فائزہ مشتاق
اُس روز کمرے کا دروازہ پھر بند تھا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا کہ جب کبھی چاچا جی، بھائی جان کے کاغذات کھولتے، تو یوں ہی دروازہ بند ملتا، جیسے کسی چوری کے پکڑے جانے کا اندیشہ ہو۔ کسی کو بھی اندر داخلے کی اجازت نہ ہوتی۔ ناعمہ اور ارسل کی تشویش انتہا کو پہنچ جاتی۔ ’’لگتا ہے، بھائی جان خوب دل لگا کر فیل ہوتے رہے ہیں، ورنہ یوں ہم سے نہ چُھپاتے۔‘‘ ناعمہ نے کھڑکی سے جھانکنے کے ناکام کوشش کی۔
ارسل بھی قدم بہ قدم ہولیا اور ناعمہ کے کان میں دھیمی آوازسے بولا۔ ’’اور ہمارے لیے دھمکیوں کی دکان…رزلٹ اچھا نہ آیا، تو چمڑی اُتار دوں گا، یہ کردوں گا، وہ کر دوں گا وغیرہ وغیرہ۔‘‘ ناعمہ نے بھی ہاتھ کے اشارے سے حمایت کی۔ ’’بھلا بتاؤ، اپنا رزلٹ کسی کو دکھانے کے لائق نہیں۔ مجال ہے، جو کبھی اپنے کاغذات ہمارے سامنے کھولے ہوں۔‘‘
دونوں سرگوشیوں میں محو تھے۔ ’’آئے بڑے عزرائیل!‘‘ ارسل نے ایک بار پھر بھائی جان کو اُسی لقب سے نوازا، جس سے وہ اکثر ہی انھیں، اُن کی غیر موجودگی میں نوازا کرتا تھا۔ تشویش انتہا کو پہنچی، تو کھڑکی سے پردہ سرکانے کی سعی کرنے لگا۔ گفتگو مستقل جاری تھی۔ ’’چاچا جی نے بھی بھائی جان کو سرپرچڑھا رکھا ہے۔ ٹھیک ہے، بڑا بیٹا ہے، مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بیٹے کے رزلٹ پہ پردے ہی ڈال دیئے جائیں اور چھوٹوں کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو۔‘‘’’تو اور کیا! ہم چھوٹوں کا بھلا کیا قصور کہ ہم پر اُنہیں عزرائیل کی شکل میں مسلّط کر دیا۔‘‘
ناعمہ نے بھی ارسل کی حمایت کی۔ ’’مَیں سہ ماہی میں کیا لڑھک گئی، بھائی جان نے تو سارا گھر ہی سر پہ اُٹھالیا۔ اب حساب سے میری نہیں بنتی، تو اس میں میرا بھی کیا قصور؟‘‘ ’’ویسے کُھلا تضاد ہے یہ، ہم کہیں چاچاجی کی سوتیلی اولاد تو نہیں۔‘‘ دونوں بدستور کھڑکی سے جھانکنے میں مصروف تھے، مگر کام یابی نہیں ہو رہی تھی۔
اِسی لمحے گلا کھنکھارنے کی آواز نے دونوں کو اپنی طرف متوجّہ کیا۔ سامنے بھائی جان کھڑے تھے۔ دونوں یک لخت گڑبڑا گئے۔’’جی تو کیا فرما رہے تھے آپ دونوں؟‘‘ جیتے جاگتے بھائی جان اُن دونوں سے مخاطب تھے۔ بوکھلاہٹ دونوں کےچہرے سے عیاں تھی۔ گردنیں دائیں سے بائیں جانب مُڑ گئیں اور قدم پیچھے کی جانب کھسکنے لگے۔ لمحوں کی تاخیر کے بغیر دونوں وہاں سےرفو چکر ہو چُکے تھے۔
حق نواز اور آمنہ نواز کو رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے گویا زمانے ہی بیت چُکے تھے۔ حق نواز، اسپتال کی ڈسپینسری میں سال ہا سال سے کام کرتے تھے اور انتظامیہ میں خاص مقام رکھتے تھے۔ اکثروبیش تر دورانِ سرجری ڈاکٹر کے معاون بھی رہتے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ بھی آدھے ڈاکٹر سمجھے جانے لگے۔ اسپتال کے ملحقہ رہائشی مکان میں برسوں سے مقیم تھے، تو اسپتال جیسے اُن کے لیے دوسرا گھر بن گیا۔
