• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آسیہ پری وش، حیدرآباد

ہوم وَرک کرتی شمائلہ نے کچھ دیر کے لیے ہاتھ روک کر موبائل پر دوستوں سے چیٹنگ کرتے باپ کی آنکھیں اور مسکراتے لب بہت پیار اور شوق سے دیکھے، جب کہ وہاں سے گزرتی ماہم، شوہر کو معمول کے مطابق موبائل میں مصروف دیکھ کر ناگواری سے کچھ بڑبڑاتی ہوئی گزری ، تو نظر شمائلہ پر پڑی۔ ’’شمائلہ! تم نے ہاتھ کیوں روک دیا۔ جلدی جلدی ہوم ورک ختم کرو۔‘‘ ماہم کی ٹوکتی آواز نے عباد اور شمائلہ دونوں کی محویت میں خلل ڈال دیا۔ شمائلہ نے گھبرا کر سامنے کُھلی کتابوں پر توجّہ مرکوز کرلی،جب کہ عباد نے قدرے حیرانی سے بیوی اور بیٹی کو ایک نظر دیکھا اور پھر اُسی انہماک سے موبائل میں مصروف ہوگیا۔ 

مگر ماں کے جانے کے بعد شمائلہ گاہے گاہے کن انکھیوں سے باپ کو دیکھتی رہی۔رات آٹھ بجے جب حمزہ بیٹ، بال ہاتھ میں لیے گھر میں داخل ہوا، تو بدستور موبائل میں مصروف عباد اور گڑیا سے کھیلتی شمائلہ نے اسے دیکھا۔’’یہ کوئی وقت ہے گھر آنے کا؟‘‘عباد نے گرج دار آواز میں پوچھا۔ ’’پاپا! آج فائنل تھا۔‘‘حمزہ نے بےنیازی سے جواب دیا۔ باپ کے غصّے سے اسے ڈر ضرور لگتا تھا، لیکن کچھ خاص پروا نہیں تھی۔ ’’فائنل تھا تو کیا ،پڑھائی لکھائی سب چھوڑ دوگے؟‘‘عباد نے بدستورغصّے سے پوچھا۔ ’’نہیں پاپا،ایسی بات نہیں ہے۔ آج میرے گھر دیر سے آنے کا آپ سب کو پتا تھا اور جہاں تک بات ہے ہوم ورک کی، تو وہ مَیں ابھی کرلوں گا۔

آپ بے فکر رہیں، ماما پڑھائی پہ کوئی سمجھوتا نہیں کرنے دیتیں۔‘‘ عباد کی آواز تیز ہوئی، تو ماہم بھی کچن سے باہر آگئی، جب کہ شمائلہ سہم کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔’’ہاں، ہاں تم دونوں کے ہرکام کے پیچھے تمہاری ماما ہی تو ہوتی ہیں، نہ بڑوں کا ادب سکھایاہے، نہ کوئی سلیقہ۔ سارا دن بیٹ بال پکڑ کر گھر سے باہر آوارہ دوستوں کے ساتھ رہتے ہو یا گھر پہ شور شرابا کرتے ہو، مَیں نے تو تمہیں کبھی پڑھائی لکھائی کرتے نہیں دیکھا۔‘‘ عباد نے کہا، تو حمزہ کے کچھ کہنے سے پہلے ہی ماہم بول پڑی، ’’عباد! آپ کے دونوں بچّوں کی اسکول میں ہمیشہ ہی تعریف ہوتی ہے، تمام ٹیچرز ان کی مثال دیتی ہیں، لیکن آپ کو یہ سب تب پتا چلے گا، جب آپ اپنی دنیا سے نکل کر ان کی دنیا میں جھانکیں گے۔‘‘عباد نے ماہم کو کرارا جواب دینے کے لیے ابھی منہ کھولا ہی تھا کہ ایک دوست کی کال آگئی اور وہ سب چھوڑ چھاڑ کے اس میں مگن ہوگیا۔

