• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیٹیاں محض آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہی نہیں ہوتیں، باپ کا غرور بھی ہوتی ہیں۔ اس رشتے کی مٹھاس صرف وہی شخص محسوس کر سکتا ہے جس کے آنگن میں کسی ننھی پری کی آمد سے بہار آئی ہو اور چمنستان زیست کھِل اُٹھا ہو۔ لیکن ستم تو یہ ہے کہ ایک روز بابا کی پری کو خود اپنے ہاتھوں سے رُخصت کرنا پڑتا ہے۔ یہ جدائی کسی عذاب سے کم نہیں۔ اگر بیٹی کسی جاہل، اجڈ، گنوار اور مردِ بیمار کے کھونٹے سے باندھ دی جائے تو مرتے دم تک اذیت مقدر ہو جاتی ہے اور انسان جیتےجی بھی مر ہی جاتا ہے۔ اس دُکھ پر پھر کبھی بات کریں گے سردست تو قارئین کی خدمت میں یہ مقدمہ پیش کرنا ہے کہ بٹیا سرخ عروسی جوڑا پہنے بغیر ہی اپنے لہو میں ڈوب کر داغ مفارقت دے جائے تو دل فگار باپ کی کیا حالت ہو گی؟ یہ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ پھولوں کی طرح مہکتی اور بلبل کی مانند چہکتی ثناء یوسف کی موت پر انہی بے ربط خیالات نے پریشان کر رکھا ہے۔ زندگی کی رعنائیوںسے مرصع، توانائیوں سے بھرپور، شوخ اور چنچل ثنا ء کا قصور کیا تھا؟ یہی کہ اس نے کسی کی بانہوں میں جانے کی پیشکش ٹھکرا دی؟ دوستی کی آڑ میں ہوس کا نشانہ بننے سے انکار کر دیا؟ اپنی مرضی سے جینے کی جستجو ہی اس کا جرم بن گئی؟ اس کی آنکھوں میں نجانے کتنے خواب تھے جو قبر میں دفن ہو گئے۔ میڈیکل کی تعلیم حاصل کر کے مسیحا بننا چاہتی تھی مگر ایک جنونی مریض کے ہاتھوں قتل ہو گئی۔ واردات کی تفصیل آپ کو معلوم ہے، دہرانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ یقیناً آئی جی اسلام آباد سید علی ناصر رضوی اور انکی پوری ٹیم بالخصوص سب انسپکٹر منصب داد مبارکباد کے مستحق ہیں کہ اس پیچیدہ اور اُلجھے ہوئے مقدمہ کی گتھی بہت جلد سلجھا لی اور قاتل کو 24گھنٹے سے پہلے گرفتار کر لیا۔ مگر اس سانحہ کے کئی پہلو توجہ طلب ہیں اور ان سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔

