• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ سال انتخابات سے پہلے مختلف سیاسی جماعتوں اور لیڈروں نے تبدیلی کا نعرہ بلند کیا۔ اُس وقت ایک طرف قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے ہو رہے تھے اور نیٹو افواج نے پاکستان میں ایک فوجی چوکی پر حملہ کر کے درجنوں افسر اور جوان شہید کر دیئے تھے۔ کراچی میں بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں اور ٹارگٹ کلنگ زوروں پر تھی جبکہ بلوچستان میں نیم بغاوت ، فرقہ واریت اور لاپتہ افراد کے واقعات نے ایک سنگین صورتِ حال پیدا کر دی تھی۔ لاہور کے ایک تھنک ٹینک پائنا نے پنجاب یونیورسٹی کے تعاون سے دو روزہ بلوچستان کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں بلوچستان کی تمام قوم پرست سیاسی جماعتوں نے بھی حصہ لیا۔ اِس کانفرنس میں نواب غوث بخش باروزئی بھی مدعو تھے جو بعد میں بلوچستان کے نگران وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے۔ انتخابات سے ایک ماہ پہلے لاہور کے بارہ صحافیوں نے کوئٹہ کا دورہ کیا اور انتخابات کے انتظامات قریب سے دیکھے۔انتخابات میں نیشنل پارٹی، مسلم لیگ نون اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کامیاب رہیں اوروزیراعظم نوازشریف نے اقتدار ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو سونپ دیا جنہوں نے سب سے پہلے مقامی حکومتوں کے انتخابات کرانے کا اعزاز حاصل کیا۔
حُسن اتفاق سے کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کی اسٹینڈنگ کمیٹی کا اجلاس کوئٹہ میں منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا۔ 23مئی کو پورے ملک سے ایڈیٹر وہاں پہنچے اور اُنہیں بلوچستان کے صحافیوں، سیاستدانوں، جناب وزیراعلیٰ، جناب گورنر صاحب ، سدرن کمانڈ کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نصیر جنجوعہ اور پولیس کے اعلیٰ افسران سے ملنے اور وسیع تناظر میں تبادلۂ خیال کرنے کا موقع ملا۔ یہ وہ دن تھے جب جیو نیوز اور روزنامہ جنگ کے خلاف ایک فضا پیدا کی جا رہی تھی اور جنگ گروپ کے اخبارات تقسیم کرنے والی گاڑیاں نذرِ آتش کی جانے لگی تھیں۔ بدقسمتی سے مختلف میڈیا ہاؤس ایک دوسرے پرحملہ آور ہو رہے تھے۔ اسٹینڈنگ کمیٹی میں صحافت کو درپیش انتہائی گمبھیر چیلنج پر رات گئے تک اظہارِ خیال ہوتا رہا۔ ارکان اِس نتیجے پر پہنچے کہ آزادیٔ صحافت کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے، جیو کی نشریات کو غیر قانونی طور پر بند کرنے اور روزنامہ جنگ کی تقسیم روکنے کے پُرتشدد واقعات کی مذمت کی جائے اور اِس بنیادی ضرورت پر زور دیا جائے کہ ایڈیٹر کا ادارہ اور داخلی احتساب کا نظام مستحکم کیا جائے تاکہ آئندہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آنے پائے۔ سی پی این ای کے صدر جناب مجیب الرحمٰن شامی نے جس صحافیانہ دانش اور مہارت سے قرارداد مرتب کی، اُس پر تمام شرکاء نے پوری خوشدلی سے اتفاق کیا اور یوں ایک دلکشا منظر اُفقِ صحافت پر طلوع ہوا۔ اِس کے بعد جیو انتظامیہ کی طرف سے ایک معذرت نامہ بھی شائع ہو گیا اور توقع کی جا رہی ہے کہ تلخی میں ضرور کمی آئے گی۔