’’پاپا کو ہم پر غصّہ کرنے، ٹوکنے اور تنقید کرنے کے علاوہ بھی کوئی اورکام ہے؟‘‘ حمزہ نے دل کی بھڑاس نکالی۔ جس پر ماہم نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا’’حمزہ! کتنی مرتبہ کہا ہے کہ غلط بات نہیں کیا کرو۔‘‘’’ماما! مَیں تو چلیں غلط ہوں، اس لیے ڈانٹ پڑتی ہے اور وہ، اُس بےچاری کا کیا قصور ہے…؟؟‘‘ اُس نے سہمی سی شمائلہ کی طرف اشارہ کیا، تو ماہم نے اسے اپنے پاس بلالیا اور حمزہ کے سامنے کرتے ہوئے بولی۔’’پرنسز! ذرا بھائی سے آج کے میچ کا احوال تو لو، پوچھو کہ جیتے یا ہارے…‘‘ماہم نے شمائلہ کا دھیان بٹانے کی کوشش کی،تو حمزہ بھی مُسکراتے ہوئے آگے بڑھا۔’’وکٹری…!! ماما اینڈ سوئیٹ سِسٹر، ایسا ہوسکتا ہے کہ حمزہ عباد کی کپتانی میں ٹیم ہار جائے۔‘‘وہ پُرجوش انداز میں بولا۔

ڈِنر کے بعد شمائلہ کو سُلا کر ماہم نے معمول کے مطابق عباد کے لیے چائے بنائی اور کمرے میں لے آئی، جہاں عباد اپنے کسی انٹرنیٹ فرینڈ کے ساتھ ویڈیو کال پر مصروف تھا۔ اس نے ماہم سے چائے کا کپ لیا اور مزے سے سِپ لیتا باتوں میں مصروف ہوگیا۔جب کہ ماہم کو اس سے ضروری بات کرنی تھی، تب ہی اِدھر اُدھر کے بےمقصد کاموں میں مصروف ہوکر اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگی۔ لیکن موبائل پر اس کی خوش مزاجی کے مظاہرے ختم ہی نہیں ہورہے تھے۔ آخر تنگ آکر اسے بیچ میں بولنا ہی پڑا۔’’عباد! آپ سے ایک بات کرنی ہے۔‘‘جواباً عباد نے’’تھوڑی دیر بعد…‘‘کا اشارہ کیا اور دوبارہ گفتگو میں مصروف ہوگیا۔ بہت دیر گزرنے کے بعد بھی جب وہ ’’تھوڑی دیر‘‘ نہ آئی، تو اُسے پھر سے عباد کو ٹوکنا پڑا۔ 

مجبوراً اس نے دوست کو الوداع کہہ کر بیوی کو کڑے تیوروں سے دیکھا۔ جس کی بےوقت مداخلت اسے سخت بری لگی تھی۔ ’’بولو، کیا مصیبت آن پڑی ہے، جو تم سے انتظار نہیں ہو رہا تھا؟‘‘ماہم کو اس کا لہجہ بہت ناگوار گزرا، لیکن برداشت کرگئی۔ ’’پرسوں شمائلہ کے اسکول میں پیرنٹس ٹیچر میٹنگ ہے اور میڈم نے ہم دونوں کو بلایا ہے۔‘‘شمائلہ نے کہا۔’’کیا پرسوں میرے آفس کی چھٹی ہے؟‘‘ عباد کے تلخی سے کیے گئے غیرمتوقع سوال نے اسے گڑبڑا دیا۔’’نہیں تو…‘‘ بوکھلاہٹ میں اسے یہی جواب سوجھا۔ ’’پھر مَیں پرسوں کیسے جاسکتا ہوں؟‘‘عباد کے بےمحل سوال کی اُسے اب سمجھ آئی تھی۔ ’’پرسوں آپ کی چُھٹی نہیں ہے تو کیا ہوا، آپ چُھٹی یا ہاف ڈے لے لیجیےگا۔‘‘

شمائلہ نے کہا۔ ’’ایک فضول پیرنٹس ٹیچرمیٹنگ کے لیے مَیں چُھٹی کرلوں، تمہارا دماغ تو ٹھیک ہےناں…‘‘عباد کی بے پروائی نے انداز نے اُس کے اندر کی شکایت کو راستہ دکھایا اور اس کا لہجہ بھی تیز ہوگیا۔’’اس میں دماغ خراب ہونے والی کیا بات ہے، پچھلے ہفتے آپ نے اپنے کسی دوست سے ملنے کے لیے چھٹی لی تھی،تو اب بیٹی کے لیے لینے میں کیا قیامت ٹوٹ پڑے گی۔‘‘’’گُھما پھرا کر کیوں بات کررہی ہو،صاف کہو کہ تمہیں میرا اپنے دوستوں سے ملنا اور باتیں کرنا برا لگتا ہے۔‘‘عباد ایسے بلبلایا ،جیسے ماہم نے اس کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔’’دن بھر تمہارے اور تمہارے بچّوں کے آرام و آسائش کے لیے گدھے کی طرح آفس میں سر کھپاتا ہوں۔