یہی وجہ تھی کہ انتظامیہ کے ہر نئے، پرانے چہرے کے لیے وہ ’’چاچا جی‘‘ ہی تھے۔ تینوں بچّے احمد، ناعمہ اور ارسل بھی لامحالہ چاچا جی ہی پکارنے لگے۔ احمد، عُمر میں ناعمہ اور ارسل سےخاصے بڑے تھے اور بڑے بھائی ہونے کی حیثیت ہی سے دونوں پر خُوب رعب ودبدبہ رکھتے تھے۔ ڈگری مکمل کرنے کے بعد اُن کی سرکاری دفتر میں نوکری ہو گئی تھی اور اللہ کی کرم نوازی، اُن کی دن رات کی محنت رنگ لائی تھی کہ وہ ایک کام یاب انسان تھے۔
ناعمہ اور ارسل تقریباً ہم عُمر تھے اور مزاجاً قدرے غیر سنجیدہ بھی۔ ارسل اپنی حسِ مزاح سے گھر بھر میں رونق لگائے رکھتا۔ وہ کالج میں زیرِتعلیم تھا اور ناعمہ اسکول کے آخری سال میں۔ اُن کی پڑھائی کے تمام تر اخراجات بھائی جان اُٹھاتے تھے۔ بھائی جان کی سنجیدہ طبع کے باعث چاچا جی اُن کو ہر معاملے میں پیش پیش رکھتے۔ ہر اہم و غیراہم ایشو میں اُن سے مشورہ لازمی ہوتا۔
آج کل گھر میں بھائی جان کی شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ نکاح مسجد میں ہونا طے پایا تھا۔ سادگی سے رخصتی اور پھر ولیمے کا فیصلہ کیا گیا۔ نکاح والے روز چھوہاروں کی تقسیم اور دیگر چھوٹے موٹے کام ارسل کے ذمّے لگائے گئے تھے۔ نکاح کا وقت ہوا، نکاح نامہ بَھرا جانے لگا۔
قاضی صاحب دولہا، دلہن کے کوائف حاصل کر رہے تھے کہ چاچا جی نے عین وقت پر ارسل کو ایک کام سے باہر بھیج دیا۔ واپس پہنچا، تو دُعا کے لیے ہاتھ بلند کیے جاچُکے تھے۔ اپنے ہی بڑے بھائی کے نکاح میں عدم شرکت کا دُکھ اُس کے چہرے سےعیاں تھا۔ جو بھی کچھ تھا، وہ دونوں بھائی جان کو دل وجان سے چاہتے تھے۔
ناعمہ نے بھی ارسل کےچہرے پہ بکھری اداسی محسوس کی، مگر خوشی کے لمحات میں یہ قلق زیادہ دیر نہ رہا کہ بھابھی جو گھر بھر کی رونق بن کر آگئی تھیں۔ وقت کا پرندہ دبے پاؤں اُڑتا اُڑتا بہت دُور جا نکلا۔ ناعمہ کی شادی بھائی جان کے عزیز از جان دوست سےہو گئی اور ارسل اعلیٰ تعلیم کے لیے پردیس سدھار گیا۔ اپنی تمام تر ذمے داریوں کے ساتھ یہ دونوں فرائض بھی بھائی جان نے انتہائی خوش اسلوبی سے ادا کیے۔ اور یہ بھائی جان کے دُور اندیشی، معاملہ فہمی ہی تھی کہ چاچاجی بھی اُن کی انگلی تھامے چلتے۔ اُن کی تو ذرا سی تکلیف پر جیسے وہ تڑپ اُٹھتے۔
بےوفا وقت چُپکے سے کچھ اور کھسکا۔ ارسل کو ابھی وطن لوٹے چند دن ہی گزرے تھے کہ موت، زندگی کی حفاظت سے بری الذمہ ہوئی۔ پہلے امی جان داغِ مفارقت دے گئیں اور پھر چاچاجی کی زندگی بھی موت کی جھولی میں جا گری۔ جنازہ گھر کے صحن میں تھا اور گھر عزیز، رشتے داروں سے بھرا ہوا تھا۔
یہ غالباً چاچاجی کی علاقے کے لوگوں سے محبّت اور بےلوث خدمات ہی کا صلہ تھا کہ جنازے میں دُور دراز سے ایک جمِ غفیر کھنچا چلا آیا تھا۔ چاچا جی کو بھائی جان اور ارسل نے خُود اپنے ہاتھوں سے غسل دیا۔ ناعمہ، باپ کے سرہانے سورۂ بقرہ کی آخری آیات تلاوت کر رہی تھی۔
آنکھوں سے آنسو رواں تھے، مگر زبان ذکرسےخالی نہ تھی۔ جنازے میں کچھ چہرے ایسے بھی تھے، جن کا ذکر تو ناعمہ، چاچا جی سے سنتی آئی تھی، مگر دیکھ آج پہلی بار رہی تھی۔ ہر آنکھ ہی اشک بار، ہر ایک غم سے نڈھال تھا۔ جنازہ لے جانے کا وقت ہوا، تو سسکیاں بلند ہوئیں، کلمۂ شہادت کی صدائیں بھی ساتھ ہولیں۔
