اسلام آباد بابوؤں سے لے کر سفارت کاروں کی بستی ہے۔ حالیہ پاک انڈیا تصادم کے بعد اس بستی میں آنا ہوا تو جس سفارت کار سے بھی ملاقات ہوئی اس کی زبان پر ان تازہ واقعات کا ہی ذکر تھا۔ میں نے دوران گفتگو کہا کہ یہ صرف پاکستان کا معاملہ نہیںبلکہ دنیا کیلئے پاک چین دوستی سلامتی کا ذریعہ ہے ورنہ انڈیا جس ذہنیت کا حامل ہے وہ ہر اخلاقی قدر کو پامال کر سکتا ہے جیسے کہ دنیا بھر میں انڈیا خود سے اختلاف رکھنے والوں کو قتل کرا رہا ہے۔ اپنے يکم جون دو ہزار تیرہ کے ایک کالم کا حوالہ دیا کہ اس میں امریکی صدر رچرڈ نکسن کی کتاب ’’لیڈرز‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے انکے چین کے حوالے سے تاثرات بیان کئے تھے، صدر نکسن نے تحریر کیا تھا کہ ’’انیس سو بہتر میں اپنا دورہ چین ختم ہونے پر میں نے آخری جام یہ تجویز کیا کہ ہم ایک ہفتے تک یہاں رہے ہیں، یہی وہ ہفتہ ہے جس نے دنیا کو بدل ڈالا۔
بعض مبصرین کا خیال تھا کہ میں اس دورے میں ڈرامائی حیثیت میں بہہ نکلا تھا اور میں نے اسے ضرورت سے زائد اہمیت کا حامل گردانا تھا۔ میرا یقین ہے کہ تاریخ اس حقیقت کو ثابت کرےگی کہ اگر چین اور امریکہ کے مابین تعلقات نارمل بنانے کیلئے یہ پہلا قدم نہ اٹھایا جاتا تو آج طاقت کا توازن خطرناک حد تک روس کے حق میں ہوتا جو ہمارے لئے مہلک ہوتا۔‘‘ میں نے اس کالم میں عرض کی تھی کہ ’’یہی کیفیت پاک چین تعلقات کے حوالے سے ہے۔ اگر پاکستان اور چین تعلقات میں گرمجوشی نہ لاتے تو مغربی اور سوویت مدد کے طفیل بھارت کی وجہ سے خطے میں عدم توازن برپا ہوجاتا جو پاکستان اور چین کیلئے انتہائی مضر ہوتا‘‘ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جہاں انڈیا کو عسکری محاذ پر رسوائی کا سامنا کرنا پڑا وہیں سفارتی دنیا میں بھی اس کی بات پر کسی نے کان نہیں دھرے، سونے پر سہاگہ یہ کہ انڈین میڈیا نے جھوٹ کے اپنے ہی بنائے ہوئے سابقہ تمام ریکارڈ بھی توڑ ڈالے جو دنیا میں جگ ہنسائی کا باعث بن رہے ہیں اور سفارت کاروں کی گفتگو میں یہ تمام پہلو مکمل طور پر آشکار تھے۔ پاکستان اور چین کے باہمی روابط دنیا بھر مسلمہ حقیقت ہیں مگر جس انداز میں ان چار دنوں میں باہمی تال میل نظر آیا اس نے تو دنیا کو ششدر کر کے رکھ دیا اور اب دنیا یہ جاننے کیلئے بے قرار نظر آ رہی ہے کہ پاکستان اور چین کے یہ باہمی تعلقات مزید کن اہداف تک پہنچنے کی جستجو میں ہیں۔ دنیا بھر سے لے کر چین میں بھی یہ تصور بہت مضبوط ہوا ہے کہ پاکستان کے پاس چینی ٹیکنالوجی ضرور موجود تھی مگرپاکستان نے کمال مہارت سے اس ٹیکنالوجی کو استعمال کیا ہے، پاکستان نے فضائی برتری تو انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں بھی حاصل کرلی تھی اصل چیز کسی ٹیکنالوجی کے موجود ہونے سے زیادہ اس کا مہارت سے استعمال ہوتا ہے۔
