• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن اسٹیبلشمینٹ، بلوچستان، عبد الواحد کاکڑ سے بات چیت
ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن اسٹیبلشمینٹ، بلوچستان، عبد الواحد کاکڑ سے بات چیت

بات چیت: نسیم حمید یوسف زئی، فرّخ شہزاد

کرپشن کو بھی ایک لحاظ سے’’اُمّ الخبائث‘‘کہا جاسکتا ہے، کیوں کہ اِس سے بہت سی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ یہ اعلیٰ اقدار کی دشمن ہے، معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کردیتی ہے۔ یہ معاشرے میں چھوت کے مرض کی طرح پھیلتی ہے اور پھر ہر شعبۂ زندگی تباہ وبرباد کرکے رکھ دیتی ہے۔ 

جس طرح آکاس بیل درختوں کو جکڑ کر اُن کی زندگی چوس لیتی ہے، اِسی طرح اگر ایک بار کرپشن کسی صحت مند و توانا معاشرے میں داخل ہو جائے، تو ایک ادارے سے دوسرے ادارے تک جکڑتی چلی جاتی ہے۔

نتیجتاً آباد اور کام یاب اداروں میں کچھ عرصے بعد اُلّو بولنا شروع ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں انسدادِ بدعنوانی کے باقاعدہ ادارے موجود ہیں، مگر اُن اداروں کے اندر بھی کرپشن داخل ہو چُکی ہے، جس کی بڑی وجہ اداروں میں سیاسی مداخلت ہے۔ نیز، انسدادِ بدعنوانی کے لیے مقرّرہ افسران کو اپنی کارکردگی دِکھانے کی پوری طرح آزادی بھی حاصل نہیں۔

حکومتوں میں اُس عزم و ہمّت کا بھی فقدان ہے، جو کرپشن پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بدعنوانی کی روک تھام کے لیے جو نیم دِلانہ کوششیں کی جاتی ہیں، وہ مؤثر ثابت نہیں ہوتیں۔ گزشتہ دنوں اِسی حوالے سے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمینٹ بلوچستان کے ڈائریکٹر جنرل، عبدالواحد کاکڑ کے ساتھ ایک نشست ہوئی، جس میں اُنہوں نے بدعنوانی، اِس کی وجوہ اور انسداد سے متعلق تفصیلی اظہارِ خیال کیا۔

عکّاسی : رابرٹ جیمس
عکّاسی : رابرٹ جیمس

س: سب سے پہلے تو اپنی تعلیم اور کیریئر سے متعلق کچھ بتائیے؟

ج: مَیں نے 1999ء میں ایف ایس سی میں ٹاپ کر کے یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، ٹیکسلا میں داخلہ حاصل کیا۔ سِول انجینئرنگ کی تکمیل پر 2002ء میں بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے زیرِ اہتمام مقابلے کا امتحان پاس کر کے سرکاری ملازمت کا آغاز کیا۔

مختلف سرکاری محکموں میں فرائض انجام دئیے، جن میں محکمۂ خزانہ، سی اینڈ ڈبلیو اور دیگر شامل ہیں۔ سابق وزیرِ اعلیٰ کے ساتھ ڈائریکٹر ڈویلپمنٹ کے طور پر بھی کام کیا۔ علاوہ ازیں، ڈپٹی کمشنر کوئٹہ، لورالائی اور پشین کے طور پر بھی خدمات انجام دے چُکا ہوں۔

س: ڈی جی اینٹی کرپشن کے طور پر کب سے ذمّے داریاں سرانجام دے رہے ہیں اور کس نوعیت کی رکاوٹوں یا دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

ج: جنوری 2023ء سے بطور ڈی جی، اینٹی کرپشن فرائض سر انجام دے رہا ہوں۔ مجھے کسی بھی قسم کے دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ وزیرِ اعلیٰ میر سرفراز بگٹی اور چیف سیکرٹری کی جانب سے مکمل تعاون فراہم کیا جا رہا ہے۔

