بڑے افسوس سے یہ بات کہناپڑرہی ہے کہ اس وقت فلسطینیوں کاجس طرح قتل عام ہورہا ہے اس کی مسلم دنیا کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔یہ سب کچھ اسرائیل کی طرف سے ہورہاہے۔ اس سلسلے میں اسرائیل کو امریکہ اورکچھ دیگر مغربی ملکوں کی حمایت بھی حاصل رہی ہے۔ مگر یہ وحشیانہ رویہ صرف یہاں تک محدود نہیں رہا۔ اب ایک اہم اسلامی ملک ایران کو بھی نشانہ بنایا گیاہے مگرمسلم دنیا خاموش ہے سوائے ایک آواز جو پاکستان کے ایک وفاقی وزیر کی طرف سے سننے میں آئی ہے۔یہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے ایک دو دن پہلے جاری کیاگیا ایک بیان ہے۔ یہ ایسے مرحلے پرآ یا ہے جب ساری مسلم دنیا سورہی ہے۔ خواجہ آصف کی طرف سے جاری کیا گیا بیان انتہائی قابل تعریف ہے اس مرحلے پرفلسطینیوں کے انقلابی رہنما یاسر عرفات اورپاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو بہت یاد آرہے ہیں۔ یاسر عرفات اگر آج زندہ ہوتے تو اسرائیل کو فلسطینیوں کے ساتھ یہ حشر کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ یہی کچھ بھٹو کے حوالے سے بھی کہاجاسکتاہے۔ یاسر عرفات نے عرب مسلمانوں کی تو جنگ لڑی مگر جب انہیں معلوم ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی جارہی ہے تو وہ اس ایشو پر بھی خاموش نہیں رہ سکے۔یاسر عرفات نے کسی طرح جیل میں قید بھٹو کو پیغام بھیجا کہ وہ جلد اپنے کچھ بہادر ساتھیوں کی ایک ٹیم بھیج رہاہے جو ایک ہیلی کاپٹرکے ذریعے پاکستان کے ایک گوشے میں اتریں گے پھر اسلحہ کے ساتھ اس جیل پر حملہ کرینگے جہاں بھٹو قید ہے اور ان کوچھڑا کر ان کے پاس لے آئینگے مگربھٹو نے یہ بات قبول نہیں کی اور یاسر عرفات کو پیغام بھیجا جس میں انہوں نے یاسر عرفات کاشکریہ ادا کیا مگرساتھ ہی یہ بھی کہا کہ آپ یہ کوشش نہ کریں کیونکہ وہ جیل سے بھاگ کر باہر آنا نہیں چاہیں گے۔ یاسر عرفات یہ کوشش اس وجہ سے بھی کرناچاہتے تھے کہ ان کے علم میں تھا کہ جب ایک بار اسرائیل کے جنگی جہازوں نے شام پر حملہ کیا کیونکہ وہ اسرائیل اور شام کے درمیان ایک پہاڑ کے نزدیک کچھ علاقے کو شام سے خالی کراکے خود قبضہ کرناچاہتے تھے مگر بھٹو جو اس وقت پاکستان کے وزیراعظم تھے نے پاکستانی جنگی جہاز بھیج کر اسرائیلی جنگی جہازوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔اسلامی CAUSE کے حوالے سے بھٹو کا ایک اور بھی اہم کارنامہ ہے جب ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیراعظم بنے تو انہوں نے لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا اہتمام کیا۔ اس کانفرنس میں اکثرمسلمان سربراہوں نے شرکت کی جن میں خاص طورپر سعودی عرب کے اس وقت کے سربراہ شاہ فیصل،لیبیاکے کرنل قذافی شامل تھے۔
اس کانفرنس میں بھٹو نے ایک اہم کارنامہ سرانجام دیا کہ انہوں نے مسلم سربراہوں کے سامنے یہ بات رکھی کہ حالانکہ دنیا میں زیادہ تیل ان سمندری علاقوں سے حاصل ہوتاہے جو مسلمان ملکوں کاحصہ ہے۔ مگرتیل کےعالمی نرخ امریکہ مقررکرتاہے حالانکہ یہ اختیار تو مسلمان ملکوں کاہوناچاہیے۔ جہاں سے تیل نکالا جاتاہے۔ بھٹو نے اس ایشو پر مسلمان سربراہوں کا ایک الگ اجلاس منعقد کیا جس میں شاہ فیصل کااہم کردار تھا۔ اس اجلاس کے بعد کافی عرصہ تک تیل کے بین الاقوامی نرخ مسلمان ملک مقررکرنے لگے۔تاہم امریکہ بھٹو کا سخت مخالف ہوگیا۔ امریکا بھٹو کا پہلے سے اس وجہ سے سخت مخالف تھا کہ جب بھٹو نے ایٹمی پروگرام تیار کیا جہاں تک اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی تباہی کامعاملہ ہے تو ڈیڑھ سال سے اسرائیل فضائی حملوں کے ذریعے نہ صرف فلسطینیوں کے علاقے میں بمباری کرکے کئی عمارتیں تباہ کرچکا بلکہ کئی ہزار لوگ اس بمباری میں شہید بھی ہوگئے۔ ان میں نوجوان بھی ہیں تو خواتین اور چھوٹے بچےبھی ۔ علاوہ ازیں جن فلسطینی علاقوں کو اسرائیل نے اپنی فوجی تنصیبات کے ذریعے گھیرے میں لے لیا وہاں کے لوگ کھانا نہ ملنے کی وجہ سے بھوک سے تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں۔
اسرائیل یہ سب مظالم کررہا ہے مگر ہم مسلم ممالک کے لوگ خاموش ہیں۔اس بات پر جتنا افسوس کیاجائے کم ہے۔ مگرحال ہی میں اسرائیل نے ایران پر حملے کئے اور ایران کے تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کو شہید کردیا۔ بعدمیں ایران نے بھی جوابی حملے کئے مگر امریکہ اور کچھ دیگر مغربی ممالک اب تک اسرائیل کی حمایت کررہے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم ممالک کے سربراہ جہاں اسرائیل پر حملوں میں ایران کا عملی ساتھ دیں وہاں وہ امریکہ اور دیگرمغربی ممالک کی کھل کر مذمت کریں۔کیا پاکستان میں ایک بار پھر بھٹو پیدا نہیں ہوسکتا جو ایک بار پھر پاکستان میں اسلامی سربراہی کانفرنس کرکے اسرائیل جیسے ممالک کو سبق سکھائے۔