پاکستان کی اہمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے مگر ہمارے ہاں انڈیا کے حجم کی وجہ سے اسکے زیادہ طاقت ور ہونے کا ایک بیانيہ تراش لیا گیا ہے ورنہ یہ کوئی ماضی نہیں ہے جب جرمن وزیر خارجہ نے اسلام آباد اور اپنے ملک میں کھڑے ہو کر کشمیر کی بات کی تھی اور انڈیا کے جزبز ہونے کے باوجود اپنے مؤقف پر قائم رہی تھیں۔ انڈیا سلامتی کونسل کی رکنیت حاصل کرنے کیلئے مضطرب ہوا تو پاکستان اٹلی کے ساتھ ملکر سلامتی کونسل کے اراکین کی تعداد نہ بڑھنے دینے کیلئے پاک اٹلی کافی کلب کے نام سے باہمی تعاون حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس وقت بھی اٹلی کی سفیر پاکستان اور اٹلی کے باہمی تعلقات کو مضبوط کرنے کی غرض سے بہت متحرک ہیں ، جس اعلیٰ سطح کے اٹلی کے وفود پاکستان آ رہے ہیں ایسا ماضی قریب میں توبالکل نہیں ہوا۔ اٹلی کی نیوی کے جہاز کی پاکستان آمد، بحری سیاست کو سمجھنے والے اسکی اہمیت سے اچھی طرح سے آگاہ ہیں۔
پاکستان اگر حکمت عملی اختیار کرے تو یورپ میں پاکستان کی مزید کامیابیوں کیلئے بہت گنجائش موجود ہے اور صرف بات یورپ ہی کی نہیں۔ ابھی جب حال ہی میں پاک انڈیا تصادم ہوا تو پاکستان نے چین کی مدد سے افغانستان سے بھی معاملات کو بہتر کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار ون مين آرمی کے طور پر کام کر رہے ہیں اور بہت کامیاب بھی جا رہے ہیں۔ ہمیں افغانستان کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے انکی ترجیحات و ضروریات کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے اور اپنے اور انکے نقطہ ہائے نظر کو قریب بلکہ ایک جیسا کرنے پر کام کرنا چاہئے۔ بعض معاملات بہت دقت طلب محسوس ہوتے ہیں مگر درحقیقت قابل عمل ہوتے ہیں۔ افغانستان سے اصل معاملہ یہ ہے کہ ماضی میں افغان حکومت اپنے وعدوں پر پورا نہیں اتر سکی تھی۔ ہمیں بھی ان اسباب کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ جنکی وجہ سے ایسا ہوا تھا۔ پاکستان اپنے تعلقات کو بہتر کرنے کی صلاحیت رکھنے والا ملک ہے۔ ابھی آذربائیجان کو ہی دیکھ لیجئے، پاکستان نے کامیاب حکمت عملی سے صرف وہاں کی حکومت ہی نہیں بلکہ عوام کے دلوں میں بھی جگہ بنا لی جس کا مظاہرہ ابھی حال ہی میں دنیا نے دیکھا۔ اسی طرح سے ایران سے ہم بتدريج بہتر تعلقات کی طرف گامزن ہیں اور ہمیں چاہیے بھی یہ کہ ایک دوسرے کو سمجھتے ہوئے، اس کی ضروریات کا ادراک کرتے ہوئے معاملات کو بہتر کریں۔ ایران کو بھی یہ سمجھایا جائے کہ پاکستان کے عرب دنیا میں اور نوعیت کے مفادات ہیں جبکہ ایران کے ساتھ اور امور وابستہ ہیں۔ ان کو آپس میں گڈ مڈ نہیں کیا جا سکتا۔