مَیں نے چارج سنبھالتے ہی تعلیم، صحت اور میٹرو پولیٹن کارپوریشن سمیت مختلف سرکاری محکموں، خاص طور پر ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن کے کیسز پر کام شروع کیا، کیوں کہ ترقیاتی اسکیمز سے متعلق کافی شکایات سامنے آ رہی ہیں کہ ٹھیکے داروں کو پیشگی ادائیاں کرنے کے باوجود کام ادھورا چھوڑ دیا گیا۔ ہم ٹیم ورک کے تحت کام کر رہے ہیں، جس کے بہترین نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔ مختلف حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ہمیں ماضی میں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ بلوچستان میں اینٹی کرپشن سے متعلق کوئی ادارہ بھی ہے۔

س: اینٹی کرپشن اسٹیبلشمینٹ کا دائرۂ اختیار کیا ہے؟

ج: اینٹی کرپشن اسٹیبلشمینٹ کا بنیادی مقصد بدعنوانی کے مقدمات کی چھان بین اور ابتدائی انکوائری کرنا ہے۔ یہ ادارہ، وزیرِ اعلیٰ اور چیف سیکرٹری کے انتظامی دائرۂ اختیار میں کام کرتا ہے۔ ادارے میں لیگل، ٹیکنیکل، ریسرچ ڈویلپمنٹ اینڈ ٹریننگ، مانیٹرنگ اینڈ ویجیلینس اور ایڈمنسٹریشن ونگز کام کر رہے ہیں۔

کُل منظور شدہ اسامیوں کی تعداد249ہے، جب کہ اِس وقت196اسامیوں پر افسران اور دیگر اہل کار کام کر رہے ہیں۔ 53خالی اسامیوں پر بھرتیوں کے لیے بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ٹیسٹ اور انٹرویوز کا سلسلہ جاری ہے۔ انسدادِ بدعنوانی کے لیے اِس کا دائرۂ اختیار جلد اضلاع تک وسیع کیا جائے گا، جس کے لیے پیپر ورک مکمل کرلیا گیا ہے۔

س: قومی احتساب بیورو(نیب) کی موجودگی میں اِس ادارے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی اور اِن دونوں اداروں میں سے کون زیادہ مؤثر انداز میں کام کررہا ہے؟

ج: نیب اپنے آرڈینینس کے تحت کام کر رہا ہے، جب کہ ہم اپنے ایکٹ 2011ء کے تحت سرگرم ہیں۔ ترامیم کے بعد وفاق اور صوبے میں نیب کا کردار کافی محدود ہوگیا ہے، لیکن وہ ادارہ بہرحال اپنے مینڈیٹ کے مطابق کام کر رہا ہے، جب کہ ہمارے نیب حکّام سے بہترین روابط بھی ہیں۔ باقاعدگی سے مشترکہ میٹنگز ہوتی ہیں، جن میں کیسز کی تفصیلات ایک دوسرے کے ساتھ ڈسکس کی جاتی ہیں۔

حال ہی میں نیب نے ایک ہاؤسنگ اسکیم کے کیس کی تحقیقات ہمیں ریفر کیں۔ اِسی طرح ہمارے پاس بھی کئی ایسے کیسز ہوتے ہیں، جن میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ وفاقی محکمے کا مینڈیٹ ہے، تو اُنہیں ایف آئی اے اور نیب کو منتقل کر دیتے ہیں، جیسے کہ مَنی لانڈرنگ کے کیسز۔ صوبائی اینٹی کرپشن کو منی لانڈرنگ کیسز کی تحقیقات کا اختیار نہیں ہے، ہم نے حکومت کو جو تجاویز پیش کی ہیں، اُس میں یہ اختیار دینے کی تجویز بھی شامل ہے۔

س: کس صوبے کے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمینٹ کے انفرا اسٹرکچر کو بہترین سمجھتے ہیں؟

