• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’امّی! بہت مشکل لگ رہا ہے ہاسٹل میں رہنا… دیکھیں ،کتنے چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں ، وہ بھی چار،چار لڑکیاں شیئر کر رہی ہیں…‘‘ امینہ اپنی بیٹی، سارہ کو ہاسٹل چھوڑ کر واپسی کے لیے تیارکھڑی تھیں کہ وہ روہانسی ہو کر بولی۔’’دیکھو بیٹا! کچھ پانے کے لیے، کچھ کھونا تو پڑتا ہی ہے۔ آگے پڑھنا ہے، اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنی ہے، تویہ قربانی اور تھوڑی بہت ایڈجسٹمنٹ تو کرنی پڑے گی۔ تمہارے ابّونے بہت کوشش کی کہ ان کا تبادلہ لاہور ہو جائے تاکہ تمہیں ہاسٹل میں نہ رہنا پڑے، مگر نہیں ہو سکااور ہاسٹل میں رہنے کا بھی اپنا ایک الگ ہی مزہ ہے، آہستہ آہستہ سب سے تمہاری دوستی ہو جائے گی ۔‘‘

امینہ نے بڑے پیار سے بیٹی کو سمجھایا۔’’ہو نہہ…!! ’’بھانت بھانت کی لڑکیوں کے ساتھ مَیں کیسے گزارہ کروں گی…؟؟ جانے کون کس مزاج کی ہو؟‘‘ سارہ منہ بسورتے ہوئے بولی۔’’بیٹا!یہی زندگی ہے۔ ہمیں بہت سے کام اپنے کمفرٹ زون سے نکل کر کرنے پڑتے ہیں، چلو اب مُسکرا دو تاکہ مَیں سکون سے گھرجا سکوں۔‘‘امینہ نے بیٹی کو گلے لگاتے ہوئے کہا، تو سارہ بھی ماں کی خوشی کی خاطر مُسکرا دی۔ سب کی لاڈلی سارہ، بے حد اُداس تھی، اسے اپنا گھر، کمرا، بھائیوں کی شرارتیں اور امّی ابّو بہت یاد آرہے تھے۔ امینہ گاڑی میں آ بیٹھیں اور ڈرائیور سے چلنے کو کہا۔ آنسو تو ان کے بھی اُمڈ آئےتھے کہ بیٹی پہلی مرتبہ گھر سے دُور ہو رہی تھی، مگر انہو ںنے ضبط کیا۔

گاڑی آہستہ آہستہ یونی وَرسٹی کے احاطے سے باہر نکل رہی تھی۔ وہ سِیٹ سے ٹیک لگائے ماضی کے دھندلکوں میں کھو گئیں ، وقت بھی کتنی جلدی گزر جاتا ہے۔ ابھی کل ہی کی بات تھی، جب امینہ کا داخلہ یونی وَرسٹی میں ہوا تھا۔ وہ تو خوشی سے پھولے نہیں سمارہی تھیں کہ ہاسٹل میں رہ کر پڑھنا ان کا دیرینہ خواب تھا، جو بالآخرپورا ہونے جا رہا تھا۔ اُن کے چھوٹے سے شہر میں یونی وَرسٹی ہی نہیں تھی، اسی لیے وہ شہر آکر پڑھنے کےلیے بےتاب تھیں۔ ان دِنوں یونی وَرسٹی ہاسٹل بھی نیا نیا تعمیر ہوا تھا، بلکہ اوپر کی منزل میںتو اب بھی کام ہو رہا تھا۔

ہاسٹل میں اپنا کمرا دیکھ کر تو ان کا دل ہی خوش ہو گیا ۔ چھوٹا سا صاف ستھرا کمرا، جس کی وہ بلا شرکتِ غیرے مکین تھیں۔ الماری، اسٹڈی ٹیبل ، سنگل بیڈ اور سب سے بڑھ کر کھڑکی، جو لان میں کُھلتی تھی۔ گھر میں تو ایک ہی کمرے میں وہ چاروں بہنیں مقیم تھیں، ہر وقت کسی نہ کسی بات پر جھگڑا ہوتا رہتا ۔ کتنی شانتی ہے ناں یہاں…؟ کھڑکی کے سامنے کھڑے ہو کر امینہ نے گہرے گہرے سانس لیے اور پھر سامان کی سیٹنگ میں مصروف ہو گئیں۔ کلاسز شروع ہوئیں تو پھر کوئی ہوش نہ رہا کہ ریاضی جیسے مشکل مضمون میں ماسٹرز کرنےکی جو ٹھان بیٹھی تھیں۔ آہستہ آہستہ رُوٹین بھی بن گئی۔ 

