ سب کچھ یاد نہیں تو ہم انہیں یاد دلائے دیتے ہیں کہ جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے تو اس وقت کے بھارتی وزیراعظم واجپائی اور ان کے وزراء کا لب ولہجہ، گفتار و کردار اور اندازواطوار ہی بدل گئے تھے۔ وہ پاکستان کو ترنوالہ سمجھنے لگے۔ بھارتی حکمرانوں کے بیانات کا خلاصہ یہ تھا،بس! بہت ہو چکا اب پاکستان ہمارے غضب اور انتقام کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہو جائے۔آزاد کشمیر ہمارا حصہ ہے ہم اس میں فوجیں داخل کرنے کا حق رکھتے ہیں، پاکستان کیلئے بہتر ہے کہ وہ اپنی ان پالیسیوں کا صفحہ ہمیشہ کیلئے پلٹ دے جن کا تعلق ہم سے یا کشمیر سے ہے، ہمیں آزادکشمیر پر کنٹرول حاصل کرنے کیلئے فوراً حملہ کر دینا چاہئے۔
بھارتی حکمرانوں کا غیض وغضب اس حد تک بڑھا کہ سیاچن اور LOC پر بڑے پیمانے پر کارروائی کی خبریں آنے لگیں، یہاں تک کہ کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز (کہوٹہ ایٹمی پلانٹ) پر بھارت اور اسرائیل کے مشترکہ حملہ کی خبریں بھی گردش کرنے لگیں۔ یہ تھا 1998ء کے بی جے پی کے بھارت کا منظر، جو پاکستان دشمنی کے جذبات سے ابل رہا تھا۔مغربی ممالک بھی بھارت کو روکنے ٹوکنے اور جنگی جنون سے باز رکھنے کی بجائے پاکستان سے کہہ رہے تھے، نئے حالات میں سر جھکا کر جینا سیکھ لو۔ پاکستان نےعزت کے ساتھ زندہ رہنے کا فیصلہ کیا۔ 5ایٹمی ھماکے کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور عالم اسلام کو شادمانی و کامرانی سے سرشار کر دیا۔ 30مئی کو مزید ایک اور دھماکہ کر کے بھارت پر اپنی برتری و بالادستی ثابت کر دیاور واجپائی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ہم پاکستان کے ساتھ تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔
9/11کے بعد امریکہ کے اس خطے میں آنے کے بعد بھارت ایک بار پھر اچھل کود کر رہا ہے۔ بی جے پی ایک بار پھر اقتدار میں آچکی ہے۔ نریندر مودی وزیراعظم بن چکے ہیں۔ ایسے انتہاپسند شخص کے وزیراعظم بننے پر بھارت میں خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ خوشیاں تو پاکستان میں بھی منائی جا رہی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ بھارت میں اس شخص کے وزیراعظم بننے کی خوشیاں ہیں جو پاکستان کو ملیامیٹ کرنے کے ارادے رکھتا ہے اور پاکستان میں ایٹمی دھماکوں کی خوشیاں ہیں جو ہماری سلامتی اور تحفظ کے ضامن ہیں۔
ہم اپنے حکمرانوں سے کہیں گے کہ خوشی و مسرت اور شادمانی کے ان تاریخی لمحات میں یہ تلخ حقیقت نہ بھولیں کہ ،16سال کے عرصہ میں بھارت کا پاکستان کے ساتھ کیا رویہ و برتائو رہا ہے،؟ ہمارے حکمرانوں نے بھارت کے ساتھ اعتماد سازی اور دوستی کی فضا قائم کرنے کیلئے اپنی آزادی اور خودمختاری تک کو دائو پر لگا لیا، کشمیر پر اپنے دیرینہ موقف کو تبدیل کیا!کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ جواب میں پاکستان کو کیا ملا؟دشمنی، تخریب کاری، دہشت گردی، آبی جارحیت، نفرت، عداوت، ایل اوسی پر پختہ مورچے، بنکر، خاردار تاریں، آہنی باڑیں، اور اب کشمیر کو مستقل بنیادوںپر تقسیم کرنے کیلئے دیوارِ برلن کی طرز پر دیوارِکی تعمیر۔یہ ہے بھارت کی طرف سے پاکستانی محبتوں کا جواب۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے پاکستان کے ساتھ رویہ و سلوک میں نرمی کی بجائے سختی ، محبت کی بجائے نفرت اور دوستی کی بجائے دشمنی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ جس کا واضح ثبوت بھارت کے حالیہ الیکشن ہیں جو صرف اور صرف پاکستان دشمنی کی بنیاد پر لڑے گئے ہیں۔ ان الیکشنوں سے بھارت کے چہرے پر پڑا سیکولرازم اور پاکستان دوستی کا جھوٹا، جعلی اور پرفریب چانکیائی نقاب بالکل ہی اتر چکا ہے۔ بی جے پی جہاں پاکستان کے بارے میں سخت گیر موقف رکھتی ہے وہاں مقبوضہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے، شہید بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے اور دنیا بھر کے ہندوئوں کو بھارت میں لا کر بسانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ان حالات میں ہم حکمرانوںسے کہیں گے کہ وہ بھارت کے حوالے سے اپنی حکومت کی ترجیحات اور خارجہ پالیسی کا ازسرنو تعین کریں۔ خوش گمانی اچھی بات ہے لیکن خوش فہمی انسان کو لے ڈوبتی ہے۔قوموں اور ملکوں کے معاملات و معاہدات میں خوش فہمی، اکثر بے رحم، تباہ کن، سفاک اور المناک انجام پر منتج ہوتی ہے۔ لہٰذا حالات کا ادراک وتقاضا ہے کہ ہمارے حکمران اپنے آپ کو جانیں، دشمن کو پہچانیں اور اس کے عزائم و ارادوں کو سمجھیں۔
تازہ ترین