• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لوگ کہتے ہیں جب صبح کی کرن پنجاب کے کسی دورافتادہ گاؤں کی چھت پر پڑتی ہے، جب کوئی ماں اپنی بیٹی کو اسکول بھیجنے سے پہلے اس کے بال سنوارتی ہے، جب کوئی کسان دھوپ کی پہلی لکیر پر ہل سنبھالتا ہے… تو وہ جانتے ہیں، کہیں نہ کہیں، اس دھرتی پر ایک عورت نے ان کے دن کو آسان کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔یہ کوئی عام دن نہیں ہے، نہ ہی کوئی عام حکومت۔ یہ وہ لمحہ ہے جب پنجاب کی گلیوں میں امید کی ہلکی سی جھنکار سنائی دیتی ہے، جب فصیلوں کے اندر سیاست نہیں، خدمت کی بازگشت گونجتی ہے۔

مریم نواز کی قیادت میں پنجاب کی حکمرانی ایک نیا طرزِ حکمرانی بن چکا ہے، جہاں بجٹ کا ہر ہندسہ ایک انسانی زندگی کو چھونے کی آرزو رکھتا ہے۔کبھی پنجاب کے کسان کو بیج کے لیے قرضہ لینا پڑتا تھا، تو وہ خود کو سائل سمجھتا تھا۔ آج جب اسے’’پنجاب کسان کارڈ‘‘ کے ذریعے بلاسود قرض ملتا ہے، تو وہ خود کو عزت دار شہری محسوس کرتا ہے۔ گرین ٹریکٹر اسکیم، شمسی ٹیوب ویل، اور جھینگا مچھلی کی کاشت جیسے جدید اقدامات، کسان کے لیے صرف فصل کی بہتری نہیں، خودی کی بحالی ہیں۔اسی پنجاب میں، جہاں دیہاتی بچوں کے لیے تعلیم محض ایک خواب تھی،’’ہونہار اسکالرشپ‘‘نے ان کے بستوں میں خواب رکھ دیے ہیں۔ جہاں کبھی شام کو چراغ تلے صرف سناٹا ہوتا تھا، وہاں اب سولر لائٹس کی روشنی میں طلباء مستقبل لکھتے ہیں۔ اور جب کوئی نوجوان ای بائیک پر سوار ہو کر انٹرن شپ کے لیے نکلتا ہے، تو وہ ایک نئی معیشت کا سفر شروع کرتا ہے۔اور پھر صحت… جہاں کبھی کلینک تک پہنچنا ایک مریض کی آخری امید ہوتی تھی، اب ’’کلینک آن ویلز‘‘ مریضوں تک پہنچتے ہیں۔ پہاڑی راستوں، ویران بستیوں، اور ان سڑکوں پر جہاں کبھی صرف خاموشی چلتی تھی، اب دوا، ہمدردی اور علاج سفر کرتے ہیں۔

لاہور میں جدید کینسر اسپتال اور سرگودھا میں کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ صرف عمارتیں نہیں، یہ انسانیت کی جیت ہیں۔یہ ترقی صرف بلڈوزر سے سڑکیں ہموار کرنے کا نام نہیں۔ یہ وہ سماجی انقلاب ہے جس میں معذور کیلئے’’ہمّت کارڈ‘‘، اقلیت کے لیے’’اقلیت کارڈ‘‘، بیٹی کیلئے’’دھی رانی اسکیم‘‘، اور بے گھر کیلئے’’اپنی چھت، اپنا گھر‘‘جیسی پالیسیاں بنی ہیں۔ یہ وہ فلاحی نظم ہے جہاں ریاست ماں کی طرح ہر فرد کے دکھ میں شریک ہے۔یہ صرف ایک انتظامی سہولت نہیں — یہ بیوروکریسی کی غلام گردشوں سے عوام کو آزاد کرنے کی علامت ہے۔ اب شناختی کارڈ یا ڈومیسائل کیلئے قطاروں میں کھڑے ہونا ماضی کی بات ہے۔ اب ریاست دروازے پر آتی ہے، احترام کے ساتھ، شفقت کے ساتھ۔

