قارئین کرام! ذرا غور فرمائیں پاکستان واقعی ایک مملکت خداد اد ہے؟ بھارتی ہندو بنیاد پرست قیادت و حکومت کے پاکستانی سلامتی مخالف مسلسل موجود مذموم ارادوں کے حال ہی میں کھلی جارحیت میں ڈھل جانے پر پاکستان اب بھارتی سلامتی کے لئے مسلسل خطرہ نہیں بن گیا؟ جی ہاں بن گیا۔ جس طرح بھارت قیام پاکستان سے اس کے خلاف بنا رہا؟
اب صرف پاکستان ہی نہیں، پاک، چائنہ دفاعی اشتراک بھی بھارتی سلامتی کو مسلسل ہی نہیں بڑا اور خطرناک ۔ قابل مذمت پہلگام دہشت گردی وٹریجڈی کے تناظر میں اپنی داخلی سلامتی کو پڑے لالے کا جائزہ لئے بغیر حسب معمول جس طرح پاکستان پر دہشت گردی کا الزام تھونپتے ہی ہمارے کتنے ہی شہروں کی سول آبادیوں پر راکٹ اور ڈرون حملے کردیئے اپنے تئیں آزاد کشمیر کا ایک سلائس کاٹ کر اس پر فوجی قبضہ کرنے کی جسارت کرتے دیہات پر بمباری شروع کی۔
اس پر دو روز بڑے صبر کا مظاہرہ کرنے کے بعد پاک فضائیہ اور بری فوج نے مختصر ترین عرصے میں تباہ کن جواب دے کر بھارت کو جو شکست فاش دی اس پر پاکستان نے اپنی واضح عسکری بالادستی قائم کردی، جسے پوری دنیا کا میڈیا تسلیم کر رہا ہے۔
خود بھارتی اپوزیشن جماعتوں اور میڈیا نے سنجیدہ و پروفیشنل سیکشن آف میڈیا پر ملکی تجزیہ کاروں، دانش وروں اور دفاعی ماہرین ، مسلسل مودی کی انتہا پسندبھاجپائی حکومتی رویے اور جنونی فیصلے کے بخیے ادھیڑتے بھارتی مین ڈیٹڈ لیکن بھارتی سلامتی کے لئے خطرہ بن گئے مودی قیادت کی اصلیت کا پردہ چاک کردیا۔ اسے مودی کے بوکھلائے سیاسی ابلاغ اور چہرے مہرے پر واضح پڑھا جا سکتا ہے۔
مسئلہ کشمیر فلیش پوائنٹ کے طور پر اجاگر ہونا کتنی بڑی سفارتی فتح۔ پھر مودی پر حماقتوں سے بھارتی سلامتی پر پاک چائنہ خطرے کی تلوار مسلسل لٹکانے کا الزام ہی عائد نہیں ہو رہا، ٹرمپ ، مودی یاری تڑک کرکے ٹوٹنے، پریشان کن سفارتی تنہائی اور دنیا میں بھارت مکمل غیر ذمے دار نااہل، بزدل اور بدتمیز ہونے کا عالمی سطح پر یقین، بھارت کی عسکری شکست برابر ہی ہزیمت اور تباہ کن خسارہ ہے۔
معاملہ یہاں تک ہی نہیں اس کے بالکل برعکس پاکستان کے جنوبی ایشیائی عسکری غلبے اس کےسیاسی سفارتی تحمل، ذمے دارانہ قومی طرز عمل، عسکری ،ابلاغی و سفارتی اہلیت و مہارت کے چرچے دنیا بھر کے تھنک ٹینکس اور میڈیا پر جاری۔ پاکستانی شاہینوں کی مہارت سے بھارتی ایئر ڈیفنس کے نظام اور رافیل ٹیکنالوجی کی چند منٹوں میں تباہی نے پاکستانی فضائی دفاعی صلاحیت کا ڈنکا پوری دنیا میں بجا دیا۔
اگر پاکستان کی مملکت خدا داد کی حقیقت کو سمجھنا ہے اور اس راز سے واقعی آگاہی حاصل کرنی ہے تو حالیہ جنگ کا ایمی جیٹ بیک گرائونڈ کا تجزیہ لازم۔ یہ ہی نہ کہ پاکستان مکمل داخلی انتشار ، سیاسی عدم استحکام میں مبتلا پورا ریاستی نظام متنازعہ، عدلیہ مفلوج، قوت اخوت عوام حکومت کے فسطائی اقدامات سے مسلسل زیر عتاب، میڈیا جکڑا ہوا، سوشل میڈیا گستاخ قرار۔یہ سب کچھ لمحوں میں ’’بنیان مرصوص‘‘ میں بصورت پاکستانی فتح مبین اور بھارتی شکست و ذلت میں تبدیل ۔
جبکہ بھارت اس کے برعکس شائننگ، سیاسی مستحکم، آئی ٹی اسٹار، معاشی حیثیت پاکستان کے مقابلے میں دسیوں گنا بہتر۔ لیکن فضائی جنگ کا 6/0حوالہ، بلاکی سفارتی تنہائی اور داخلی ماتم اب بتائیں پاکستان مملکت خداداد ہے یا نہیں؟ لیکن ۔
