میں اسرائیل ایران جنگ سے بہت خوفزدہ ہوں ۔میرے خیال میں امن کانچ کا ایک پرندہ ہے، جو صرف اس وقت اڑتا ہے جب فضا ئیں ہموار ہوں۔ ان میں شوربالکل نہ ہو۔ مجھے لگ رہا ہے کہ یہ پرندہ زخمی ہونے والا ہے۔ اور اگر یہ زخمی ہوگیا تو شاید پھرکبھی لوٹ کر نہ آئے گا۔
دنیا کے چہرے پر ایک نیا زخم ،کسی معصوم چہرے پر بارود کے چھینٹے۔ میزائلوں اور ڈرون طیاروں سے گرتی ہوئی آگ کے داغ پہ داغ صرف ایک جنگ کا نشان نہیں، بلکہ تہذیبوں کے وہ نوحے ہیں جو ہر صدی میں ایک نئی قبر سے گونجتے ہیں۔ اس بار اس قبر کا نام ہے: ایران اسرائیل جنگ ۔یہ جنگ صرف گولیوں اور بموں کی آوازوں سے نہیں، بلکہ عقائد کی چیخوں، تاریخ کے دھویں زدہ صفحات، اور مفادات کی سلگتی دہلیزوں سے جنم لے رہی ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جہاں زمینی سرحدوں سے زیادہ ذہنی و روحانی سرحدیں زخم زخم ہیں، بموں سے زیادہ ظلمت کے بیانیے پھٹ رہے ہیں۔ امن ِعالم بیچارہ صرف اقوامِ متحدہ کے گیٹ کے سامنے رکھا ہوا بے جان مجسمہ بن چکا ہے۔ ایران اور اسرائیل کی دشمنی ایک ایسے گرداب کی تصویر ہے جس میں تاریخ اپنے ہی بال نوچ رہی ہے۔ ایران، جیسے کوئی زخمی ابدال، فلسطینی کاز کو مقدس امانت سمجھ کر سینے سے لگائے ہوئے ہے، جبکہ اسرائیل، جیسے کوئی سفاک فنکار، ہر ظلم کو رنگ، ہر قبضے کو فن اور ہر حملے کو ’’دفاعی فن‘‘ قرار دیتا ہے۔
ایران کی انقلابی روح ہمیشہ سےصہیونی ریاست کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی چلی آ رہی ہے، اور اسرائیل، اپنے وجود کے گرد ایٹمی خول چڑھائے، ایران کے ایٹمی خوابوں سے لرزاں ہے۔ یہ ایک خواب اور حقیقت کے درمیان ٹکراؤ ہے، جیسے نیند اور بیداری کے سنگم پر جاگتی ہوئی چیخ۔ اگر جنگ ایک تھیٹر ہے تو امریکہ اس کا ہدایت کار ہے، جو پردے کے پیچھے بیٹھ کر ہر کردار کو ہتھیاروں، پابندیوں اور سفارتی مکاریوں سے ڈائریکٹ کرتا ہے۔ وہ خود کو امن کا پیامبر کہتا ہے، مگر اس کی انگلیاں ہمیشہ ٹریگر پر ہوتی ہیں۔ امریکہ نے اسرائیل کا دامن ہتھیاروں سے بھر دیا ہے، اس نے عالمی رائے عامہ کو اسرائیل کے دفاعی بیانیے سے لبریز کیا ہے، اور ایران کو گہرے سفارتی زخم دینے کی کوشش کی ہے۔ اس نے مشرقِ وسطیٰ کو شطرنج کی بساط سمجھا ہے، جہاں موت مہرہ اور زندگی چال ہے۔ اس جنگ کا انجام کسی جھنڈے کی فتح نہیں، بلکہ انسانیت کے وجود پر ایک اور سیاہ دھبہ ہو گا۔ یہ وہ آگ ہے جس میں جلنے والے صرف جنگجو نہیں، بلکہ معصوم شہری، گود میں سسکتے بچے، مسجدوں، گرجا گھروں، اور کنیساوں کی خاموش عبادتیں بھی ہوں گی۔ لبنان، شام، عراق، یمن، پہلے ہی زخم زخم ہو چکے ہیں مگر یہ طے ہے کہ اگر ایران کی حلیف قوتیں حرکت میں آئیں، تو یہ جنگ صرف ایران اور اسرائیل کی نہیں رہے گی، بلکہ پورا مشرقِ وسطیٰ آگ کا فرش بن جائے گا، ہر قدم پر دھواں اٹھے گا، ہر سجدے کے مقام پر بارود کی بو آئے گی۔ ممکن ہےاسرائیل کے پاس امریکہ کی دی ہوئی جدید ٹیکنالوجی ہو، مگر اس کا دل ابھی تک خو ف کی آکاس بیل میں جکڑا ہوا ہے۔ تل ابیب، حیفہ، عسقلان... یہ شہر صرف نقشے پر نقطے نہیں، بلکہ انسانی بستیاں ہیں، جو ایرانی میزائلوں کی زد میں ہیں۔ تمام عالم ِ اسلام کو چھوڑئیے، اگر حزب اللہ شمال سے اور حماس جنوب سے بول پڑی، یمن، عراق اور شام جنگ میں کود پڑےتو اسرائیل کے کانچ کے خواب چکنا چور ہو سکتے ہیں۔ ایران کا فلسفہ ’’مزاحمت‘‘ ہے، جو زخموں سے چراغ بناتا ہے اور تکلیف کو نظریہ بنا کر لڑتا ہے۔ اگر اسرائیل نے اس کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنایا، تو ایران کے جوابی حملے صرف اسرائیل پر نہیں، بلکہ خطے کے امریکی اڈوں، بحری بیڑوں، اور عالمی توانائی کی سپلائی لائن پر بھی ہوں گے۔ یہ جنگ تیل کے کنووں سے نہیں، انسانی خون سے جلنے لگے گی۔ اسرائیل، جو اسٹارٹ اپ نیشن کہلاتا ہے، اگر طویل جنگ میں الجھتا ہے تو سرمایہ کاروں کے قدم رک جائیں گے، بین الاقوامی پروازیں منسوخ ہوجائیں گی ، اور اس کا ’’برینڈ اسرائیل‘‘ بدنام ہو جائے گا۔ اس کی ہائی ٹیک اکانومی میں دراڑیں پڑ جائیں گی، اور سافٹ ویئر کو ہارڈ وئیر میں دفن ہونا پڑے گا۔ یورپ جو اب تک اسرائیل کو ہمدردی سے دیکھتا تھا، جنگی جرائم، انسانی حقوق کی پامالی، اور میڈیا میں بڑھتے ہوئے دباؤ کے بعد اپنی آنکھیں موڑ سکتا ہے۔ اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کی حمایت کا دائرہ کچھ اور سکڑ سکتا ہے، اور پھر وہ تنہا صرف امریکہ کی لولی لنگڑی چھتری کے نیچے کھڑا رہ جائے گا۔ اسرائیلی عوام کی نفسیات بارود کی بوندوں سے لرزنے لگی ہے۔ لمبی جنگ کی صورت میں ذہنی تناؤ، شہری بغاوت، اور حکومت پر عوامی عدم اعتماد کے سائے گہرے ہو سکتے ہیں۔ کسی دن کوئی بچہ سوال کر بیٹھے گا: ’’ہم نے ٹینک تو بہت دیکھے، پر اسکول کب جائیں گے۔ تاریخ پوچھتی ہے: کیا کبھی کسی جنگ سے امن نکلا ہے؟ کیا بارود کی زبان نے کبھی محبت کی کوئی نظم لکھی ہے؟ ایران اور اسرائیل وہ زمینیں ہیں جہاں کبھی آسمان سے روشنیاں اترتی تھیں، مگر اب وہاں ڈرون پر سوار موت کی چنگھاڑ کے اندھیرے گونجتے ہیں۔ یہ جنگ، اگر لمبی ہوئی، تو صرف زمینی نقشے نہیں بدلیں گے، بلکہ انسانیت کا شعور، امن کا تصوراور عالمی ضمیر کے آئینے میں نئی دراڑیں پڑیں گی۔ جنگی فتح و شکست کی کہانی لکھی جائے گی، بلکہ انسان کی عقل و دانش پر عدم اعتماد کا اعلان بھی ہوگااور اس میں امریکہ کا کردار ایک ایسے سوداگر کا ہوگا جس نے شعلے بیچے اور اپنے ہاتھوں پر رکھے ہوئے چراغ گل کر دئیے۔ ہو سکتا ہے اس جنگ میں ایران کے شہدا کی تعداد زیادہ ہو مگر اسرائیل آئینہ جب دیکھے گا، تو خود کو پہچاننے سے انکار کر دے گا۔
امریکہ ایران میں رجیم چینج کرنا چاہتا ہے جیسا تجربہ وہ پہلے کئی ممالک میں کر چکا ہے مگر رجیم چینج کی جنگ تو وہ اسی وقت ہار گیا تھا جب اس نے اسرائیل سے ایران پر حملہ کرایا۔ اس وقت ایرانی عوام کے ہی نہیں تمام امت ِ مسلمہ کے دل ایران کے ساتھ دھڑک رہے ہیں۔ اسی رجیم کے ساتھ دھڑک رہے ہیں۔
ایران کو کمزور سمجھنے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کسی وقت بھی ایٹمی دھماکہ کر سکتا ہے۔ اس کے پاس میدان جنگ میں کام آنے والے فٹ بال سائز کے ایٹم بھی موجود ہو سکتے ہیں۔ ثبوت چاہئے تو ڈاکٹر قدیر خان کا وہ بیان یاد کیجئے جو جنرل پرویز مشرف نے ان سے زبردستی دلایا تھا۔