گزشتہ دنوں 26؍مئی کو وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف دہلی تشریف لے گئے جہاں انہوں نے بھارت کے نومنتخب وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی۔ پاکستان کے وزیراعظم کا یہ مختصر دورہ نریندر مودی کی دعوت پر تھا جسے اسلام آباد میں بخوشی قبول کر لیا گیا تھا۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے جہاں ’’حلف برداری‘‘ کی تقریب میں شرکت کر کے پاک بھارت تعلقات کو اعتماد سے بھرپور ایک نیا موڑ دینے کی کوشش کی ہے وہیں پر مودی حکومت کیلئے ایک دوستانہ پیغام اور پاک بھارت عوام کیلئے برادرانہ تعلقات کے ایک نئے دور کے آغاز کی خوشخبری بھی ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ خوشگوار اور بہتر تعلقات کا نہ صرف خواہشمند ہے بلکہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہو کر اس کا ثبوت بھی فراہم کر دیا ہے۔ بالخصوص وزیراعظم میاں نواز شریف کا نئی دہلی میں یہ کہنا کہ ’’عدم اعتماد، خوف اور بدظنی کو ختم کرنا ہو گا۔ پاکستان میں بھارتی سرمایہ کاری کا خیرمقدم کریں گے، تعلقات 1999ء میں جہاں چھوڑے تھے وہیں سے شروع کرنا چاہتا ہوں، پاک بھارت حکومتوں کا مینڈیٹ نئے دور کے آغاز میں معاون ثابت ہو سکتا ہے، مسئلہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کا حل چاہتے ہیں‘‘۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک نقطۂ نظر ہے جسے مذکورہ سطور میں بیان کیا گیا ہے۔ جو لوگ اور حلقے اس نقطۂ نظر کے حامی ہیں وہ یقیناً ’’میاں، مودی ملاقات‘‘ سے پر امید اور اس ملاقات کو ضروری خیال کرتے تھے تاہم ہمارا تجزیہ یا نقطۂ نظر اس سے مختلف ہے۔ بلاشبہ رہنمائوں کی ملاقاتوں سے تعلقات پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں، پاک بھارت تعلقات میں ہمیشہ تنائو رہا ہے لہٰذا جب بھی بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم یا صدور مل پاتے ہیں تو ان ملاقاتوں کا بڑا چرچا ہوتا اور اہمیت رہتی ہے۔ نیویارک میں میاں، موہن ملاقات یا اب نئی دہلی میں میاں کی مودی کو مبارکباد کو بھارت اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں خصوصی توجّہ دی گئی تاہم یہ بھی ایک کڑوی حقیقت ہے کہ پاک بھارت تاریخ کے 66؍برسوں میں آج تک اعلیٰ سطح کے ایک سو مرتبہ سے زائد کے جو بھی رابطے، ملاقاتیں اور باضابطہ مذاکرات ہوئے وہ پاک بھارت کشیدگی کو دور کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ پاک بھارت تعلقات میں عدم اعتماد، خوف اور تنائو برقرار رہا حالانکہ معاہدہ شملہ سے اعلان لاہور تک کئی دستاویزات پر دستخط بھی ہوئے مگر یہ تمام دعوے اور معاہدے اس وقت تک قائم رہے جب تک پاکستانی رہنما مذاکرات کی میز پر موجود تھے، جوں ہی پاکستانی رہنما کمرے سے باہر نکلے اور بھارتی رہنما میڈیا کے سامنے ہوئے تو پھر بات وہی ہوئی کہ ’’بات کچھ بھی ہو، پرنالہ وہیں پر گرے گا‘‘ یعنی مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ رہے گا۔ اگر ہم بھارت کی پاکستان کے خلاف تین مرتبہ کی جارحیت، سقوط ڈھاکہ، بابری مسجد کی شہادت، گجرات کے مسلمانوں کا قتل عام، سیاچن گلیشئر، سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس اور دیگر کئی افسوسناک واقعات کو بھول بھی جائیں تو بھی مسئلہ کشمیر کو کیسے بھول سکتے ہیں کہ جو ہماری ’’شہ رگ‘‘ ہے اور وہ بھارت کے ’’ترشول‘‘ کی زد میں ہے۔ اسی طرح سے وہ پانی جو پاکستان کا حصّہ اور حق ہے اس کو روکنے کیلئے بھارت پاکستانی دریائوں پر ڈیم تعمیر کر کے اس ’’آب حیات‘‘ کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے تو اس کو بھی کیسے برداشت کر لیا جائے؟ لہٰذا یہ بات بڑی واضح ہے کہ جب تک مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے اور ’’آبی جارحیت‘‘ کو روکنے کیلئے بھارت واضح یقین دہانی نہیں کرا دیتا تب تک بھارتی رہنمائوں سے ملاقاتیں، مبارکبادیں اور جامع مذاکرات وغیرہ کی اصطلاحیں محض ایک دھوکہ اور بھارتی قبضہ و جارحیت کو دوام بخشنے کے مترادف ہو گا۔پاک بھارت بنیادی تنازعات کے دانش مندانہ اور مدبرّانہ حل کیلئے ضروری تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی کی حلف برداری کے بعد کابینہ کے پہلے اجلاس اور لوک سبھا میں بحیثیت وزیراعظم کے ’’پالیسی بیان‘‘ کا انتظار کیا جاتا۔ وہ اس دوران پاک بھارت تنازعات کے حوالے سے جو کچھ کہتے اس کا اسلام آباد میں مکمل جائزہ اور تجزیہ کرنے کے بعد مودی سرکار سے روابط اور ملاقاتوں کے بارے میں فیصلہ کیا جاتا لہٰذا ابھی انتظار کرنے کی ضرورت تھی۔ 26؍مئی کی میاں، مودی ملاقات درحقیقت قبل از وقت تھی کیونکہ اس ملاقات کے بعد برف پگھلنے کے بجائے بھارت کے ’’اٹوٹ انگ‘‘ کے مؤقف اور ’’آبی جارحیت‘‘ میں مزید سختی آ سکتی ہے۔ بھارت جب تک پاکستانی دریائوں پر ڈیموں کی تعمیر نہیں روکتا اور مسئلہ کشمیر یو این او کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کیلئے تیار نہیں ہو جاتا تب تک عدم اعتماد، بدظنی اور خوف کا موجود رہنا فطری بات ہے۔ ہم اس بات کا مکمل ادراک رکھتے ہیں کہ پاک بھارت کشیدگی جنوبی ایشیاء میں امن کیلئے بہت زیادہ نقصان دہ اور خطرناک ہے مگر کیا کیا جائے کہ اس نقصان دہ اور خطرناک صورت حال کی براہ راست ذمہ دار بھارتی قیادت ہے کیونکہ کانگریس سے بی جے پی تک جو بھی بھارتی سرکار آئی اس نے مسئلہ کشمیر اور دریائوں کے پانی کے ایشوز پر ناانصافی، ہٹ دھرمی اور جارحانہ عزائم پر مبنی پالیسی اختیار کی جس کے نتیجے میں پاک بھارت کشیدگی کو کم نہ کیا جا سکا۔ہم آخر میں بتاتے چلیں کہ بھارت کے ساتھ تجارت مقبوضہ کشمیر کے کروڑوں عوام کی آزادی کا بدل نہیں ہو سکتی اور نہ ہی بھارت سے آنے والے آلو، ٹماٹر اور پیاز اس پانی کے بحران کا کوئی متبادل ہو سکتے ہیں کہ جس کی وجہ سے پنجاب سے لے کر سندھ تک کے باغات خشک اور کھیت ویران ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ نئی دہلی اور کابل میں نو منتخب حکمرانوں کو اسلام آباد سے جس طرح کے خیرسگالی کے پیغامات اور غیر ضروری و قبل از وقت ملاقاتوں کے ذریعے تقویت پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ ہماری آزاد، غیر جانبدار اور خود مختار خارجہ پالیسی کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتی بلکہ امریکی ایجنڈے کے مطابق ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان، بھارت اور افغانستان کے حکمرانوں کیلئے ایک تر نوالہ بنا رہے مگر ایسا نہیں ہو گا۔ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی مملکت اور ملٹری و ایٹمی قوّت کا حامل اسٹیٹ ہے جو اپنے نظریئے و عقیدے سمیت جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت سے بخوبی آگاہ ہے۔ پاکستان کے عوام اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ آزادی، خودمختاری اور قومی سلامتی کے تحفّظ کو یقینی بنائے رکھنے کیلئے قربانیوں سے گزرنا اور چیلنجوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنا ہو گا جبکہ اس طرح کی صورت حال کا سامنا اور مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان کے عوام اور مسلّح افواج ہمہ وقت چوکس اور متوجّہ ہیں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ (آمین)