ایک ہوٹل میں ناشتے کی میز پر کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی صحافتی اور سماجی شخصیتیں بھی موجود تھیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ ہمارا شہر بڑی حد تک پُرامن ہے اور حکومت کی شبانہ روز کوششوں سے فرقہ وارانہ تشدد پر قابو پایا جا چکا ہے۔ معروف صحافی امان اﷲ شادوزئی نے بتایا کہ بلوچوں اور پختونوں کے درمیان جو ایک تناؤ چلا آ رہا تھا ، وہ اب باہمی یگانگت میں ڈھل رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے جناب عبدالقیوم کاکڑ نے بڑے خوشگوار لہجے میں کہا کہ اب شہر میں امن وامان ہے اور اغوا برائے تاوان کی واردات مہینوں میں ایک دو بار ہوتی ہے۔ سیاسی دانشور انوار الحق کاکڑ بتا رہے تھے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مابین پوری ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور پہلی بار سول ملٹری تعلقات بڑے مثالی ہیں۔ اِن تمام دوستوں کی گفتگو سے بڑا حوصلہ اور اِس احساس کو بڑی تقویت حاصل ہوئی کہ کوئٹہ میں فی الحقیقت تبدیلی آ چکی ہے۔ ہزارہ قبیلہ محفوظ ہے اور جرائم پیشہ لوگ قانون کی گرفت میں آتے جا رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے ظہرانے کا اہتمام کیا تھا اور وزیراعلیٰ ہاؤس کے لان میں اپنے وزراء ، ارکانِ اسمبلی اور اعلیٰ افسران جمع کیے تھے۔ وہ شلوار قمیص میں ملبوس ہر شخص سے عوامی انداز میں مل رہے اور اُسے مناسب وقت دے رہے تھے۔ تقریب میں اُن سے پہلے وزیر منصوبہ بندی جناب حامد اچکزئی نے تقریر کی جو تاریخ کا حصہ تھی۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بڑے خوبصورت پیرائے میں حکومت کی ترجیحات اور ایک سالہ کارکردگی بیان کی اور اپنا یہ عزم دہرایا کہ ہم عوام کی فلاح و بہبود کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں ، اپنی پوری توجہ تعلیم پر مرکوز کیے ہوئے ہیں اور کوئٹہ کو یونیورسٹیوں اور کالجوں کا شہر بنا دینا چاہتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی تقریر میں فیض کا شعر بھی سنایا جو اِس امر کی شہادت دے رہا تھا کہ بلوچستان میں آئندہ مشاعرے منعقد ہوں گے اور اہل اقتدار دانشوروں کی محفل میں بیٹھا کریں گے اور یوںماحول میں علم و تحقیق کی خوشبو رچ بس جائے گی جبکہ پہلے خون کی بو پھیلی ہوئی تھی۔
تبدیلی کا گہرا ادراک ہمیں لیفٹیننٹ جنرل نصیر جنجوعہ کی معلومات افزا اور فکر انگیز بریفنگ سے ہوا۔ اُنہوں نے بتایا کہ ہمیں اِس وقت دس چیلنجوں کا سامنا ہے اور قوم کے تمام اہم عناصر مل کر اُن کو عظیم امکانات میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ اُن کی جچی تلی رائے تھی کہ پاکستان کا مستقبل اور اِس کی خوشحالی بلوچستان سے وابستہ ہے جس کی غربت اور شورش پر قابو پانے کے لئے ہمیں بڑی محنت ، بڑے ایثار اور بلند نگاہی سے کام لینا ہو گا۔ اُن کا ذہن بہت واضح تھا کہ گوادر بندرگاہ اور خنجراب کے درمیان چین کے تعاون سے اقتصادی کاریڈور بننے والا ہے اور اِس پر کام بھی شروع ہو چکا ہے ، وہ اِس خطے کی تقدیر بدل دے گا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ فاٹا میں طالبان پر جلد قابو پا لیا جائے گا اور اُس کے ساتھ ساتھ ہمیں اُن ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے یا اُنہیں مکمل طور پر ڈس کریڈٹ کرنے کے لئے صوبائی اور قومی سطح کی جواں ہمت شخصیتوں پر مشتمل وفود اُن کی طرف بھیجنا ہوں گے اور ہمیں مثبت سوچ اور مثبت اقدار پر تعمیر کا کام تیزی سے سرانجام دینا ہو گا۔ اُن کے تجربات ، مشاہدات اور تجزیوں کالُبِ لباب یہ تھا کہ مسائل فقط سیاسی طریقے ہی سے حل کیے جا سکتے ہیں اور ہمیں سیاسی عمل کے تسلسل میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اُن کا مشورہ تھا کہ حکمرانوں کو ہر کام فوج پر چھوڑ دینے کے بجائے سول اداروں کو مستحکم اور امنِ عامہ کے قیام کے لئے پولیس کو اعلیٰ تربیت ، جدید اسلحہ اور اچھے سماجی ماحول سے لیس کرنا ضروری ہے۔ مجھے یوں لگا کہ اعلیٰ عسکری قیادت کی کایا پلٹ ہوتی جا رہی ہے اور وہ سحر طلوع ہو رہی ہے جس سے شبستانِ وجود لرز اُٹھتا ہے۔ آخری وقت ہمیں اعلیٰ پولیس افسروں سے حالِ دل معلوم کرنے کا موقع ملا۔ اُنہوں نے بتایا کہ نگران حکومت سے لے کر موجودہ حکومت تک ہرفیصلہ میرٹ پر ہو رہا ہے اور پولیس کو اِس قدر اعلیٰ تربیت کے وسائل مہیا کیے جا رہے ہیں کہ چاروں صوبوں میں سب سے ترقی یافتہ فورس بن کر اُبھرے گی۔
ہم جب لاہور واپس پہنچے، تو وزیراعظم بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حلفِ وفاداری کی تقریب میں جانے کا اعلان کر چکے تھے۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی یہی مشورہ دیا تھا۔ وہ گئے اور پاکستانی اور بھارتی میڈیا کے علاوہ عالمی میڈیا کی نگاہوں کا مرکز بنے۔ حلف برداری راشتڑپتی بھون کے سبزہ زار میں کانسی کے بنے گائے کے دیوقامت مجسمے کے سائے تلے سرانجام پائی۔ اِس تقریب میں ہندو سادھو گیرو رنگ کے مخصوص لباس پہنے ہوئے بڑی تعداد میں موجود تھے۔ بی جے پی کے ٹکٹ پر ایک بھی مسلمان کامیاب نہیں ہوا۔ وزیراعظم مودی نے وزیراعظم پاکستان کے ساتھ دیر تک مصافحہ کیا اور اُن سے پچاس منٹ تک تعارفی ملاقات کی۔ جناب نواز شریف نے ایک زیرک اور جرأت مند لیڈرکے طور پر اعتماد کے ساتھ اعلان کیا کہ ہم تصادم کے بجائے تعاون کی راہ پر چلنا چاہتے ہیں۔ اُن کا پیغام دور دور تک پہنچ گیا ہے اور ہم نے مودی صاحب کے ہاں یہ تبدیلی دیکھی کہ حلف برداری پر اُن کے ماتھے سے تلک غائب ہو چکا تھا۔
ہم کوئٹہ میں اڑتالیس گھنٹے رہے اور ہمیں قدم قدم پر سید فصیح اقبال (مرحوم) یاد آتے رہے جنہوں نے اپنی بصیرت ، غیر معمولی تاریخی شعور اور کمال درجے کی بے غرضی اور محبت سے بلوچستان کو فتح کر رکھا تھا اور پیشہ صحافت میں بلند مقام حاصل کیا تھا۔ محبت ہی فاتحِ دو عالم ہے اور وہی خوشگوار تبدیلیوں کا سرچشمہ بھی۔
تازہ ترین