• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکادمی ادبیات پاکستان کے متعدد اغراض و مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کا مثبت چہرہ بین الاقوامی سطح پر اجاگرکیا جائےاور پاکستانی زبان و ادب کو جو ہماری تہذیب و ثقافت کے بہترین مظہر ہیں ، عالمی سطح پر اپنی پہچان کے طور پر پیش کیا جائے۔ اس مقصد کے تحت اکادمی کئی طرح کی سرگرمیاں سر انجام دیتی ہے جن میں پاکستانی ادب کا عالمی زبانوں میں ترجمہ کرنا اور دیگر ممالک کے ساتھ باہمی مفاہمت و اشتراک کے معاہدے کرنا شامل ہے۔ دوست ملک چین کی دو علمی و ادبی تنظیموں کے ساتھ ایسے معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں جنکے تحت چائنا رائٹرز ایسوسی ایشن اور چائنا ایسوسی ایشن فار انٹرنیشنل انڈر سٹینڈنگ کی جانب سےامسال مئی اور جون میں ہونے والی دو بین الاقوامی کانفرنسوں میں مجھے پاکستان کی نمائندگی کیلئے مدعو کیا گیا۔ان میں سے پہلی کانفرنس چین کے شمال مغربی صوبے گانسو کے ایک قدیم تاریخی شہر ڈُن ہوانگ میں منعقد ہوئی۔

صحرائے گوبی کے کنارے ، گنگناتی ہوئی ریت اور ہلال نما نخلستان جیسے امتیازی نشانات کا مالک یہ خطہ قدامت اور ابدیت کے وقار سے دمک رہا ہے ۔ اس شہر کی تاریخ دو ہزار سال قبل مسیح تک پہنچتی ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں یہ شہر تہذیب و ثقافت کا مرکز اور چین کی دہلیز کے طور پر معروف رہا ہے۔ قدیم دیوار چین جو قبل مسیح میں تعمیر کی گئی تھی اور قدیم شاہراہ ریشم جس کے ذریعے مختلف خطوں کے لوگ چین میں داخل ہوتے رہے، اس شہر کا تاریخی پس منظر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس شہر کو کم از کم چار مختلف تہذیبوں کا سنگم قرار دیا جاتا ہے۔

یہاں کا سب سے اہم اور مقبول سیاحتی مقام بدھ مت کی قدیم خانقاہیں ہیں جو ہزاروں سال سے قدیم غاروں میں قائم ہیں۔ ان غاروں میں بدھا اور ان کے ساتھیوں کے سینکڑوں سال پرانے قدیم مجسمے رکھے گئے تھے جن میں سے کچھ چوری ہو گئے اور کچھ چین کی حکومت نے حفاظت کے خیال سے عجائب گھروں میں سجا دیے۔اب ایک آدھ کے سوا ان غاروں میں رکھے گئے مجسمے تو اصلی نہیں ہیں لیکن چھتوں اور دیواروں پر بنے ہوئے نقش و نگار بالکل اصل ہیں۔ ان نقش و نگار میں تصویریں بھی ہیں اور تحریریں بھی۔ بدھ مت کے اخلاقی اصول اور احکامات، بدھا اور دیگر مذہبی پیشواؤں کے اقوال اور احکامات سے سجے ہوئے یہ غار ایک عجیب احساس سے دوچار کرتے ہیں۔ وقت کی برف پر اسکیٹنگ کرنے جیسا سانس روک لینے والا احساس۔