شام کو اگر دو، تین گھنٹے اپنے اوپر صرف کرلیتا ہوں، تو وہ بھی تمہیں برداشت نہیں۔‘‘’’گھر والوں کو صرف آرام اور آسائش ہی کی نہیں، گھر کے سربراہ کے وقت کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ماہم کے لہجے میں بھی تلخی اور شکایت تھی۔’’تو تم یہ کہنا چاہ رہی ہو کہ مَیں تم لوگوں کو ٹائم نہیں دیتا، تم لوگوں سے بات نہیں کرتا…‘‘ عباد نے چلّاتے ہوئے کہا، تو ماہم نے اُس خود کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔’’نہیں عباد، میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ سمجھنے کی کوشش کریں، بچّے آپ کی توجّہ چاہتے ہیں۔ حمزہ لڑکا ہے، لااُبالی بھی ہے، تو وہ تو اپنے آپ میں مگن رہتا ہے، لیکن شمائلہ بہت حسّاس ہے، وہ آپ کی بےتوجہی شدّت سے محسوس کرتی ہے اور آپ کی توجّہ حاصل کرنے کے لیے آپ کے اردگرد گھومتی رہتی ہے۔‘‘شمائلہ نے تحمّل سے سمجھانے کی کوشش کی۔ ’’اپنی بات بچّوں پر مت ڈالو۔‘‘ وہ کہہ کر موبائل ہاتھ میں پکڑے کمرے سے باہر نکل گیا۔

’’السلّام علیکم ماما!‘‘ اسکول سے آکر دونوں بچّےکچن میں کام کرتی ماں کے پاس چلے آئے۔’’وعلیکم السلّام، کیسا گزرا دن؟‘‘ بچّوں کو دیکھ کر ماہم کے ہونٹوں پر مُسکراہٹ آگئی۔’’ماما! آج کیا پکا رہی ہیں؟‘‘حمزہ نے اُچک کر دیگچی میں جھانکا۔ ’’آلو گوشت…‘‘شمائلہ نے اس کا سر سہلاتے ہوئے جواب دیا۔ ’’واؤ…!!‘‘حمزہ نے خوشی کا اظہار کیا۔ ’’اب جلدی سے کپڑے چینج کرلو، اتنے میں کھانا بھی تیار ہو جائے گا۔‘‘ ’’اوکے…‘‘ وہ بھاگتا ہوا اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔’’شمائلہ! بیٹا، تم بھی جلدی سے چینج کرلو۔‘‘

شمائلہ کو وہیں کھڑا دیکھ کر ماہم نے اسے ٹوکا۔’’ماما! کل پیرنٹس ٹیچرمیٹنگ ہے اور ٹیچر نے آپ دونوں کو ساتھ بلایا ہے۔‘‘شمائلہ نے ماں کو یاد دلایا۔’’جی پرنسز، ماما کو یاد ہے، مَیں وقت پر پہنچ جاؤں گی۔‘‘ شمائلہ نے چولھا بند کرتے ہوئے کہا۔’’اور پاپا…؟‘‘ اس نے ایک آس سے ماں کو دیکھا، تو وہ نظریں چراگئی۔’’نہیں بیٹا، کل اُن کی بہت اہم میٹنگ ہے۔‘‘’’وہ تو ہر دفعہ ہوتی ہے۔‘‘ شمائلہ نے روہانسی لہجے میں کہا۔’’میری جان! آپ تو اللہ کا شکر ادا کرو کہ آپ کی ماما آئیں گی، ورنہ بہت سے بچّوں کے ماما پاپا دونوں ہی نہیں آپاتے۔‘‘ ماہم اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔ اور شمائلہ نم آنکھوں سے ماں کو دیکھتی ہوئی کمرے کی طرف بڑھ گئی،جب کہ ماہم بےبس کھڑی رہ گئی۔