بھائی جان جنازے کو کاندھا دینے آگے بڑھے اور عین اُسی لمحے کسی نے بھائی جان کو عقب سے جکڑ لیا۔ ’’ہائے احمد! تُو دوبارہ یتیم ہو گیا! سگا باپ بھی ہوتا، تو اِس طرح نہ پالتا۔ کوئی فرق نہ رکھا، سَگوں میں اور تجھ میں…‘‘ نحیف آواز برابر گونج رہی تھی اور بھائی جان کے گلے لگ کر رونے والوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اور پھر ایسی کتنی ہی باتیں اُڑتی اُڑتی ناعمہ کی سماعتوں سے ٹکرانے لگیں۔ وہ یک دَم لڑکھڑا سی گئی۔ دیوار کا سہارا لیا، مگر وجود ہنوز ڈول رہا تھا۔
آس پاس کی خواتین نے سہارے سے پاس رکھی کرسی پر بٹھا دیا، مگر وہ تو ایسی حواس باختہ ہوئی کہ سدھ بدھ ہی کھو بیٹھی۔ ارسل کی نگاہوں میں بھی بھائی جان کے لیے اَن گنت سوالات اور ایک بے گانگی سی امڈ آئی۔ تجہیزوتکفین مکمل ہوئی۔ جتنی دیر تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھا رہا، ارسل کو خاموشی کا سانپ ڈسے گیا، ناعمہ کو غشی کے دورے پڑتے رہے۔ سکون آور ادویہ کا اثر ذرا زائل ہوتا، تو بھائی جان سے نظریں ملانے کی تاب نہ لا پاتی۔ ’’یہ سخت ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، پریشان نہ ہوں، آہستہ آہستہ حالت بہتر ہو جائے گی۔‘‘ ڈاکٹر، بھائی جان کو نسخہ تھماتے کہہ رہا تھا۔
ارسل اور ناعمہ کے سامنے حقیقت آشکار ہو چُکی تھی مگر وہ قبول کرنے سے کترا رہے تھے۔ بھائی جان دراصل اُن کے سوتیلے بھائی تھے، جن کے والد (ارسل اور ناعمہ کے تایا) کی وفات کے بعد، ارسل اور ناعمہ کے والد حق نواز نے، بھائی کی اولاد کو سنبھالا دینے کے لیے، اپنی بھابھی سے نکاح کر لیا تھا۔
بعد ازاں ناعمہ اور ارسل کی پیدائش ہوئی، مگر اُن دونوں سے یہ بات ہمیشہ مخفی رکھی گئی۔ گو، بات اتنی بڑی نہ تھی، مگر دونوں کو جن حالات میں معلوم ہوئی، اُنہیں سنبھلنے کا موقع نہیں دے رہی تھی۔ ’’چاچا جی نے ہمیں دھوکے میں رکھا، مگر کیوں؟‘‘ ناعمہ کو یہی بات سُکون نہیں لینے دے رہی تھی۔ ’’بھائی جان، چاچاجی کے بھتیجے تھے، مگر اُنھیں اتنے عزیز تھے کہ اُن کی وجہ سے ہمیں ساری زندگی کے لیے ’’ابا جان‘‘ کہنے سے محروم کردیا ۔‘‘ ارسل کو یہ دُکھ کھائے جا رہا تھا۔
ہفتہ بھر رُکنے کے بعد ناعمہ سُسرال واپس جانے کی تیاری کر رہی تھی۔ اِس عرصے میں یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ وہ بھائی جان سے قطعاً لاتعلق تھی۔ بھائی جان کے کاغذات چُھپانا، چاچا جی کہلوانا، نکاح کے کوائف ظاہر نہ کرنا … ایک ایک کر کے ساری گتھیاں جیسے سلجھتی جارہی تھیں، مگر ساتھ ہی کچھ نئی الجھنیں پیدا ہورہی تھیں۔ وہ اِسی غم وغصّےکی کیفیت میں، بیگ اٹھائے باہر آئی، تو بھائی جان وداع کرنے کھڑے تھے، وہ شاید بہت کچھ کہنا چاہتے تھے مگر وہ کچھ بھی سُننے پر آمادہ نہ تھی۔ بھائی جان نے شفقت بَھرا ہاتھ آگے بڑھایا، مگر وہ جھٹک کر آگے بڑھ گئی۔
