ابھی تو راگ درباری کی دھن پر قصیدہ گوئی کا سلسلہ شروع ہی ہوا تھا کہ ہمارے ممدوح ڈونلڈ ٹرمپ نے لٹیا ڈبودی اور ایران پر حملہ کرکے امن کانوبیل انعام حاصل کرنے کا نادر موقع گنوادیا۔ہم خود کو شہ دماغ کے طور پر پیش کرتے ہوئے بتارہے تھے کہ حکومت پاکستان نے حکمت و تدبر اور فہم و فراست پرمبنی ایسا کمال فیصلہ کیا ہے کہ تاریخ یاد رکھے گی۔توقع ظاہر کی جارہی تھی کہ حکومت پاکستان کی طرف سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو باضابطہ طور پر امن کے نوبیل انعام کیلئے نامزد کئے جانے کے بعد ایران پر حملہ کرنے کے امکانات ختم ہوگئے ہیں۔جب اس فیصلے پر داد سمیٹی جارہی تھی تو سعد رفیق نے اختلاف کی جسارت کرتے ہوئے لکھا ’’جسے چارہ ڈال رہے ہیں ،وہ کھائے گا بھی اور دولتی بھی مارے گا‘‘۔اگرچہ انکی بات نقار خانے میںطوطی کی آواز ثابت ہوئی مگر جس کی طرف اشارہ تھا ،اس نے سب تخمینے غلط ثابت کردیئے۔شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ری پبلکن پارٹی کے صدر ہیں جس کا انتخابی نشان ہاتھی ہے ۔اگر گدھےکےانتخابی نشان والی ڈیموکریٹ پارٹی کے کوئی رہنما منصب صدارت پر متمکن ہوتے تو شاید سبز چارہ دیکھ کر پلٹ جاتے مگر بدمست ہاتھی سے متعلق کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی ۔یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ اس کا اگلا قدم کب اور کہاں ہوگا۔ڈونلڈ ٹرمپ کا شمار مقبولیت پسند رہنمائوں میں ہوتا ہے جو کسی قسم کی اخلاقیات یا اصولوں کے پابند نہیں ہوتے ۔انہوں نے پوری دنیا کے سامنے یہ بات کہی کہ اسرائیل اور ایران کو یہ معاملہ سلجھانے کیلئے دو ہفتوں کی مہلت دی جاتی ہے اور اسکے بعد امریکہ اس محاذ آرائی میں براہ راست شامل ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرے گا۔مگر’’سجی دکھا کر کبھی مارنے‘‘کی پالیسی کے تحت اچانک ایران پر حملہ کردیا۔امریکی ارکان پارلیمنٹ کہتے رہ گئے کہ کسی بھی ملک پر حملہ کرنے سے پہلے کانگریس کی منظوری حاصل کرنا ضروری ہے مگر ڈونلڈ ٹرمپ کسی کی پروا کئے بغیر اس جنگ میں کود پڑے۔ یادش بخیر،ڈونلڈ ٹرمپ اس بیانئے کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے کہ وہ پہلے سے شروع کی گئی جنگیں ختم کریں گے مگر انہوںنے امریکہ کو ایک اور جنگ میں اُلجھا دیاہے جو ممکنہ طور پر تیسری جنگ عظیم میں تبدیل ہوسکتی ہے ۔مگر ان حرکتوں کے باوجود وہ خود کو امن و آشتی کا پیامبر خیال کرتے ہیں ۔ابھی کچھ دن پہلے ہی جناب ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہوںنے روانڈا،کانگو ،سربیا اور نجانے کہاں کہاں امن قائم کیا ،پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کروائی ۔انہیں تو 4,5مرتبہ امن کو نوبیل انعام دیا جانا چاہئے مگر یہ لوگ صرف لبرلز کو نوبیل پیس پرائز دیتے ہیں۔ٹرمپ نے اپنی کامیابیوں کی فہرست سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ بتاتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ میں نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے ساتھ مل کر جمہوریہ کانگو اور روانڈا کے درمیان ایک عظیم معاہدہ کیا ہے، مجھے اس کام کیلئے امن کا نوبیل انعام نہیں ملے گا، مجھے انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ روکنے پر نوبیل پرائز نہیں ملا۔ مجھے مصر اور ایتھوپیا کے درمیان امن برقرار رکھنے کا انعام نہیں ملا، مشرق وسطیٰ میں ابراہیمی معاہدہ کرنے پر بھی امن کا نوبیل انعام نہیں ملے گا۔چاہے میں کچھ بھی کروں، روس یوکرین ہو یا اسرائیل ایران، مجھے امن کا نوبیل انعام نہیں ملے گا لیکن لوگ سب کچھ جانتے ہیں، اور یہی میرے لیے سب سے اہم ہے۔اس سے قبل ،یوکرین کے پارلیمانی رکن اولیکسانڈر میریژکو، جو صدر زیلنسکی کی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، انہوںنے نومبر 2024 میں ڈونلڈ ٹرمپ کو 2025 کے امن کے نوبیل انعام کیلئے نامزد کیاتھا۔ اس موقع پر کہا گیا تھا کہ وہ روس یوکرین جنگ کے خاتمے اور خطے میں امن کے قیام میں مددگار ثابت ہوں گے۔اس معاملے کا سب سے مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر امریکی حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ،اب امن کا وقت آن پہنچا ہے ،ایران اس معاملے کو ختم کرے ورنہ مزید حملے کئے جائیں گے۔بمباری سے امن کشید کرنے کی بات کوئی امریکی صدر ہی کر سکتا ہے ۔ایران کے لوگ نہایت سخت جان اور مزاحمت پسند ہیں ۔ان کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ کسی قیمت پر شکست تسلیم نہیں کریں گے۔ان امریکی حملوں کے بعد نہ صرف ایران کے میزائل حملوں میں شدت آئے گی بلکہ ممکنہ طور پر آبنائے ہرمز کو بھی بند کیا جاسکتا ہے۔آبنائے ہرمز کو عالمی تجارت کے گھنٹہ گھر کی حیثیت حاصل ہے تمام تجارتی بحری جہاز یہاں سے گزرتے ہیں ،تیل کی رسد یہیں سے ہوتی ہے اسکی بندش سے بہت بڑا بحران جنم لے سکتا ہے اور عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت جو پہلے ہی 78ڈالر فی بیرل تک پہنچ چکی ہے اس میںمزید اضافہ ہوسکتا ہے اور ممکن ہے آئندہ چند روز میں یہ 100ڈالر فی بیرل تک جا پہنچے ۔ایران کے اتحادیوں ،چین اور روس کی طرف سے واضح طور پر خبردار کیا گیا تھا کہ امریکہ اس جنگ میں شامل ہونے سے باز رہے مگر اب جبکہ امریکہ نے اپنا وزن اسرائیل کے پلڑے میں ڈال دیا ہے تو چین اور روس بھی عملاً اس لڑائی میں شامل ہوجائیں گے۔ہم تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیںاور یہ سب طاقت کے عدم توازن کی وجہ سے ہوا ہے ۔آپ کو یاد ہوگا جب ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور ِصدارت میں شمالی کوریا نے امریکہ کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھنے والے بین البراعظمی میزائلوں کا تجربہ کیا تھاامریکہ میں اس منصوبے پر غور کیا گیا تھا کہ شمالی کوریا کی ایٹمی تنصیبات کوحملہ کرکے تباہ کردیا جائے لیکن ان خدشات کے تحت یہ ارادہ ترک کردیا گیا کہ شمالی کوریا کے پاس ایٹم بم ہے اور یہ مہم جوئی خطرناک ہوسکتی ہے۔اگر ایران بھی ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہوچکا ہوتا تو نہ اسرائیل کو جارحیت کی جرات ہوتی اور نہ ہی امریکہ ایران پر حملہ کرنے کی حماقت کرتا۔