• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جاپان اور چین کے درمیان بھی امن کی آشا کی ضرورت

مفکرین کا کہنا ہے کہ تعلقات بننے میں برسوں لگتے ہیں جبکہ بگڑنے میں چند لمحے ہی کافی ہیں اس لئے ضروری ہے کہ کسی کے بھی ساتھ دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے اقدام کئے جائیں یہ تعلقات دو افراد کے درمیان بھی ہو سکتے ہیں اور دو قوموں یا ملکوں کے درمیان بھی ہوسکتے ہیں تاہم جب دو ملکوں کے درمیان اگر تعلقات میں کشیدگی بڑھ جائے تو عالمی امن خطرے میں پڑ سکتا ہے، اس حوالے سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ موجودہ حالات میں جاپان اور چین میں کشیدگی بڑھتی جارہی ہے، یہ کشیدگی اس وقت سے بڑھتی چلی آرہی ہے جب سے چین کی جانب سے،جاپانی ملکیت کے دعویدار جزیروں کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہوئے وہاں سے قدرتی تیل و گیس حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاہم اس کشیدگی میں اس وقت اضافہ دیکھا گیا جب چند برس قبل جاپان اور چین کے سمندری حدود میں واقع غیرآباد جزائر پر حق ملکیت کے دعوے کے تحت پہلے دو جاپانی اس جزیرے پر اترے جس کی خبر عالمی میڈیا پر آتے ہی کئی چینی باشندے بھی اس جزیرے کو اپنی ملکیت ثابت کرنے کے لئے کشتیوں میں ان جزیروں کی طرف چل دیئے ۔یاد رہے کہ یہ غیر آباد جزیر ے دونوں ملکوں کی ملکیت نہیں بلکہ نجی ملکیت ہیں، اطلاعات یہ ہیں کہ ان دونوں جزیروں کو حکومت جاپان نے دو کروڑ 60لاکھ ڈالر میں خریدنے کی منظوری دے دی ہے۔ خریداری کے اس سودے کی اطلاع آتے ہی جاپان اور چین میں مزید تنائو دیکھا جارہا ہے۔ ان جزائر کے متعلق زمینی سروے کرنے والی مختلف کمپنیوں کا کہنا ہے کہ یہ جزائر معدنی دولت اور گیس کے ذخائر سے مالا مال ہیں اس لئے چین اور جاپان دونوں ہی اس سے دستبرداری کے لئے تیار نظر نہیں آتے بلکہ خطرہ تو یہاں تک بڑھ گیا ہے کہ کہیں دونوں ملک اس چھپی دولت کو حاصل کرنے میں تصادم کی راہ نہ اختیار کر لیں،جاپان اور چین کے درمیان زمینی راستہ نہیں ہے بلکہ دونوں کے درمیان سمندر حائل ہے۔ ان جزائر کو جاپانی Senkako کے جبکہ چین میں Diaoyuکے نام سے یاد کرتے ہیں، جاپان اور چین کے درمیان تعلقات میں نشیب وفراز کی بڑی طویل تاریخ ہے دونوں ملکوں کے درمیان سمندر کی ایک پٹی ہے جس نے دونوں کو زمینی طور پر جدا کر رکھا ہے مگر دونوں ملکوں کے تعلقات بارہا دوستی سے دشمنی اور دشمنی سے دوستی کی طرف آتے جاتے رہے۔ 1960 میں چین اور جاپان کے تعلقات اس وقت قائم ہوئے جب اچانک روس نے چین سے تعلقات خراب ہونے کی وجہ سے اپنے تمام ماہرین کو واپس بلا لیا۔ روسی ماہرین کے چلے جانے کے بعد چین کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ جاپانی ماہرین کی خدمت حاصل کرے چین نے جاپان سے تعلقات بہتر بناتے ہوئے جاپانی ماہرین کو طلب کر لیا۔ اس سلسلے میں بڑا قدم لیونا کاساکی معاہدہ تھا جس کے بعد جاپان نے چینی صنعتی ترقی کے لئے مالی معاونت فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی ۔ اس طرح پہلی مرتبہ چین کو ٹوکیو میں اپنا تجارتی مشن کھولنے کی اجازت دی گئی۔ 1972 میں دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے ۔ مائوزے تنگ کی وفات کے بعد چین میں اصلاحات کا آغاز ہوا دیگر ممالک سے اقتصادی روابط بڑھے تو چین اور جاپان بھی قریب تر ہوگئے کیونکہ اصلاحات کے بعد چین میں نجی ملکیت کے کاروبار کو ترقی ملی تھی اور اس میں جاپانی سرمایہ کار سب سے آگے تھے۔1972 میں چین اور جاپان کے درمیان مختلف جزائر پراختلافات کو ختم کر کے امن دوستی کا معاہدہ ہوا اس معاہدے پر اس وقت کے چینی رہنما ڈینگ ژیانگ اور جاپانی وزیر اعظم فوکوداتاکٹو نے دستخط کئے اور یوں ایشیاء کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان پرانی دشمنی دوستی میں بدل گئی ۔