’’مِسٹر عباد نہیں آئے؟‘‘میٹنگ میں ماہم کو اکیلے دیکھ کر ٹیچر نے پوچھا۔ ’’دراصل، اُن کی آفس میں بہت اہم میٹنگ تھی، اس لیے نہیں آسکے۔‘‘ ہر دفعہ کی طرح ماہم کا رٹا رٹایا جملہ سن کر میڈم کے ہونٹوں پہ بھی طنزیہ مسکراہٹ آگئی۔’’چلیں خیر، مسز عباد ہم آپ کے دونوں بچّوں کی نصابی اور غیر نصابی کارکردگی سے بالکل مطمئن ہیں۔‘‘ ٹیچر نے کہا۔’’ویسے آپ کے بچّوں کی تعریف تو ہر مرتبہ ہی ہوتی ہے، لیکن آج مجھے آپ سے کچھ اور بات بھی کرنی ہے۔‘‘ ٹیچر کچھ سنجیدگی سے بولیں۔ ’’جی کہیے۔‘‘ٹیچر کی سنجیدگی پر ماہم کچھ پریشان سی ہوگئی۔’’مسز عباد! آپ کے گھر کوئی مسئلہ چل رہا ہے؟‘‘ 

ٹیچر نے پوچھا۔’’نہیں تو…‘‘ ماہم گڑ بڑاگئی۔’’دراصل شمائلہ بہت ڈسٹرب رہنے لگی ہے اور یہ صرف مَیں نے نہیں، ہر ٹیچر نے نوٹ کیا ہے۔ ہم نے کئی مرتبہ اس سے پوچھنے کی کوشش کی، لیکن وہ کچھ نہیں بتاتی، بس خاموش رہتی ہے۔ہم نے سوچا یہ بات آپ لوگوں کے نوٹس میں لائی جائے کہ یقیناً آپ کو اس کی الجھن کا پتا ہوگا اوراس طرح کوئی حل نکل سکے گا۔‘‘ٹیچر کی بات سُن کروہ کچھ فکرمند سی ہوگئی کہ وہ تو شمائلہ کے گُم صم رہنے کوصرف اس کی حسّاسیت سے تعبیر کررہی تھی۔

اسکول سے واپس آنے کے بعد ماہم بہت بےچین رہی۔ وہ مسلسل شمائلہ سے بات کرنے کا موقع ڈھونڈ رہی تھی، جو اسے شام کو حمزہ کےکھیلنےجانے کے بعد اور عباد کے آفس سے آنے سے آدھا گھنٹا پہلے ملا۔وہ اپنی اور شمائلہ کی الجھن کا سِرا ڈھونڈنے کی خاطراُس کے کمرے کے دروازہ بنا آواز کھولے اندر داخل ہوگئی۔اور پھر اندر کا منظر دیکھ کر تو اُس کا دل ہی ہول گیا۔ ’شمائلہ یہ کیا ہے؟‘‘ شمائلہ جو خود کو سب کی نظروں سے چُھپا کر اپنے سامنے بکھرے دس، بیس، پچاس اور سو کے بہت سے نوٹوں کی گنتی میں مصروف تھی ، ماں کو اچانک کمرے میں دیکھ کر بوکھلاکے کھڑی ہوئی، تو گود میں پڑے ڈھیروں سکّے چَھن چَھن کرتے نیچے گرتے چلے گئے۔’’یہ اتنے سارے پیسے تمہارے پاس کہاں سے آئے؟‘‘ ماہم کا دل اُسے جھنجھوڑ کر پوچھنے کو چاہ رہا تھا۔ ’’ماما…وہ…وہ…‘‘شمائلہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی، مگر جواب نہیں سوجھ رہا تھا۔’’کیا وہ، وہ لگا رکھی ہے، سچ بتاؤ تمہارے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے، مَیں تو تمہیں اتنے پیسے نہیں دیتی۔‘‘بالآخر ماہم آگے بڑھی اور شمائلہ کو بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے بولی۔

