• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک وقت تھا جب کوٹھے صرف نفسانی خواہش کے اڈے نہیں بلکہ تہذیب، تربیت اور ثقافت کا مرکز سمجھے جاتے تھے۔ برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو نوابوں اور راجاؤں کے زمانے میں ان کوٹھوں پر صرف رقص و موسیقی نہیں بلکہ اخلاقیات، گفتگو کا سلیقہ، آدابِ محفل، اور معاشرتی شائستگی بھی سکھائی جاتی تھی۔ طوائف، جسے آج بھی معاشرہ حقارت سے دیکھتا ہے، اس دور میں تہذیب کی علمبردار ہوتی تھی۔ ان کی مجلسیں باشعور اور باادب نوجوانوں کی تربیت گاہیں ہوا کرتی تھیں۔

ہندوستان ہو یا چین، ہر جگہ اشرافیہ کے نوجوان ان ’ادب گاہوں‘میں جاتے، جہاں خواتینِ محفل صرف حسین چہرے نہیں بلکہ اعلیٰ دماغ اور تہذیب کی تصویر ہوتی تھیں۔ ان کوٹھوں سے نکلنے والے افراد سلطنتوں کے والی بنتے تھے، مگر انکے اندر وہ شائستگی ضرور باقی رہتی تھی جو انھوں نے وہاں سیکھی ہوتی۔

پھر وقت بدلا۔ انگریز آیا اور تہذیب کی یہ نگریاں، جو کبھی ثقافت کا روشن چراغ تھیں، ریڈ لائٹ ایریاز میں تبدیل کر دی گئیں۔ نفس کی بھوک نے روح کی روشنی کو نگل لیا۔ تعلیم کی جگہ تجارتِ جسم نے لے لی اور ان کوٹھوں کو عزت و احترام سے نفرت اور حقارت تک کا سفر طے کروایا گیا۔

برسوں تک یہ علاقے شہر سے کٹے رہے۔ لوگ یہاں آنے سے کتراتے۔ اگر کسی کو ’ہیرا منڈی کے پائے‘ کھانے بھی جانا ہوتا تو نظریں بچا کر جاتا۔ تہذیب کی وہ روشنیاں اب نیم شب کی تاریکی میں ڈھک چکی تھیں۔مگر پھر وقت نے کروٹ لی۔

جہاں تبدیلیوں کی لہر نے ہر میدان کو چھوا، وہیں ان تاریخی علاقوں کی شناخت کو بھی ایک نیا رخ دیا ۔ لاہور کی ہیرا منڈی، جو کبھی عزت کا جنازہ سمجھی جاتی تھی، اب سیاحتی اور ثقافتی مقام بننے لگی۔ وہاں کے کچھ قدیم کوٹھے آج جدید ریسٹورانٹس میں بدل چکے ہیں۔ بادشاہی مسجد کے سائے میں، قلعہ لاہور کے بالمقابل بیٹھ کر جب سورج غروب ہوتا ہے، تو وہ دیواریں، وہ چھتیں اور وہ گلیاں ماضی کی سرگوشیاں کرتی محسوس ہوتی ہیں۔میں خود کئی بار ان میں سے ایک ریسٹورنٹ کی چھت پر بیٹھ چکی ہوں۔ تازہ دیسی کھانوں، مشروبات اور پرفضا ماحول کے بیچ جب نگاہ قلعے کی بلند و بالا دیواروں پر پڑتی ہے، تو دل ماضی میں کھو جاتا ہے۔ یہ سوچ آتی ہے کہ اگر تہذیب کا وہ معیار برقرار رہتا، اگر ان جگہوں کو تعلیم، تربیت اور فن کی نرسریاں ہی رہنے دیا جاتا، تو شاید معاشرہ آج کچھ اور ہوتا۔مگر جب ان کوٹھوں سے خاندان نکالے گئے، تو وہ پھیل گئے شہر کے ہر کونے میں۔ کچھ بھوکے مرے، کچھ بدنام ہوئے، اور کچھ نے کوٹھے سے نکل کر کوٹھیاںبنا لیں۔ اب یہ گناہ صرف مخصوص گلیوں تک محدود نہیں، بلکہ پوش علاقوں کے دروازے بھی اس کے لیے کھل چکے ہیں۔

یہ وہی دور ہے جب فلم انڈسٹری نے بھی انہی پس منظر کی خواتین کو پناہ دی۔ کم تعلیم، معاشی مسائل اور سماجی دباؤ کے باعث یہ شعبہ ایسی خواتین کیلئے کشش کا باعث بنا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی جب کسی اچھے گھرانے کی لڑکی شوبز کی دنیا کا رخ کرتی ہے، تو شدید معاشرتی ردعمل سامنے آتا ہے۔

تاہم اب فرق مٹ چکا ہے۔ نہ کوئی خاندان کی پہچان باقی رہی، نہ کردار کی پختگی۔ دولت معیارِ شرافت بن چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہماری اقدار دھندلا چکی ہیں۔المیہ یہ نہیں کہ یہ خواتین شوبز میں آئیں یا معاشرے کا حصہ بنیں۔ المیہ یہ ہے کہ جب وہ بے باکی اور بے حیائی کو فخر سمجھنے لگیں، جب زبان کی مٹھاس کے بجائے تلخی ان کا ہنر بن جائے، جب تہذیب سکھانے والی نسل دوسروں کو بے عزت کرنا اپنی کامیابی سمجھے تب ہم تہذیب کے بحران میں داخل ہوتے ہیں۔

عورت کارڈ کھیلنا آسان ہے، مگر بطور عورت عزت دے کر عزت کمانا اور بھی آسان اور باوقار ہے۔ انسان کا لباس اسے مہذب نہیں بناتا، زبان، شعور اور تربیت بناتی ہے۔ ہم اگر تہذیب کی وہ قدیم چھتیں بچا نہیں سکے، تو کم از کم زبان و لہجے میں وہ شائستگی بچا سکتے ہیں جو کوٹھوں کی بنیاد تھی۔

تاریخ نے ہمیں چھتیں دے دیں، بیٹھنے کی جگہیں مل گئیں۔ مگر وہ ماحول، وہ سلیقہ، وہ فضا جو کبھی ان گلیوں کی پہچان تھی وہ اب پورے شہر میں بکھر چکی ہے، اور ہم اسے دوبارہ اکٹھا نہیں کر سکے۔کاش لباس کے ساتھ انداز بھی بدل جاتے۔

تازہ ترین