• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسرائیل کے صہیونی حکمرانوں نے غزہ میں پونے دو سال کے دوران ریاستی دہشت گردی کے ذریعے آگ اور خون کی ہولی جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ دو روز قبل ایران کو جوہری معاملے پر امریکہ سے متوقع طور پر نتیجہ خیز مذاکرات سے عین پیشتر سراسر بلا جواز، غیرقانونی اور انتہائی سنگین نقصانات کا سبب بننے والے فضائی حملے کرکے پورے مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کے جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آجانے کے خدشات کو آخری حد تک ابھار دیا ہے۔ جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات ایران نے جوابی کارروائی کا حق استعمال کرتے ہوئے اسرائیل پر پے در پے میزائل حملے کیے جن میں ایرانی حکام کے مطابق اسرائیل کے جوہری تحقیق مرکز کو بھی ہدف بنایا گیا ہے۔ ایران نے دو سوسے زیادہ میزائل فائر کیے جوتل ابیب اور مقبوضہ بیت المقدس تک بھی پہنچے۔ میزائلوں کے ذریعے سات مقامات کونشانہ بنایا گیا،نو عمارتیں مکمل تباہ ہوگئیں، سیکڑوں اپارٹمنٹس کونقصان پہنچا، چار اسرائیلی ہلاک اورساٹھ سے زائد زخمی ہوئے ۔ ایرانی میڈیا نے دو اسرائیلی طیارے گرانے اور ایک خاتون پائلٹ کو گرفتار کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ ایران نے اس کارروائی کو آپریشن وعدہ صادق سوم کا نام دیا ہے۔دوسری طرف اسرائیلی فوج نے اصفہان میں نیوکلیئر تنصیب کو بھی نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔اسرائیلی فوج کے مطابق ایران کی جانب سے فائر کیے گئے میزائلوں کو روکنے کے لیے دفاعی نظام متحرک ہے۔ تہران کے وسط میں بھی کئی دھما کے ہوئے۔ تہران کے مہرآباد ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ایران کی جوابی کارروائی پر اسے خمیازہ بھگتنے کی دھمکی دی ہے جبکہ وہ جارحیت کے آغاز ہی میں کہہ چکے ہیں کہ ایران کی جنگی صلاحیت کے خاتمے تک اسرائیل جنگ جاری رکھے گاجس میں دوہفتے لگ سکتے ہیں۔امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے حق گوئی کا نہایت لائق تحسین مظاہرہ کرتے ہوئے ایران پر اسرائیلی حملے کو غیرقانونی قرار دیا اور کہا ہے کہ امریکا کو اسرائیل کی ایک اور جنگ میں گھسیٹا نہیں جاسکتا۔برنی سینڈرز کا کہنا تھا کہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر اتوار کو مذاکرات طے تھے تاہم اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایران پر غیرقانونی حملہ کردیا اور جنگ بندی کے سب سے بڑے مذاکرات کار کو مار دیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکا کی سفارتکاری کو نیچا دکھایا گیا اور ہزاروں شہریوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا گیا۔ امریکی سینیٹر کے اس بیان سے واضح ہے کہ ایران پر اسرائیلی حملے کا اصل مقصد ایران امریکہ مذاکرات کو ناکام بنانا تھا اور اس کے نتیجے میں فی الواقع اب مذاکرات کا کوئی امکان باقی نہیں رہ گیا ہے ۔ تاہم یہ امر حیرت انگیز ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کی بدنیتی کے ان کھلے شواہد کے باوجود اپنے عملی رویے سے اس کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں جبکہ اس کا نتیجہ پوری دنیا کے جنگ کی شعلوں کی نذر ہونے کی شکل میں نکل سکتا ہے۔جنگ روکنے کیلئے بلائے گئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں چین نے اسرائیل کو ریڈ لائن عبور کرنے کا ذمے دار قرار دیا، روس نے اسرائیلی حملوں کو بلاجواز ٹھہرایا، پاکستان نے جوابی کارروائی کو ایران کا حق قرار دیا لیکن امریکی مندوب نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک لفظ کہے بغیر تسلیم کیا کہ اسے قبل از وقت ایران کے خلاف اسرائیلی کارروائی کا علم تھا لیکن امریکا اسرائیل کے دفاع کیلئے اس کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ امریکا کا یہ طرزعمل انتہائی تشویشناک ہے اور اس کا نتیجہ دنیا کو تیسری جنگ عظیم کی جانب دھکیلنے کی شکل میں برآمد ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ستاون مسلم ملکوں سمیت پوری عالمی برادری کو جنگ کی آگ کو مزید بھڑکنے سے پہلے بجھانے کی نتیجہ خیز تدابیر کرنا ہوں گی جس میں سب سے اہم ٹرمپ انتظامیہ کو عالمی امن کے حوالے سے درست رویہ اپنانے پر آمادہ کرنا ہے۔

تازہ ترین