ماں کے اس قدر سخت ردّعمل پر شمائلہ نے گھبرا کر رونا شروع کردیا۔ جس پر ماہم مزید شک میں مبتلا ہوگئی۔’’کسی کے چوری کیے ہیں؟‘‘ماہم نے پوچھا۔’’نہیں، نہیں…ماما! یہ پیسے چوری کے نہیں، میرے ہیں۔آپ اور پاپا مجھےجو روزانہ جیب خرچ دیتے ہیں، اس سے جمع کیے ہیں۔ مجھے ایک چیز خریدنی ہے،اس لیے۔‘‘اس نے جھجکتے ہوئے آدھا سچ بتایا،تو ماہم کچھ مطمئن ہوئی۔ ’’بیٹا! آپ کو جیب خرچ جمع کرنے کے لیے نہیں، چیز لینے کے لیے دیا جاتا ہے۔ آپ کو جو بھی چاہیے تھا، مجھے یا اپنے پاپا کو بتادیتیں۔‘‘ماہم نے شمائلہ کو بیڈ پر بٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’میں نے وہ چیز آپ سب سے چھپا کر لینی تھی۔‘‘ شمائلہ نے سر جھکاتے ہوئے شرمندگی سے اعتراف کیا۔’’ہم سب سے چُھپا کر، ایسا کیا لینا ہے؟‘‘

بیٹی کی بات نے اسے حیران کردیا، کیوں کہ وہ بہت فرماں بردار اور ماں سے ہر بات شیئر کرنے والی بچی تھی، پھر اس کے بھی علم میں لائے بغیر چھپ کر کوئی چیز لینا اس کی سمجھ سے باہر تھا۔ ماں کا سوال سُن کر شمائلہ بےبسی اور شرمندگی سے ہونٹ کاٹنے لگی، تو ماہم نےدوبارہ اس سے بہت پیار سےپوچھا’’میری پیاری بیٹی کو ایسا کیا چاہیے؟‘‘ ماں کے اتنے نرم اور مہربان انداز پہ اسے کچھ حوصلہ ملا۔ ’’موبائل…‘‘شمائلہ نے کہا۔ ’’موبائل…؟‘‘ ماہم نے زیرِ لب دُہرایا۔اور پھر موبائل کےنقصانات، بچّوں پر انتہائی منفی اثرات اُس کے ذہن میں گھوم گئے۔ میری دس سالہ بیٹی کا ذہن تو بہت معصوم تھا اور پھر مَیں نے دونوں بچّوں کو موبائل کی دنیا سے کوسوں دُور رکھا ہواہے،تو پھر شمائلہ کے دل میں موبائل لینے کا خیال کیسے آیا۔ماہم کے ماتھے پہ پسینہ چمک رہا تھا۔’’بھلا میری پرنسز کو موبائل کیوں چاہیے، آپ کی عمر ابھی موبائل لینے کی نہیں، پڑھنے لکھنے ، کھیلنے کُودنے کی ہے۔‘‘

ماہم نے ایک بات پھرپیار سے پوچھا۔’’مَیں موبائل، پاپا سے بات کرنے کے لیے لینا چاہتی ہوں۔پاپا موبائل پر اپنے سب ہی دوستوں سے کتنا خوش ہوکر باتیں کرتے ہیں ناں، مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔ میرا بہت دل چاہتا ہے کہ وہ مجھ سے بھی ایسے ہی باتیں اور ہنسی مذاق کریں، مگر پتا نہیں کیوں نہیں کرتے۔مَیں ان پیسوں سے موبائل خریدوں گی، تاکہ پاپا سے دوستی کرسکوں، پھر مجھے بھی ان کی محبت، پیار اور توجّہ ملے۔‘‘ 

شمائلہ نے سادہ ، مگر پُراثر انداز میں اپنا مدّعا بیان کرتے ہوئے ماں کو دیکھا، تو بیٹی کی چمکتی آنکھوں میں باپ کی محبت اور توجّہ حاصل کرنے کی خواہش نے اس کی آنکھیں نم کردیں۔ ماہم نے اپنی لاڈو بٹیا کو خود میں سمیٹنا چاہا تو اُس سے پہلے عباد آگے بڑھ کے اُسے اپنے بازؤں میں بَھر چُکا تھا۔ وہ نہ جانے کب سے دروازے میں کھڑا دونوں ماں، بیٹی کی گفتگو سُن رہا تھا۔ اکلوتی بیٹی کی باتوں نے اُس کا سر شرمندگی سے جُھکا دیا تھا ۔ اُس نے خاموشی سے اپنا موبائل جیب سے نکالا اور سوئچ آف کردیا، اس عہد کے ساتھ کہ آج سے گھر آتے ہی یہ سوئچ آف ہی رہے گا۔