دنیا اسوقت ایک نازک اور فیصلہ کن دورا ہے پر کھڑی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی سرزمین ایک بار پھر آگ کی لپیٹ میں ہے۔ ایران و اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کسی وقت بھی تیسری عالمی جنگ کا روپ اختیار کر سکتی ہے۔ ایسے میں صرف ایران نہیں، بلکہ پورا عالمِ اسلام خطرےمیں ہے۔ ایسی صورتحال میں جب طاقتور اقوام محض اپنے مفادات کےگرد سفارتی شطرنج کھیل رہی ہیں، اسلامی دنیا کو سب سے بڑی ضرورت اتحادکی ہے، ایسا اتحاد جو صرف جذباتی نعرے بازی پر نہیں بلکہ دفاعی، سفارتی، سیاسی اور نظریاتی بنیادوں پر قائم ہو۔
اس وقت عالمِ اسلام میں اگر کوئی ملک حقیقی معنوں میں محفوظ ہے تو وہ پاکستان ہے، اور اسکی وجہ محض جغرافیہ یا فوجی تربیت نہیں بلکہ وہ تاریخی اور ناقابلِ تسخیر طاقت ہے جسے دنیا نیوکلیئر قوت کے نام سے جانتی ہے۔ پاکستان کا ایٹمی طاقت بننا اسکی ملکی سلامتی کیلئے ڈھال بنا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برسوں میں جب جب پاک بھارت کشیدگی شدت اختیار کر گئی اور ایٹمی جنگ کے خدشات سر اٹھانے لگے تو نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی طاقتیں بھی فوری طور پر متحرک ہو گئیں۔ امریکہ، چین، روس اور یورپی یونین کی جانب سے فوری سفارتی کوششیں اس بات کا ثبوت تھیں کہ پاکستان کو چھیڑنا کسی بھی طور پر دنیا کیلئے آسان نہیں۔
یہ وہی پاکستان ہے جس نے نوے کی دہائی میں اسرائیل، بھارت اور امریکہ کے خفیہ گٹھ جوڑ کو بے نقاب کر کے اسرائیل کے ممکنہ حملے کو وقت سے پہلے ناکام بنا دیا تھا۔ اُس وقت پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نےجس چابکدستی سے بروقت حکومت اور فوج کو قومی دفاع کیلئے فوری طور پر متحرک کیا، وہ آج بھی دنیا کی عسکری تاریخ کا روشن باب ہے۔ اسرائیل اپنے گریٹر اسرائیل کے خواب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان، ایران اور ترکیہ کو سمجھتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ تینو ں اسلامی ممالک اسرائیل کے پیدا کردہ خطرات سے نمٹ سکتے ہیں؟ کیا دیگر اسلامی ممالک محض تماشائی بنے رہیں گے؟ جب اسرائیل کی نگاہیں ایران کے بعد پاکستان اور ترکیہ پر مرکوز ہیں تو کیا عالمِ اسلام کی آنکھیں کھلیں گی یا وہ اسی طرح امریکہ اور اسرائیل کی خوشنودی کیلئے معاہدے کرتا رہے گا؟اب بھی وقت ہے کہ مسلم دنیا اپنی آنکھیں کھولے۔ ایران پر اسرائیل کی جارحیت صرف ایران کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا کیلئے انتباہ ہے۔ اگر آج ایران پر جنگ تھوپی گئی ہی ہے تو کل پاکستان، ترکیہ ، سعودی عرب، مصر، اردن اور دیگر اسلامی ممالک کو بھی جنگ میں لپیٹا جا سکتا ہے۔ اسرائیل کا منصوبہ ’’گریٹر اسرائیل‘‘ صرف ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک تسلسل ہے، جسکی ابتدا فلسطین سے ہوئی، اور اگلا پڑاؤ شام، لبنان، ایران اور پھر ترکیہ و پاکستان ہیں۔اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یا ہو نہ صرف پاکستان کے نیوکلیئر پلانٹ کو نشانہ بنانے کی کئی بار دھمکی دے چکے ہیں بلکہ وہ ترکیہ کو بھی’’گریٹر اسرائیل‘‘ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ صدر ایردوان نے اسی لیے نہ صرف فوری طور پر ایران پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ہے بلکہ وہ فلسطین کے حق میںآواز بلند کرنے میں کبھی مصلحت کا شکار نہیں ہوئے۔ ترکیہ کی عسکری طاقت، ڈرون ٹیکنالوجی، نیوی اور ایرو اسپیس میں ترقی اسرائیل کیلئے ایک مستقل خطرہ ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل ترکیہ کو بھی اپنے راستے سے ہٹانا چاہتاہے۔ ترکیہ بھی جانتا ہے کہ تنہا رہ کر اس طوفان کا مقابلہ ممکن نہیں۔
وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان، ترکیہ، ایران، سعودی عرب، قطر، ملائشیا، انڈونیشیا اور دیگر اسلامی ممالک ایک مشترکہ دفاعی اتحاد قائم کریں، جسکی قیادت تجربہ کار، عسکری طور پر مضبوط اور ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک پاکستان اور ڈرون ٹیکنالوجی میں دنیا پراپنی دھاک بٹھانے والے ترکیہ کے ہاتھوں میں ہو۔ یہ اتحاد نہ صرف اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو لگام دے گا بلکہ پوری مسلم دنیا کیلئے ایک قابلِ اعتبار دفاعی چھتری ہو گا۔اسلامی ممالک کو اپنی افواج، انٹیلی جنس نیٹ ورکس اور دفاعی بجٹ کو مشترکہ مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی حکمتِ عملی اختیار کرنا ہو گی۔ جیسے یورپ نے نیٹو کے تحت اپنی افواج کو ایک لڑی میں پرویا ہے، اسی طرح مسلم دنیا کو ’’اسلامی نیٹو‘‘ کی طرز پر ایک عملی، فعال اور طاقتور اتحاد کی بنیاد رکھنا ہو گی۔ اس اتحاد کی سب سے بڑی خوبی یہ ہو کہ اگر کسی ایک اسلامی ملک پر حملہ ہوتو وہ حملہ پوری امت مسلمہ پر تصور کیا جائے — اور اسی شدت کے ساتھ جواب دیا جائے۔
فلسطین میں اسرائیلی مظالم، شام و یمن کی خانہ جنگی، افغانستان کی بدحالی، لیبیا و عراق کی بربادی، ان سب سانحات کا حل صرف ایک لفظ میں پوشیدہ ہے’’اتحاد‘‘۔ اگر آج بھی اسلامی دنیا نے آنکھیں نہ کھولیں اور اگر یہ نازک وقت بھی ضائع کر دیا گیا، تو آنے والے وقتوں میں تمام اسلامی ممالک ایک ایک کر کے اسرائیل کا نشانہ بنتے رہیں گے اور مسلم دنیا صرف تعزیتی بیانات جاری کرتی رہے گی۔
پاکستان اور ترکیہ کی قیادت میں اگر ایک ایسا اتحاد وجود میں آ جائے جس میں تمام اسلامی ممالک اپنی افواج، دفاعی نظام، انٹیلی جنس، مالی وسائل اور سیاسی وژن کو یکجا کریں، تو نہ صرف اسرائیل کے گریٹر اسرائیل کے خواب کو ہمیشہ کیلئے دفن کیا جا سکتا ہے بلکہ فلسطین میں برسوں سے بہتا ہوا خون بھی رک سکتا ہے،مسلم دنیا ایک نئے وقار کے ساتھ ابھر سکتی ہے۔ جیسا کہ پاکستان نے اپنے سے بہت طاقتور اور بڑے ملک بھارت شکست سے دوچار کرتے ہوئے نہ صرف اس کا غرور خاک میں ملا کر دنیا پر اپنی عظمت کی مہر بھی ثبت کر دی ہے۔ یہ وقت ہے جذبے کو عمل میں ڈھالنے کا، بیانات کو پالیسی میں تبدیل کرنے کا، اور بھائی چارے کو حقیقی اتحاد میں ڈھالنے کا۔ اسلامی دنیا اگر آج متحد ہو جائے تو نہ صرف اسرائیل بلکہ دنیا کی کوئی بھی طاقت مسلمانوں کو زیر نہیں کر سکتی۔