• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جہاں تعریفوں کے پل باندھے جا رہے تھے وہاں کچھ نے سوال بھی اٹھائے، یوں کچھ کا تعریف سے قبل کہنا تھا کہ ہم سیاسی طور پر غیر جانبدار ہیں،کچھ کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے ملک اور یہ پسندیدہ و غیر پسندیدہ سیاستدان بعد میں۔ بہرحال سوال اٹھانے والوں میں اکثر کا یہ بھی کہنا تھا کہ بلاول بھٹو نے خارجی وفد کی قیادت کرتے ہوئے جو امریکہ میں یہ کہا ہے کہ ’’کشمیر کا منصفانہ حل چاہئے!‘‘ ان کے نزدیک کشمیر کا منصفانہ حل ہے کیا؟ پھر یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ ’’بلاول بھٹو نے انسدادِ دہشت گردی کیلئے را اور آئی ایس آئی کے مشترکہ مشن کی کیوں بات کی؟‘‘ ایک سوال یہ بھی تھا بلاول بھٹو نے ’’نریندر مودی کو ’ٹیمو‘ کی کاپی کیوں کہا کہ اس سے چائنہ کی مصنوعات کی توہین ہوئی ہے!‘‘ درج بالا سوالات کے جوابات مشکل نہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ بلاول بھٹو نے اس دورہ پر ایک بڑی تعداد کو اپنے مؤقف اور طرز تکلم سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر متاثر کیا ہے۔ اور، بلاول بھٹو کوئی اکیلے ہی نہیں پھر رہے تھے انکے مقابل امریکہ میں ایک بڑی سطح کا بھارتی وفد بھی مختلف پلیٹ فارم پر سرگرم عمل تھا۔ بھارتی وفد کی سربراہی سابق ڈپلومیٹ، اپوزیشن لیڈر ششی تھرور کر رہا ہے۔ اپنا بیانیہ چمکانے کی پاداش میں یہ بھارتی وفد 20سے زائد گلوبل دارالحکومتوں کے دورے کے مشن پر ہے۔ سیول سے دوحہ اور واشنگٹن تک جاری سفارتی محاذ پر جو بھارتی وفد اور وزیر اعظم نریندر مودی کو تلخ و ترش اور تند و تیز سوالوں کا سامنا ہے وہ بہرحال پاکستانی وفد اور وزیر اعظم شہباز شریف کو نہیں۔ رہی بات ’ٹیمو‘ کی تو یہ تمثیلات کی بات ہے بہرحال چینی ٹیکنالوجی صداقت عامہ بن چکی۔ کشمیر کے حوالے سے ظاہر ہے کہ کشمیری اکثریتی خواہش ہی انصاف ہو گا۔ را اور آئی ایس آئی کی مشترکہ کاوش کی بات کر کے بھارتی سازشی منہ پر طمانچہ رسید کیا۔ واضح رہے کہ ششی سے جب پوچھا گیا پہلگام کے پاکستان کے خلاف کوئی ثبوت ہیں؟ تو وہ بولا ’’ثبوتوں کی اہمیت نہیں ہم نے پاکستان کو ممبئی حملوں کے ثبوت دئیے تھے۔‘‘ حالانکہ وہ حملہ بھی فالس فلیگ آپریشن ہی تھا۔ یکم جون 2025 کے واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق Yale یونیورسٹی کے ساؤتھ ایشین اسٹڈیز کے استاد سوشنت سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’ابتدائی و اصولی تناظر میں یہ ماننا پڑئیگا کہ مودی ڈپلومیسی اور فارن پالیسی فیل ہوئی ہے!‘‘ پاکستان میں حکومت اور بلاول وفد پر اٹھنے والے سوال تو سطحی ہیں اور جواب رکھتے ہیں لیکن بھارت اور بھارت سے باہر بھارتی حکومت اور حالیہ مشن کو شدید مشکلات و سوالات کا سامنا ہے۔ یہ چھوٹی بات نہیں کہ بھارتی وزیر اعظم جسے خاص مہمان کی صورت میں کینیڈا G7 کانفرنس میں مدعو کرتا تھا اسے پہلےدعوت ہی نہیں دی گئی تھی کہ اس کی دہشت گردی کینیڈا تک مار کرتی ہے۔ واضح رہے یہ G7انڈسٹریل بنیاد پر قائم ہے جس میں جاپان، فرانس، اٹلی، جرمنی، برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا شامل ہیں، G7کانفرنس کے موقع پر اقوام متحدہ، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور یورپی یونین کو بھی بلایا جاتا ہے۔ باوجود اس کے کہ تجربہ کار ششی تھرور پاکستان کو دہشت گردی سے لنک کرنے کے درپے ہے، دوسری طرف اقوام متحدہ نے اپنے انسداد دہشت گردی کے فورم میں پاکستان کو بطور وائس چیئرمین اور افغان دہشت گردی سے متعلقہ فورم کا سربراہ مقرر کر دیا ہے۔ یہی نہیں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک جیسے ادارے پاکستان کو بخوشی قرض دیتے ہوئے اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ بھارتی مودی سے پوچھ رہے ہیں آپ کا اس ضمن میں ایشین بینک کے سربراہ سے حالیہ ملنا کیوں ضائع گیا؟ ایسے میں بھارتی چھاتی پر مونگ دلے جانے کا عمل تکلیف دہ نہ ہو تو کیا ہو ؟ حیرت ہے کہ عالمی تنقید اور اندرونی ہرزہ سرائی کے باوجود 33 ممالک میں وفود جائیں اور بوگوٹا اور یوبلیانا (Ljubljana) جیسے غیر اہم ممالک میں بھی جنہیں پاک بھارت جنگ سے سروکار ہی نہیں مگر مودی حکومت اپنا اینٹی سیکولرزم، جمہوریت مخالف اور ’’اقلیت کش‘‘ ایجنڈا ترک کرنے کیلئے تیار نہیں۔ حالانکہ اندرونی خلفشاری سے سب پڑوسی ہی دور ہو چکے۔ ٹرمپ جیسا دوست بھی ٹھینگا دکھا گیا۔ بھارتی سنجیدگی سیخ پا ہے کہ یہ سب مودی پالیسیوں کا قصور ہے کہ ٹرمپ بھارتی محبت چھوڑ کر پاکستان کی طرف متوجہ ہے اوپر سے بلاول کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ امن پسند ہیں۔ بلاول بازگشت گونجی کہ پاکستان امن پسند ملک ہے جو انسدادِ دہشت گردی کی خاطر مسلسل قربانیاں دے رہا ہے جبکہ بھارت آبی و جنگی جارحیت میں پیش پیش! جنگی جنون میں بھارت داخلی کمزوریوں کے سبب خارجی اہمیت اور طاقت بھی کھو رہا ہے۔ بلاول مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتے ہیں تو ساتھ یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ ’’بھارت ٹرمپ کی کشمیر ثالثی سے بھی گریزاں ہے!‘‘ نہ جانے ٹرمپ کشمیر ثالثی میں کتنے سنجیدہ ہیں لیکن بلاول کا ڈپلومیٹک تیر اس وقت نشانے پر لگتا ہے جب زمانہ مودی ٹرمپ کو دوست گردانتا ہے۔ 2018سے پاک ڈپلومیسی متاثر کن نہ تھی ، حتیٰ کہ 2018سے قبل بھی لیکن 2022کے چیلنجنگ دور کے بعد سے وزیر خارجہ بلاول بھٹو، اور اب سابق وزیر خارجہ بلاول نے بطور ڈپلومیٹ متعدد کامیابیاں سمیٹیں۔ اس وقت پاک عوام، حکومت اور اپوزیشن سکونِ قلب میں ہیں اور پاک فوج پر اعتماد کی انتہا بھی ہے۔ لیکن ایک بےچینی اپنی جگہ ہے کہ بھارت مودی حکومت میں ایک مہلک دشمن اور غیر معیاری و بے اصولی حقیقت ہے۔ اور یہ پھر جارحیت کو ہوا دے سکتا ہے جس کا آئندہ بھی منہ توڑ جواب دینا ضروری ہو گا، آئندہ صورت حال میں موجودہ پاک وفد کی خارجی مہارت شیلڈ ہو گی۔ اس مودی مکاری و عیاری پر ازخود بھارتی سنجیدہ طبقہ، اپوزیشن اور مبصرین بھی بے چین ہیں۔ اہل عالم کوبھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے طعنے یاد ہوں گے:’’ ایک ایسا ملک جس نے القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی میزبانی کی اسے یہ حق نہیں کہ وہ اقوام متحدہ میں نصیحت آموز تقریر کرے۔‘‘... پھر نیویارک میں بلاول بھٹو نے دبنگ پریس کانفرنس میں کہا تھا ’’اسامہ بن لادن مر چکا ہے لیکن گجرات کا قصائی زندہ ہے اور وہ انڈیا کا وزیراعظم ہے۔‘‘ (حوالہ:راقم کالم ’’گجرات کا قصائی اور اسامہ‘‘18 دسمبر 2022) سچ تو یہ ہے کہ مئی جنگ کے بعد، پاکستان بیانیہ جنگ بھی جیت چکا۔ اس سے پہلے کہ بھارت پھر غصہ کھائے پاکستان کو سفارت کاری، ٹیکنالوجی، اکنامکس، ایجوکیشن اور دفاع کا معیار مزید بہتر کرنا ہوگا!

تازہ ترین