برطانوی حزبِ اختلاف جماعت کنزرویٹو پارٹی کی رہنما کیمی بیڈینوخ نے وضاحت کی ہے کہ ان کی پارٹی کا منصوبہ یوکے سے قانونی طور پر آباد افراد کو ملک بدر کرنے یا مستقبل میں ہونے والے امیگریشن قوانین کو ماضی پر لاگو کرنے کا نہیں ہے۔
یہ وضاحت ایم پی کیٹی لیم کے متنازع بیانات کے بعد سامنے آئی ہے۔
لندن میں نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے بیڈینوخ نے کہا کہ لیم نے ’غیر واضح‘ انداز میں بات کی تھی جب انہوں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ بڑی تعداد میں قانونی طور پر آباد خاندانوں سے ’گھر واپس جانے‘ کا کہا جا سکتا ہے۔
بیڈینوخ نے اس بات پر زور دیا کہ کنزرویٹو پارٹی کوئی بھی مستقبل کے امیگریشن قوانین پچھلی تاریخ سے لاگو نہیں کریں گے۔
یہ وضاحت ان لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والے خدشات کو دور کرتی ہے جنہیں انڈیفینٹ لیو ٹو ریمین یعنی رہائش کی غیر معینہ اجازت حاصل ہے۔
ایک شڈو ہوم آفس منسٹر کیٹی لیم نے اس سے قبل ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ کنزرویٹو پارٹی آئی ایل آر کی حیثیت ختم کرنے اور لوگوں کو ’گھر واپس جانے‘ کی ترغیب دینے کا منصوبہ رکھتی ہے تاکہ برطانیہ ’ثقافتی طور پر مربوط‘ رہے۔
ان کے اس بیان پر وزیرِ اعظم سر کیئر اسٹارمر نے تنقید کی تھی جبکہ کنزرویٹو ایم پیز کے کئی اراکین میں بھی بے چینی پائی گئی تھی، جن میں سے کچھ نے پارٹی وِپس کے پاس اس معاملے میں شکایات درج کرائی تھیں۔
لیم کا کہنا ہے کہ اب جب کہ کنزرویٹو پارٹی نے یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق سے علیحدگی کی پابندی کی ہے، غیر یورپی غیر ملکی شہریوں کے لیے مراعات کو روکنا ممکن ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے پالیسی میں تبدیلی کی راہ ہموار ہوتی ہے اور یہ کہ ہم کیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہماری تمام پالیسیاں مربوط ہوں اورای سی ایچ آر سے علیحدگی جیسے اقدامات کے ساتھ مطابقت رکھتی ہوں۔