ج: پنجاب میں اینٹی کرپشن اسٹیبلشمینٹ کا بہترین انفرا اسٹرکچر ہے۔حکومتی سطح پر ہم سے ری اسٹرکچرنگ کے لیے تجاویز طلب کی گئیں، تو ہم نے پنجاب طرز کے ڈھانچے ہی کو تجویز کیا ، جس کے تحت مختلف ونگز قائم کیے جائیں گے تاکہ مزید خود مختار طریقے سے کام کیا جا سکے۔

س: عام تاثر ہے کہ یہ محکمہ، بیورو کریسی کے رحم و کرم پر ہے اور اس کے ڈی جی کے تقرّر و تبادلے کا اختیار سیکرٹری ایس اینڈ جی ڈی کے پاس ہے، جس کے باعث آزادانہ طور پر کام نہیں ہوپاتا؟

ج: مَیں مکمل ذمّے داری سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ ڈی جی اینٹی کرپشن خود مختار اور ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہیں۔ یہ ادارہ براہِ راست وزیرِ اعلیٰ اور چیف سیکرٹری کے ماتحت ہے۔ تقرّریوں، تبادلوں کے نوٹی فکیشنز ایس اینڈ جی اے ڈی کی جانب سے ضرور جاری ہوتے ہیں، مگر کسی قسم کے دباؤ کا سامنا نہیں ہے۔

وزیرِ اعلیٰ سرفراز بگٹی نے جب عُہدے کا قلم دان سنبھالا، تو ہدایت دی کہ کرپشن کے خلاف کارروائی کا آغاز اُن کے حلقۂ انتخاب سے کیا جائے، کیوں کہ وہاں کئی ترقیاتی اسکیمز میں ایڈوانس پیمنٹس ہو چُکی تھیں، لیکن کام التوا کا شکار تھا۔ 

اِس پر ہم نے ڈیرہ بگٹی میں کرپٹ عناصر کے خلاف دو کیسز کیے۔ ڈیرہ بگٹی کی میونسپل کمیٹی میں دو کروڑ روپے کی کرپشن کی اطلاعات تھیں اور جب ہم وہاں پہنچے، تو پتا چلا کہ ہماری آمد سے قبل ہی وہ رقم سرکاری خزانے میں جمع کروائی جا چُکی تھی۔ ہم نے گزشتہ دو سالوں کے دَوران ریکارڈ کیسز کا اندراج کیا ہے۔

کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائیاں گراؤنڈ پر بھی نظر آ رہی ہیں اور ہمارے اقدامات کو عوامی حلقوں میں بھی بہت زیادہ پذیرائی مل رہی ہے۔ وقتاً فوقتاً اپنی ٹیم کے ہم راہ مختلف محکموں کا دَورہ کر کے ریکارڈ کا جائزہ لیتا ہوں تاکہ اُنہیں احساس ہو کہ اُن پر بھی چیک اینڈ بیلنس ہے۔ ہم اپنے دائرۂ اختیار میں آنے والے کیسز میں کوئی رعایت نہیں کرتے۔

س: کیا کرپشن کیسز پر کارروائی سے قبل اعلیٰ حکّام کو آگاہ کرنا یا کسی سے اجازت لینی پڑتی ہے؟

ج: ہمارے ادارے کے ایکٹ کے مطابق کرپشن کیسز کے خلاف کارروائی کے مختلف مراحل ہیں۔ کوئی محکمہ ہم سے شکایت کر سکتا ہے، پرائیوٹ شکایت کنندہ تحریری طور پر یا ایپلی کیشن کمپلینٹ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم یا ٹیلی فون پر اپنی شکایت درج کروا سکتا ہے۔

نیز، ہم اپنے سورسز کی رپورٹ پر بھی ایکشن لیتے ہیں، لیکن ہمارا دائرۂ کار زیادہ تر سرکاری افسران ہی سے متعلق ہے، جب کہ عام افراد کو بینفشری کے طور پر شاملِ تفتیش کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ حال ہی میں ہاؤسنگ اسکیمز کے خلاف کارروائی کی، جس کے بینفشری تو ہاؤسنگ اسکیمز کے مالکان تھے، لیکن اس میں سرکاری ادارے، کیو ڈی اے کے بعض افسران بھی ملوّث تھے۔