پولیس حکام کے مطابق 17سالہ ٹک ٹاکر ثناء یوسف کو گھر میں گھس کر قتل کرنے والا 22سالہ عمر حیات المعروف کاکا فیصل آبادی کچھ عرصہ سے مسلسل میل جول بڑھانے کیلئے کوشاں تھا۔ پہلے اس نے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوشش کی، پھر موبائل فون نمبر لیکر بات کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہا لیکن جب بات نہ بنی تو اسلام آباد آکر ثناء کے گھر کے باہر ڈیرے ڈال لیے۔ جب کوئی طریقہ کارگر ثابت نہ ہوا تو اس کی مردانگی کو ٹھیس پہنچی اور جرات انکار پر گستاخ لڑکی کو قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاملہ والدین کے علم میں تھا؟ اگر بچی نے اپنے والد کو صورتحال سے آگاہ نہیں کیا تو اس المناک واقعہ میں سب بچیوں کیلئے سبق آموز بات یہ ہے کہ کوئی شخص مسلسل ہراساں کرنے کی کوشش کر رہا ہو تو بات چھپانے کے بجائے گھر کے بڑوں کو بتائی جائے تاکہ وہ اس کا کوئی حل تلاش کر سکیں یا ضرورت پڑنے پر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی مدد لی جا سکے۔ اگر ملزم کے جنونی رویوں کی نشاندہی کرتے ہوئے متعلقہ تھانے میں ہراساں کیے جانے کی شکایت کی گئی ہوتی تو شاید یہ نوبت نہ آتی۔ ایک اور اہم پہلو لڑکوں کی تربیت کا ہے۔ میں ان بیہودہ لوگوں پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا جو اس طرح کے ہر واقعہ کے بعد ملزم کے بجائے مدعی کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،متاثرہ فریق کی کردار کشی کے مرتکب ہوتے ہیں یا پھر گِدھوں کی طرح لاشوں کو بھنبھوڑنے کا شوق رکھتے ہیں۔ میرے مخاطب درد دل رکھنے والے وہ اصحاب ہیں جن کی اپنی بیٹیاں ہیں۔ بچوں کی تربیت کے دوران لڑکوں کے دماغ میں بالخصوص یہ بات راسخ کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر کوئی لڑکی آپ سے بات نہیں کرنا چاہتی، آپ سے کسی قسم کے تعلق سے انکار کرتی ہے یا پھر شادی کی پیشکش مسترد کر دیتی ہے تو اس کا مطلب آپ کی تضحیک و تذلیل یا اہانت نہیں ہے۔ جس طرح مرد کو اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق ہے اسی طرح عورت بھی ہر طرح کے فیصلے کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ اور ناں کا مطلب انکار ہی سمجھا جائے جسکے بعد اصرار کی روش ہراساں کرنا کہلاتی ہے اور اس جرم کے ارتکاب پر جیل کی ہوا کھانا پڑ سکتی ہے۔ اگر والدین اپنے بیٹوں کو یہ بنیادی اخلاقیات اور معاشرتی اصول سکھانے سے قاصر ہیں تو پھر قانون کی عملداری یقینی بناتے ہوئے لاتوں کے بھوت ڈنڈے سے سیدھے کیے جائیں۔ مردوں کی یہ غلط فہمی دور کی جائے کہ اگر کوئی لڑکی ڈیجیٹل میڈیا پر ہے، فلم یا ڈرامہ انڈسٹری میں کام کر رہی ہے، روشن خیال ہے تو لامحالہ بدکردار ہوگی اور باآسانی دستیاب ہو گی۔ کسی کا مداح اور پرستار ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اس پھول کو توڑ کر ہتھیلی میں مسل دیا جائے۔ تکلف برطرف، میرا ذاتی مشاہدہ تو یہ ہے کہ بظاہر لبرل دکھائی دینے والی خواتین کی نسبت مذہبی نظر آنے والی خواتین ترنوالہ ثابت ہوتی ہیں لیکن اس بحث سے قطع نظر، خاتون کسی بھی پس منظر کی ہو، اسکی ذاتی زندگی اور مشاغل خواہ کچھ بھی ہوں، اپنی حدود و قیود اس نے خود طے کرنی ہیں، آپ اپنے تاثر یا توقع کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کرکے اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتے۔

بظاہر تو ثناء یوسف پر گولی 22سالہ ملزم عمر حیات نے چلائی لیکن اس بہیمانہ قتل میں ہر وہ شخص شریک جرم کی حیثیت سے ملوث ہے جو اس گھنائونے جرم کے حق میں تاویلیں پیش کر رہا ہے۔ وہ لوگ جو عورت کی ہنسی کو فحاشی کا نام دیتے ہیں، غیرت کے نام پر قتل کو بہادری خیال کرتے ہیں، خود مختار اور بااعتماد عورت کو بدکردار سمجھتے ہیں، خواتین پر تشدد کو مردانگی تعبیر کرتے ہیں، لڑکیوں کو غیرت کی آگ دہکانے کیلئے جلائی جا رہی لکڑیاں تصور کرتے ہیں، قاتل کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے مقتولہ کو قصور وار قرار دیتے ہیں، میرا جسم میری مرضی کے نعرے کی مخالفت کرتے ہیں، کم عمری کی شادیوں کی حمایت کرتے ہیں، بہنوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیتے، عورت کو کمتر مانتے ہیں، بچیوں کی تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں، بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دیتے ہیں، وہ سب ظالم، جابر اور قاتل ہیں۔

تازہ ترین