چین اور جاپان کے درمیان دوستی کا معاہدہ 2014 میں ایک مرتبہ پھر نازک صورت حال سے دوچار ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے شہری حق ملکیت کے دعوے کو یقینی بنانے کے لئے غیر آباد جزائر کو آباد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں پہلے ان جزائر پر جاپانی پہنچے تو اب چینی بھی روانہ ہو گئے۔ جاپان اور چینی باشندوں کی جانب سے ان جزائر پر قبضے سے کیا صورت سامنے آئے گی اس حوالے سے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ذرا سی غلطی چین کے مشرقی سمندر میں آگ لگا سکتی ہے۔ ان جزائر پر کشیدگی حقیقت میں اس وقت شروع ہوئی جب ٹوکیو کے گورنر شنتارو اشیہار نے ایک موقع پر کہا کہ یہ جزائر وہ عوام کے پیسے سے خرید لیں گے ۔ٹوکیو کے گورنر کے اس بیان پر چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جزیروں سے متعلق جو بھی پیشرفت ہو رہی ہے اس پر چین کی گہری نظر ہے چین کے اس بیان کے بعد جاپانی سرحدی حفاظتی دستوں نے علاقے کی سیکورٹی میں اضافہ کر دیا۔ جاپانی سیکورٹی فورسز کا ساتھ ہی یہ بھی کہنا تھا کہ وہ سماجی کارکنوں کی جانب سے متعلقہ جزائر میں داخلے کو روکیں گے اور اس بات کا خیال رکھا جارہا ہے کہ کوئی تصادم نہ ہو یعنی جاپان ان جزائر پر کسی بھی ملک کے شہریوں یا سماجی کارکنوں کو جانے کی اجازت نہیں دے گا۔جاپان کی جانب سے ان جزائر پر سیکورٹی رکھنے کے اعلان کے ساتھ ہی چین نے بھی خبردار کیا ہے کہ وہ اپنی خودمختاری میں کسی کی مداخلت قبول نہیں کرے گا۔مشرقی بحیرہ چین میں متنازع جزائر کے معاملے پر جاپان کو خبردار کرتے ہوئے چین کے نائب صدر اور کمیونسٹ پارٹی کے ممکنہ سربراہ شی جیننگ نے کہا کہ جاپان اپنا رویہ درست کرے اور چین کی خود مختاری میں مداخلت نہ کرے۔ انہوں نے متعلقہ جزائر کی خریداری کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب رنجش بڑھے تو لوگ اچھے وقت کو جلد بھول جاتے ہیں اور پرانے زخم ہرے ہوجاتے ہیں جاپان کی جانب سے متنازع جزائرکو خریدنے کے اعلان کے بعد جاپان اور چین کے درمیان پرانی دشمنی کے زخم ہرے ہوگئے اور 1931 میں جاپان کی جانب سے چین کے شمال مشرقی حصے پر قبضے کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے بعض شہروں میں جاپانی سرمایہ کاروں کی املاک اور کاروبار پر حملے ہوئے۔ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین نے بیجنگ میں جاپان کے سفارتخانے کے باہر مظاہرہ کیا اطلاعات کے مطابق سفارتخانے کو جزوی نقصان بھی ہوا جس پر جاپان نے چین سے اس نقصان کے ازالے کا مطالبہ کیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ چینی حکام اپنے شہریوں کو اشتعال انگیز کارروائیوں سے روکنے کی کوشش کرتے رہے تاہم اطلاعات یہ بھی تھیں کہ کئی شہروں میں مظاہروں پر پابندی لگا دی گئی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا جاپان اور چین کی اعلیٰ قیادت متنازع جزائر پر حق ملکیت کا دعویٰ امن کی خاطر ترک کردیں گے یا پھر کشیدگی میں اضافہ کرنے کا موجب یہ جزائر بنیں گے۔ ان تمام واقعات میں سب سے مایوس کن کردار امریکہ کا رہا ہے۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد جاپان پر امریکیوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ جاپانی اپنے ہر معاملے اور معاہدے میں ایک طویل عرصے تک امریکیوں کی مداخلت برداشت کرتے رہے خصوصاً جغرافیائی لحاظ سے جاپان کی فوجی ضرورت کو امریکہ نے اپنی ضرورت سمجھا مگر اب اچانک امریکی رویّے میں آنے والی تبدیلی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ امریکہ خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت سے خوفزدہ ہے اور اس حوالے سے وہ چین سے کسی قسم کا ٹکرائو یا کشیدگی بڑھانے کے حق میں نہیں،جس کے بعد جاپانی تھنک ٹینک مستقبل میں ایک خودمختار ملک کے طور پر طاقتور دفاع کی پالیسی اپنانے کا بھی جائزہ لے رہا ہے کیونکہ ایک طاقتور ملک ہی اپنا بہترین دفاع کر سکتا ہے۔
تازہ ترین