س: اپنے محکمے کے افسران اور اہل کاروں پر بھی چیک اینڈ بیلنس ہے؟

ج: جی بالکل۔ ادارے میں اندرونی احتساب کے لیے باقاعدہ کمیٹی قائم ہے، جو مؤثر چیک اینڈ بیلنس رکھتی ہے۔ حال ہی میں مجھے ایک کلرک سے متعلق شکایت ملی، جب تفتیش کی گئی، تو وہ سچ ثابت ہوئی کہ مذکورہ اہل کار میٹرو پولیٹن کارپوریشن دو مرتبہ گیا، لیکن اُس نے رشوت طلب کی یا نہیں، اِس سے متعلق علم نہیں، لیکن چوں کہ وہ بغیر اجازت گیا تھا، اِس لیے اُسے اپنے ادارے سے ریلیو کر کے اُس کے اصل محکمے میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی۔ 

ایک افسر کی جانب سے دو لاکھ روپے رشوت طلب کرنے کی شکایت ملی، جس پر تفتیش کر کے مذکورہ افسر کے خلاف سخت کارروائی کی گئی۔ کرپشن سے متعلق زیرو ٹالرنس ہے۔ اگر ہمارے ادارے کا کوئی بھی افسر یا اہل کار اختیارات سے تجاوز یا کسی کو ہراساں کرے گا، تو اُس کے ساتھ بھی کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔

س: حال ہی میں بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ میں مبیّنہ کرپشن کے خلاف کی گئی کارروائی کو عوامی حلقوں میں کافی پذیرائی ملی، تحقیقات کہاں تک پہنچی ہیں؟

ج: ہمیں شکایت موصول ہوئی تھی کہ اپنی مرضی سے امتحانی مراکز میں ردّ و بدل کیا جا رہا ہے، جس پر ایکشن لیا گیا۔ اینٹی کرپشن ٹیمز امتحانی مراکز کا دَورہ کرکے امتحانی عمل کا جائزہ لیتی رہیں۔ اِس دوران ایک بات یہ بھی سامنے آئی کہ بورڈ آفس کے بعض کرپٹ عناصر کی جانب سے ڈیٹیل مارک شیٹس فروخت کی گئیں۔ ڈویژن امپرو کے نام پر ڈیٹیل مارک شیٹ کے ذریعے میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز میں نشستیں حاصل کی گئیں۔

ہماری کارروائی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ حکومت کی جانب سے دیانت دار چیئرمین کا تقرّر کیا گیا، جس سے اُمید ہے کہ وہ اپنے ادارے میں اصلاحات کر کے اس کی کارکردگی میں بہتری لائیں گے۔ اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے کہ محنتی بچّوں، بچیوں کی حق تلفی کر کے پیسوں یا سفارش سے نااہلوں کے نمبرز بڑھا دئیے جائیں۔

س: دیکھنے میں آ رہا ہے کہ پکڑے جانے والے افسران کچھ عرصے بعد ہی بحال ہو کر دوبارہ اپنی پوسٹس پر براجمان ہو جاتے ہیں، تو کیا اِس سے احتسابی عمل پر سوالات نہیں اُٹھتے؟

ج: مَیں نے اِس حوالے سے متعلقہ محکموں کے افسران کو بتایا ہے کہ بیڈا ایکٹ کے تحت جو بھی افسر یا اہل کار گرفتار ہو، کیس کے فیصلے تک وہ معطّل رہتا ہے، لہٰذا جن سرکاری ملازمین کے کیسز زیرِ تفتیش ہوں، اُنہیں عُہدے سے ہٹا دیا جائے۔