کیمپس سے آکر لنچ کرتیں، پھر ایک ، ڈیڑھ گھنٹے آرام ،اس کے بعد رات کا کھانا ،تھوڑی چہل قدمی اور پھر پڑھائی۔ زندگی انتہائی سکون سے گزر رہی تھی کہ ایک دن جیسے بھونچال سا آگیا ۔ کمرے کے دروازے پہ دستک ہوئی، کھولا تو سامنے وارڈن اور ان کے ساتھ ایک لڑکی تھی،جس کے ہاتھ میں بڑا سا بیگ تھا۔’’امینہ! ان سے ملو ،یہ شعبۂ اردو کی طالبہ ہیں۔ یہ اوپر والی منزل کی تعمیر مکمل ہونے تک آپ کے ساتھ ہی رہیں گی۔‘‘ وارڈن یہ کہہ کرچلی گئیں۔ ’’خوشیوں اور سُکون کی عُمر اتنی کم کیوں ہوتی ہے …‘‘ 

امینہ بڑبڑائیں ،زہر خند نظروں سے سامنےکھڑی لڑکی کو دیکھا اور دروازے سے ہٹ گئیں۔ انہیں اس قدر شدید غصّہ آرہا تھا کہ دُعا ،سلام کرنے کو بھی جی نہ چاہا۔ لڑکی بڑے اعتماد سے اندر داخل ہوئی اور سامان ایک طرف رکھنے کے بعد بستر پر لیٹ گئی۔’’برا نہ مانیے گا،سفر سے آئی ہوں ،تو تھوڑی تھکن ہو رہی ہے۔‘‘ امینہ کو اس کی آواز سنائی دی اور وہ پائوں پٹختی باہر آگئیں۔ ’’واہ…!! یعنی مان نہ مان ،مَیں تیرا مہمان۔ یااللہ! کتنی مشکل سے مجھے پڑھائی کے لیے پُر سکون ماحول میسّر آیا تھا، اب مَیں اس موٹو کے ساتھ کیسے گزارہ کروں گی‘‘۔ امینہ نے جل کر سوچا۔ شام کو کمرے میں ایک لوہے کی چارپائی بچھا دی گئی۔ اب یہ حال تھا کہ کمرے میں بمشکل گزرنے کا راستہ بچا تھا۔ امینہ نے غصّے کے مارے نووارد لڑکی سے علیک سلیک تک نہ کی اوردن یونہی گزررہے تھے۔

ایک شام بوندا باندی اور ٹھنڈی ہوائوں نے موسم اچانک خوش گوار کر دیا ، تو امینہ کی رُوم میٹ نے ٹیپ ریکارڈر نکالا اور اونچی آواز میںمکیش کے گانےلگا دیئے۔ اس وقت امینہ پڑھ رہی تھیں۔ انہیں غصّہ تو بہت آیا، مگر ضبط کیے بیٹھی رہیں۔’’امینہ جی! غصّہ تھوک دیں اور موسم انجوائے کریں۔ پڑھائی کے ساتھ تفریح بھی ضروری ہوتی ہے… ‘‘ رُوم میٹ نے شوخی سے کہا۔اس کی بات سُن کرامینہ غصّے سے پلٹیں، قدرےاونچی آواز میں بولیں’’جی ہاں محترمہ! آپ یہ بات کہہ سکتی ہیں کہ اُردو ادب میں جو ماسٹرز کر رہی ہیں ۔