اس شہر کی قدامت، تہذیبی تنوع اور تاریخی اہمیت کے اعتراف میں چائنا ایسوسی ایشن فار انٹرنیشنل انڈر سٹینڈنگ نے کئی دیگر اداروں کے اشتراک سے یہاں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کر رکھا تھا۔ کانفرنس کا عنوان تھا 4th Dialogue on Exchanges and Mutual Learning among Civilizations۔ اس کانفرنس کیلئے پوری دنیا سے چار سو سے زائد مندوبین کو مدعو کیا گیا تھا۔ یہ مندوب چھ براعظموں کے ساٹھ ممالک سے تعلق رکھتے تھے اور انسانی تہذیب و معاشرت کے تنوع اور رنگا رنگی کی دلکش تصویر پیش کر رہے تھے، امریکہ، آسٹریلیا، یورپ، افریقہ، لاطینی امریکہ اور ایشیاکے متعدد ممالک کی نمائندگی یہاں موجود تھی۔ مندوبین کا تعلق بھی مختلف پیشوںاور دلچسپیوں سے تھا۔ کچھ ممالک کے سابق صدور اور وزرا ، کچھ کے موجودہ سینیٹر، پارلیمنٹ کے اسپیکر اور رکن ، صحافی، ادب و فن کے مختلف شعبوں سے وابستہ نامور شخصیات، مختلف ادبی و علمی اداروں کے سربراہان، شاعر، ناول نگار، محقق اور یونیو رسٹی کے اساتذہ اس رنگا رنگ اجتماع کا حصہ تھے۔

کانفرنس کی تقریبات کا آغاز ایک بینکوئٹ سے ہوا جس میں صوبہ گانسو کے گورنرنے بھی شرکت کی۔ اس شاندار بینکوئٹ کے بعد ایک یادگار کلچرل شو پیش کیا گیا جس میں جدید ترین ٹیکنالوجی اور روایتی ملبوسات میں موجود فنکاروں کے فن کے امتزاج سے اس علاقے کی تاریخ اور دیومالائی داستانوں کی ڈرامائی تشکیل کی گئی۔ فنی اور تکنیکی دونوں اعتبار سے یہ کلچرل شو چینی قوم کی تاریخ، تہذیب، ذوق اور نفاست کا آئینہ دار تھا۔ اگلے روز کانفرنس کا باقاعدہ افتتاح ہوا جس کی صدارت چین کے نائب صدرعزت مآب جناب ہان ژونگ نے کی ۔ افتتاحی اجلاس سے قبل چند ایک منتخب مندوبین کی نائب صدر سے خصوصی ملاقات کروائی گئی۔ مجھے بھی اس مختصر وفد میں شامل کیا گیا تھا۔ عزت مآب نائب صدر صاحب نےتمام مندوبین کو یقین دلایا کہ چین تہذیبی و ثقافتی تنوع کا احترام کرتا ہے اور دنیا بھر کی اقوام کے ساتھ مل کر انسانیت کی اجتماعی فلاح و بہبود کیلئے کوشاں ہے۔ چین اشتراک و تعاون کا خواہاں ہے اور ہرقسم کے تسلط اور غلبے کے خلاف ہے۔میںنے نائب صدر سے ملاقات کے دوران پاکستان کی حمایت پر شکریہ اداکیا جسے انھوں نے ایک فراخدلانہ مسکراہٹ سے قبول کیا۔ کانفرنس میں مختلف موضوعات کے اعتبار سے آٹھ متوازی سیشن ترتیب دیے گئے تھے ۔ ہر سیشن میں پندرہ بیس مقررین شامل تھے۔ ان میں غیر ملکی مندوبین کے ساتھ ساتھ چین کے مقامی ادیب، شاعر اور اسکالر بھی شامل تھے۔اس دورے سے یہ بات سامنے آئی کہ چین کی تہذیب و ثقافت نئی اور نودولتیہ تہذیب نہیں ہے بلکہ قدیم اور منفرد ہے اور ہمیشہ دیگر تہذیبوں سے میل جول استوار رکھتی رہی ہے۔ یہاں ہر چیز ہزاروں سال قدیم روایت کا تسلسل معلوم ہوتی ہے۔ چینی روایت پسند قوم ہونے کیساتھ ساتھ ، جدید ٹیکنالوجی میں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ آرٹ ہو یا ہنر، چین نے ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنی روایت کو بھی استحکام بخشا ہے اور مستقبل کیلئے بھی نئی راہیں تراشی ہیں ۔ چین کی پالیسی تعاون و اشتراک پر بنیاد رکھتی ہے اور تنوع اور رنگا رنگی کو یک رنگی میں بدلنے کی قائل نہیں۔عالم انسانیت کواسی فراخ دلی اور بلند حوصلگی کی ضرورت ہے۔

(مصنفہ چیئرپرسن اکادمی ادبیات پاکستان ہیں)

تازہ ترین