چیف سیکرٹری نے سیکرٹریز کمیٹی کی میٹنگ میں اِس معاملے کو ایجنڈے کے طور پر رکھا۔ مَیں نے جب سے چارج سنبھالا ہے، زیرِ تفتیش افسران معطّل ہیں۔ محکمہ اینٹی کرپشن کی مسلسل کارروائیوں کے نتیجے میں سرکاری حکّام میں تھوڑا بہت خوف ضرور پیدا ہوا ہے۔

س: سرکاری اہل کاروں کی گرفتاریوں کی خبریں تو سامنے آتی ہیں، کیا بااثر سیاسی شخصیات، وزرا اور ارکان پارلیمان کے خلاف بھی کوئی ایکشن لیا گیا؟

ج: ہم کسی دباؤ کے بغیر، بلاامتیاز کارروائیاں کرتے ہیں۔ ہمارے نمایاں مقدمات میں سابق چیئرمین ٹیکسٹ بُک بورڈ کے خلاف بدعنوانی کا مقدمہ شامل ہے، جب کہ سابق وزیرِ کھیل سمیت محکمۂ پولیس کے اعلیٰ افسران کے خلاف بھی بدعنوانی کا مقدمہ درج کیا گیا۔ 

محکمے نے 2024ء میں36انکوائریز کیں، 2019میں 14، 2020ء میں 17،2021ء میں سب سے کم صرف 5،2022ء میں14اور سال 2023ء میں 23انکوائریز کی گئیں۔ 2024ء میں سب سے زیادہ 19مقدمات درج کر کے کیس فائل کیے گئے۔2025ء میں 13کیسز پر تحقیقات کر رہے ہیں، جب کہ 4مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

س: مختلف حلقوں میں ایک ہی ترقیاتی منصوبے پر ایم این اے، ایم پی اے اور سینیٹر کے فنڈز خرچ ہوتے ہیں، کیا اس کرپشن کا بھی کوئی نوٹس لیا گیا؟

ج: ترقیاتی منصوبوں پر کام کا مینڈیٹ پی اینڈ ڈی کا ہے، جو بھی پی سی وَن آتا ہے، وہ اُسی کے توسّط سے آتا ہے، پیسے بھی پی اینڈ ڈی ہی کے ذریعے محکمۂ خزانہ ریلیز کرتا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اِس طریقۂ کار کو اسٹریم لائن کرنے کی ضرورت ہے۔

س: بلوچستان کی پس ماندگی کی بڑی وجہ کرپشن کو قرار دیا جاتا ہے، آپ چاروں صوبوں کے لحاظ سے بلوچستان کو کون سا نمبر دیں گے؟

ج: کرپشن تو پورے مُلک کا مسئلہ ہے اور دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی یہ ناسور جڑیں پکڑ چُکا ہے اور مختلف محکموں میں کرپشن سے انکار بھی ممکن نہیں۔ اگر صوبے میں کرپشن ہو رہی ہے، تو ہم برق رفتاری سے اس کے تدارک کے لیے کام بھی کر رہے ہیں۔

س: انسدادِ بدعنوانی سے متعلق کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

ج: ہر عمل جو قانونی، سماجی، معاشرتی، اخلاقی اور مذہبی قوانین و ضوابط سے ہٹ کر ہو، وہ کرپشن کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ ایک خاص قسم کی چُھوت کی بیماری ہے، جو بڑھتی ہوئی پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔بدعنوانی، منظّم جرائم اور دہشت گردی کے فروغ کا بھی باعث ہے۔

ہمارے معاشرے میں کرپشن کی جڑیں اِس قدر مضبوط ہو چُکی ہیں کہ اب اِسے بُرائی ہی نہیں سمجھا جاتا۔ رشوت کو حق اور ملاوٹ کو کاروبار سمجھ لیا گیا ہے۔ اِن جڑوں کو کاٹنے کی اشد ضرورت ہے اور نوجوان، بالخصوص مِڈل کلاس کرپشن کے خاتمے کے لیے کافی متحرّک بھی ہے، لیکن اِس مقصد کے لیے سب کو انسدادِ بد عنوانی کے اداروں سے تعاون کرنا ہوگا۔