بھائی جان کی اپنی اولاد تو تھی نہیں، تو اولاد جیسے چھوٹے بھائی، بہن کی بے رُخی جیسے مارے ڈال رہی تھی۔ وہ زیادہ دیر نہیں سہہ سکے اور دل تھامے اسپتال کے انتہائی نگہ داشت وارڈ جا پہنچے۔ بھائی جان کے دل میں اسٹنٹ ڈالے جا رہے تھے۔ بھابھی نے فون پر اُن کی بیماری کی اطلاع دی، تو ارسل، ناعمہ اور عمران (ناعمہ کے شوہر) تینوں ہی اُلٹے پیروں دوڑے آئے تھے۔
ناعمہ آپریشن تھیٹر کے باہر بیٹھی بچّوں کی طرح بلک رہی تھی۔ بھابھی بہت حوصلے سے اُسے اور ارسل کو سنبھال رہی تھیں۔ وہ بھی بھائی جان ہی کا پَرتو تھیں، مگر دونوں کے دل پتّے کی طرح لرز رہے تھے۔ ’’اگر بھائی جان کو کچھ ہوگیا تو…‘‘ اُن دونوں کے لیے تو بھائی جان ہمیشہ سے ماں اور باپ سے بڑھ کر رہے تھے۔
ایک ایک کر کے اُن کی سب باتیں یاد آئے چلی جارہی تھیں۔ ’’ہم دونوں کیسے کم ظرف نکلے کہ بھائی جان کے عُمر بھر کے احسانات، ایک پل میں فراموش کر ڈالے۔‘‘ دونوں ایک دوسرے سے بھی آنکھیں نہیں مِلا پا رہے تھے۔ ’’آپریشن کام یاب رہا ہے۔‘‘ ڈاکٹر کی آواز پر سب کے چہروں پہ خوشی کی لہر سی دوڑ گئی۔ ’’ڈاکٹر صاحب! کوئی خطرے کی بات تو نہیں؟‘‘ارسل کی آنکھوں میں تیرتی نمی دیکھ کر ڈاکٹر نے اُس کے شانے پہ تسلی کا ہاتھ رکھا۔ ’’ہوش میں آتے ہی اُن کی حالت دیکھ کر وارڈ منتقل کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔‘‘ اگلے چند گھنٹے طویل ثابت ہوئے، مگر اللہ کا کرم ہوا، دواؤں کا اثر زائل ہوتے ہی بھائی جان ہوش میں آگئے۔
مختلف نالیوں میں لپٹے بھائی جان کی صاف رنگت زرد پڑی ہوئی تھی۔ چہرے سےصدیوں کی تھکن عیاں تھی۔ ناعمہ، ارسل خُود کو نارمل رکھنے کی حتی الامکان کوشش کررہے تھے، مگر بھائی جان کی نگاہیں بہت کچھ ٹٹول رہی تھیں۔ ناعمہ نے نرمی سے ان کا ہاتھ تھاما اور مضبوطی سے بولی۔’’بھائی جان!آپ نےتو ہماری جان ہی نکال دی تھی۔ ’’عزرائیل خُود عزرائیل کے نشانے پر آگیا۔‘‘ بھائی جان نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ارسل کی طرف دیکھا۔
وہ بھائی جان کا دوسرا ہاتھ پکڑ کر شدتِ جذبات سے مغلوب ہو گیا۔ کب کے رکے ہوئے آنسو ، بے طرح بہہ نکلے۔ ’’ہمیں معاف کردیں بھائی جان! اگر آپ کو کچھ ہوجاتا…‘‘ الفاظ اس کے حلق میں پھنس رہے تھے۔ ’’ارے یار! مَیں بھی تم لوگوں کے ساتھ ہی یتیم ہوا تھا۔ تم دونوں کو تو وہ میرے سپرد کر گئے۔
میرے پاس تو کچھ بھی نہیں بچا۔ وہ گھنیرا درخت، جس کی چھاؤں میں، مجھے زندگی بَھر کبھی اِک پَل کو یتیمی کا احساس نہ ہوا، اُس گھنے سائے سے محرومی کتنی بڑی محرومی ہے، مَیں کسے بتاتا، جب تم دونوں ہی نے منہ موڑ لیا۔‘‘ آپس میں نگاہیں ملیں تو آنسوؤں کا ایک سیلِ رواں بہہ نکلا، جس میں سارے گلے، شکوے آپ ہی آپ بہہ گئے۔
سسکیاں ہم نوا ہوئیں، تو بدگمانیوں کے سب بادل چَھٹ گئے۔’’تم لوگوں کو پتا ہے، آج ’’فادرز ڈے‘‘ ہے۔ اب کسی کی آنکھ سے ایک آنسو نہ نکلے…‘‘ بھابھی کی تنبیہ بَھری آواز گونجی، تو سب بے اختیار مُسکرا دیئے۔ ’’ارے ہاں…واقعی…‘‘ ارسل کیک لینے دوڑا، تو ناعمہ نےعمران کو فوراً بھائی جان کے لیے ایک شان دارسا تحفہ اور گُل دستہ لانے کا آرڈر جاری کر دیا۔