• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہالینڈ کے ایک جریدے نے لندن کی ایک خبر کے حوالے سے بتایا ہے کہ افریقہ میں فوج نے550 سے زیادہ بچوں اور بچیوں کو جو 12سال سے کم عمر کے ہیں،کو اغوا کیا ذرائع نے بتایا کہ ان معصوم بچوں کے آپریشن کر کے مختلف اعضاء نکال کر امریکہ یورپ اور عرب ملکوں میں فروخت کیے جا رہے ہیں۔ـ اگر مندرجہ بالا خبر درست ہے تو یہ ایک وحشت ناک صورتحال ہے۔ گزشتہ ماہ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ اگر دنیا میں انسانی اعضاء کی خرید و فروخت کا سلسلہ جاری رہا تو اعضاء کی تجارت کے نتیجے میں آنے والے دور میں خود انسانوں کی تجارت کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ آج دنیا کے مالدار ممالک اپنے اور اپنے پیاروں کے ناقص جسمانی اعضاء کے بدلے غریب مفلس نادار لیکن صحت مند انسانوں کے اعضاء کی پیوندکاری کیلئے بے دریغ دولت لٹانے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ انسانی اعضاء کا حصول کیسے کیا جاتا ہے۔ انسانی اعضاء کی سپلائی کا سستا ترین ذریعہ تیسری دنیا کی غریب اور مفلوک الحال لوگوں کے علاوہ غریب دنیا کے وہ معصوم اور کمسن بچے ہیں جنہیں یہ شیطانی گروہ اغوا کر کے ان کے اعضاء فروخت کر دیتے ہیں۔ یورپ میں انسانی اعضاء کی مانگ کے سبب یہ گھناؤنا کاروبارترقی کر کے صنعت بن چکا ہے۔ یورپی ادارہ ’’یورو ٹرانسپلانٹیشن‘‘سالانہ تین ہزار اعضاء کی پیوندکاری کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یورپ میں انسانی اعضاء کے تقسیم کنندگان (DISTRIBUTORS ) بھی سرگرم عمل ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک میں صحت مند اعضاء کی فروخت کا کاروبار انتہائی عروج پر ہے۔’’مڈل مین‘‘ کو خطیر رقم ادا کر کے یہ اعضاء خرید لیے جاتے ہیں جبکہ فروخت کنندہ کو اس کی ادائیگی بہت کم کی جاتی ہے جسکی وجہ سے وہ عمر بھر کیلئےمعذور ہو جاتا ہے یا بسا اوقات زندگی ہی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ ایشیا میں برصغیر انسانی اعضاء کی فراہمی کا بڑا ذریعہ ہے جبکہ پاکستان اور بنگلہ دیش بھی ’’سپلائرز‘‘ میں شا مل ہیں کلکتہ ،ممبئی اور کراچی لاہور میں اعضاء کے ڈیلرز آنکھوں کے عوض 5 ہزار ڈالر سے آٹھ ہزار ڈالرز تک وصول کرتے ہیں جبکہ گردوں کی قیمت تین سے پانچ ہزار ڈالرز ہے۔ صرف ممبئی میں کم از کم 300 ڈیلر اس دھندے میں ملوث ہیں۔ پاکستان سمیت ایشیا کے دوسرے ملکوں میں مریضوں کے علم میں لائے بغیر گردے نکالنے کا عام رجحان ہے۔ ڈیلرز کے بہت سےسپیشلسٹ ڈاکٹروں کے ساتھ خصوصی روابط ہوتے ہیں جس سے دونوں کو مالی فائدہ پہنچتا ہے۔ برطانوی جریدے ’’نیوز انٹرنیشنل‘‘ کے مطابق صرف مئی میں سالانہ 10ملین ڈالرز مالیت کے گردوں کے سودے ہوتے ہیں جنہیں فوری طور پر مغربی ملکوں کو برآمد کر دیا جاتا ہے ۔بعض صورتوں میں ڈیلرز اپنے شکار کو لندن، پیرس، فرینکفرٹ اور لاس اینجلس تک بھجواتے ہیں فرینکفرٹ میں مقیم اس دھندے میں ملوث ایک ’’مڈل مین‘‘نے پچھلے دنوں اعلان کیا تھا کہ 500 مارک کی ادائیگی کے علاوہ آپ سفر خرچ ہوٹل کے بل ہسپتال اور سرجری کے اخراجات ادا کر سکیں تو میں گردوں کی تجارت کیلئے ایک گروہ فراہم کر سکتا ہوں۔ بھارت میں صرف انسانی اعضاء ہی نہیں بلکہ پورے ڈھانچے بھی 500 ڈالرز میں فروخت کیے جاتے ہیں جنکے زیادہ تر خریدار یورپ اور امریکہ کی میڈیکل ایجنسیاں، طب کے پیشے سے متعلق افراد ،کالج اور اشتہاری فلمیں بنانے والی کمپنیاں ہوتی ہیں۔ مشرقی یورپ اور روس میں سرمایہ دارانہ نظام لاگو ہونے کے بعد انسانی اعضاء کی تجارت زوروں پر ہے۔ روسی ماہرین کا ایک منظم گروہ کینیڈا ،امریکہ ،فرانس اور سوئٹزرلینڈ کے ممالک کو انسانی اعضاء برآمد کرتا ہے۔ ماسکو میں مغربی ملکوں کے ماہرین نے ایک پوسٹ مارٹم سینٹر قائم کر رکھا ہے جس کا نام ٹرانسپلانٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ ہے یہ سینٹر 50 ہزار سے 70 ہزار ڈالرز کے عوض صحت مند دل ،گردے کی پیوندکاری کرتا ہے اسکے علاوہ انسانی اعضاء برآمد بھی کرتا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بھی ہر سال ہزاروں آپریشن کیے جاتے ہیں اور ہر پیوند کاری کے آپریشن پر کم ازکم 10 ہزار ڈالرز کا منافع ہوتا ہے جو ڈیلرز اور ڈاکٹر حضرات ہضم کر جاتے ہیں جبکہ غریب فروخت کنندہ کو برائے نام رقم ہاتھ آتی ہے یا اپنی لاعلمی کی وجہ سےوہ خالی ہاتھ رہ جاتا ہے۔

تازہ ترین