ہے ہی کیا اس مضمون میں، چند عشقیہ غزلیں اور بے سرو پافضول قصّے، کہانیاں…جن لوگوں کو اور کہیں داخلہ نہیں ملتا، وہ اردو اب میں داخلہ لے لیتے ہیں، ہونہہ!‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کے لیے بھی کمرے میں نہ رُکیں اور باہر نکل گئیں۔ اتنے میں یک لخت ہی گانوں کی آواز بھی بند ہو گئی۔ اسی اثنا امینہ کو کوریڈور میں اپنی کلاس فیلو، زینب مل گئی’’یار ! تیری رُوم میٹ تو بڑی باذوق ہے۔ موسم کی مناسبت سےکس قدر خُوب صُورت گانے لگا رکھے تھے، مزہ ہی آگیا ،یہ اچانک گانوں کی آواز بند کیوں ہو گئی؟‘‘’’پتا نہیں،مَیں ذرا چائے لے کر آتی ہوں۔‘‘ امینہ بےزاری سے بولیں۔ وہ چائے لے کر واپس آئیں تو ان کی رُوم میٹ نم آنکھیں لیے چُپ چاپ سی اُداس بیٹھی تھی۔ 

امینہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوچُکا تھا کہ وہ کچھ زیادہ ہی بول گئیں۔ ’’سوری! دراصل صبح میرا ٹیسٹ ہے، تو اس وجہ سے ذرا ٹینشن ہے۔ مجھے ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ ویسے آپ کا نام کیا ہے…؟‘‘ امینہ نے دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے بات کی، تو وہ لڑکی بھی مُسکرادی۔ ’’میرا نام انیلا ہے۔آپ مجھے نیلی کہہ سکتی ہیں۔‘‘ ’’بہت پیارا نام ہے، وہ گانے لگائیں ناں بہت خُوب صُورت کلیکشن ہے آپ کے پاس۔ بالکل موسم سے ہم آہنگ۔ اور ہاں، مَیں دو کپ چائے لائی ہوں، گانے سُنتے ہوئے چائے انجوائے کریں گے۔‘‘ اُس دن کے بعد سے دونوں کی دوستی ایسی پروان چڑھی کہ جب اوپر والی منزل کی تعمیر مکمل ہو گئی اور انیلا کا اپنے کمرے میں جانے کا وقت آیا،تو دونوں گلے مل کر خُوب روئیں۔ 

’’ارے یار ! اوپر ہی تو ہے میرا کمرا۔ مَیں کون سا بدیس جا رہی ہوں‘‘انیلا نے روتی ہوئی امینہ کو تسلّی دی۔ دن گزرنے کے ساتھ دونوں کی دوستی بھی گہری ہوتی چلی گئی اور پھر آہستہ آہستہ ان کا پورا گروپ بن گیا۔ اب حال یہ تھا کہ ہر وِیک اینڈ ساتھ مل کر انجوائے ہوتا، اونچی اونچی آواز میں گانے سُنے اور گائے جاتے۔ رات گئے چائے پینے کا دل چاہتا تو وارڈن سے چُھپ چُھپا کر اکٹھے چائے کا دَور بھی چلتا۔چاندنی رات میں باسکٹ بال کورٹ میں بیٹھ کر بیت بازی کے مقابلے ہوتے اور اُن کے اونچے اونچے،بے فکر قہقہوں سے ہاسٹل گونج اٹھتا۔

’’اُف! کیا خُوب صُورت دن تھے…‘‘گاڑی ٹریفک سگنل پر رُکی، تو امینہ نے ایک آہ بھری،اس دوران میسیج کی بیپ ہوئی۔’’جی جناب! چھوڑ آئیں سارہ کو ہاسٹل؟‘‘انیلا کا میسیج تھا۔’’ہاں! مگر وہ بہت پریشان ہے۔ ایک کمرے میں چار،چار لڑکیاں،میری سارہ کیسے گزارہ کرے گی…‘‘امینہ نے لکھا۔ ’’اچھا پریشان نہ ہو، آخر تم نے بھی تو مجھے برداشت کیا ہی تھا ناں!‘‘انیلا نے ساتھ ہنستی ہوئی ایموجی بھیجی۔’’ہاں! یہ توسچ کہا اور اس برداشت کے صِلےمیں مجھے تم جیسی سچّی، کھری اور بے لوث محبّت کرنے والی اتنی پیاری سہیلی مل گئی۔‘‘ امینہ نے مُسکراتے ہوئے جواب دیا اور آرام سے آنکھیں بند کرکے گاڑی کی سیٹ سے ٹیک لگالیا ۔

تازہ ترین