پاکستان کو اپنی نئی باکمال و جمال پوزیشن پر شکر کرنا ہے۔ نازاں ہونے سے زیادہ اپنی حقیقت و اصلیت کو بھی سمجھنا اور کمزوریوں ہی نہیں ڈیزاسٹر پربھی فوری توجہ دینا ناگزیر ہے۔
نظام قدرت کی تخلیق مملکت خداداد کی حیثیت منتظر ہے کہ ہم مہلت خداوندی سے کب اور کتنی اصلاح کرتے ہیں۔ مزید تاخیر اور ٹال مٹول کی معمولی گنجائش بھی نہیں ناگزیر یہ ہے کہ اب روایتی سیاست کی منافقتوں اور ارتقاء کے لگے بڑے بڑے ریورس کو دوبارہ جلد حاصل کیا جائے ۔
جنگی بنیاد پر ظلمت بن گئی سیاسی و سماجی ناانصافی اور حکومتی ظلم و جبر کے جاری اقدامات رویے اور کیفیت کو فوراً ختم کیا جائے۔راستہ فقط ایک، آئین کا حلیہ درست کرکے اس کی فوری بحالی بے آئینی پر کیسی مفاہمت اور قومی اتحاد؟
اس سے بڑی منافقت اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس کےقیام کے مقاصد سے اور کوئی ہو سکتی ہے۔ فاتح پاکستان دنیا میں سرخرو رہنےکے لئے، آئینی تشخص کی بحالی کا شدت سے منتظر ہے۔
جنوبی ایشیا:سیاسی جغرافیہ کی تشکیل نو
(گزشتہ سے پیوستہ)
واضح رہے افغانستان پر روسی جارحیت سے 5سال قبل 1974ء میں بھارت ایٹمی تجربات کرکے ترقی پذیر دنیا کی پہلی اور چھٹی عالمی ایٹمی طاقت بن چکا تھا ۔محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان، وزیر اعظم بھٹو سے رابطہ کرکے پاکستان کی بھی اتنی ہی دفاعی صلاحیت کی تجویز اور اسے کامیابی سے مکمل کرانے کا یقین دلا چکے تھے اور ذوالفقار علی بھٹو ،ڈاکٹر صاحب کو مکمل آمادگی کا حوصلہ افزا رسپانس دے چکے تھے اس آغاز کے لئے لیبیا سے ابتدائی مالی امداد حاصل کرنے میں بھٹو صاحب نے نتیجہ خیز سفارتی کامیابی حاصل کی۔
اپنی اعلیٰ تنظیمی صلاحیت اور دیانت دارانہ و شفاف سربراہی سے ڈاکٹر عبدالقدیر نے سالوں میں قائم ہونے والی کہوٹہ لیب مہینوں میں ڈویلپ کرڈالی تو دنیا بھر خصوصاً مغربی سفارتی حلقوں میں خاموش سفارتی کہرام مچنے لگا جو تیزی سے پاکستان کے خلاف ’’اسلامی بم ‘‘ بنانے کے پروپیگنڈے اور بھٹو پھر ضیا حکومت پر این پی ٹی پر دستخط کرنے کے مسلسل اور بڑے سفارتی دبائو میں تبدیل ہو گیا۔
1980ء میں امریکی ریاست یوتھا کے سالٹ لیک ٹیکنیکل کالج میں زیر تعلیم تھا کارٹر بمقابلہ ریگن کی امریکی صدارتی انتخابی مہم زوروں پر تھی ،برپاہوئے اسلامی انقلاب کے دوران ایران میں امریکی سفارتی و انتظامی عملے کی یرغمالی، پھر افغانستان پر روسی جارحیت کے تین موضوعات نے اساتذہ و طلبا میں بھی کچھ ہلچل مچائی ہوئی تھی طلبا منتظر تھے کہ اب تجسس پیدا ہو گیا کہ ماسکو میں اولمپکس گیم ہوگی یا نہیں ؟
امریکی آئینی گنجائش کے مطابق بوقت ضرورت فوج میں نوجوانوں کی بھرتی کے لئے عام لام بندی کا قانون ڈرافٹ ریزولیشن پر عملدرآمد شروع ہو گیا تھا شہر میں بھرتی کے ابتدائی پراسس کے طور نوجوانوں کی قطاریں ریکارڈکی تیاری کیلئے نظر آنے لگیں۔ڈیموکریٹ جمی کارٹر بمقابل رونالڈ ریگن کے مقابل واضح طور پر تمام انتخابی جائزوں میں کمزور امیدوار معلوم دے رہےتھے تاہم وہ افغانستان پر روسی جارحیت کے خلاف پہلے چار ابتدائی امریکی اقدامات کا اعلان کر چکے تھے جو یہ تھے۔
نمبر 1۔نوجوانوں کی عام لام بندی ڈرافٹ ریزولیشن کا اعلان۔
نمبر2۔ماسکو میں اولمپکس کی عالمی گیم کا بائیکاٹ۔
نمبر 3۔روس کو امریکی گندم کی برآمد پر پابندی۔
نمبر 4۔پاکستان کو چالیس ملین ڈالر کی فوری امداد کا اعلان۔
(جاری ہے )