ماحولیات کے حوالے سے جب پنجاب کی فضاؤں میں زہر گھل رہا تھا، تب’’اسموگ کنٹرول یونٹس‘‘ اور’’گرین کریڈٹ فنڈ‘‘ جیسے اقدامات نے نئی ہوا کی نوید دی۔سیکریٹری ماحولیات پنجاب اس کیلئے مبارک بادکے مستحق ہیں ۔ صاف پنجاب مہم نے شہروں کے چہروں کو نکھارا، اور ایکو بسیں اور ای بائیکس نے سفری سہولتوں کو جدید رنگ دیے۔ادب کے فروغ کیلئے بھی کام جاری ہے ،مجلس ترقی ادب کا بجٹ ایک کروڑ اسی لاکھ سے بڑھا کر چھ کروڑ کردیا گیا ہے ۔ بیس جلدوں پر مبنی لاہور نمبر بھی شائع کیا جارہا ہے۔پنجاب کی ثقافت، زبان، اور ورثے پر بھی توجہ دی جارہی ہے۔ لاہور ہیرٹیج اتھارٹی کے ذریعے ماضی کی شاندار داستانوں کو محفوظ کیا جا رہا ہے۔ پنجابی زبان و ادب کیلئے پالیسی سطح پر کام ہو رہا ہے، تاکہ یہ دھرتی صرف ترقی نہ کرے، اپنے ثقافتی رنگ بھی سلامت رکھے۔

ٹیکنالوجی کے محاذ پر، جب دنیا ڈیجیٹل کی طرف بڑھ رہی ہے، تو پنجاب بھی پیچھے نہیں۔ نواز شریف آئی ٹی سٹی اور جدید تربیتی کورسز نوجوانوں کو عالمی سطح کے مقابلے کیلئے تیار کر رہے ہیںاور عورت جو کبھی صرف چار دیواری کی دیواروں میں قید تھی، اب’’میری آواز‘‘پلیٹ فارم کے ذریعے اپنی عزت، اپنی حفاظت اور اپنی خودی کی نئی تعریف لکھ رہی ہے۔

یہ سب کچھ شاید کسی بجٹ تقریر یا انتخابی منشور میں خوبصورت الفاظ کی صورت لگے، مگر اصل میں یہ ان گنت کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ ایک بیٹی کی جو تعلیم پانے لگی ہے۔ ایک ماں کی جو دوا کی امید سے جی رہی ہے۔ ایک مزدور کی جو بائیک پر سواری کرتا ہے۔ ایک طالبعلم کی جو رات کی روشنی میں خواب لکھ رہا ہے۔

یہ سب بتاتے ہیں کہ مریم نواز صرف ایک سیاستدان نہیں، ایک خواب ہے — جو ہر صبح کسی گاؤں کی دہلیز پر بیدار ہوتا ہے، اور ہر شام کسی بزرگ کی دعا میں سمٹ جاتا ہے۔مگر اس کے باوجود، عوامی سطح پر مسلم لیگ (ن) کی وہ مقبولیت واپس نہیں آ سکی جو کسی زمانے میں اس جماعت کا طرۂ امتیاز تھی۔اس کا سبب فقط کارکردگی کا نہ ہونا نہیں — بلکہ اصل معاملہ’’بیانیے‘‘ کا ہے۔آج کا ووٹر محض سڑک یا اسکیم سے متاثر نہیں ہوتا۔ماضی میں نون لیگ کا بیانیہ’’ووٹ کو عزت دو‘‘تھا — ایک جراتمندانہ عوامی نعرہ، جو باشعور شہری کے دل کو چھو گیا تھا۔ مگر وقت کے ساتھ اس بیانیے کی سمت تبدیل ہوئی، شدت کم ہوئی یا مبہم ہو گئی، اور اس تبدیلی نے اس باشعور ووٹر کو الجھن میں ڈال دیا جو اب لفظوں نہیں، موقف اور مزاج کو جانچتا ہے۔یہ وہ دور ہے جہاں عام شہری، جو پہلے صرف روٹی اور بجلی کے مسئلے میں گھرا ہوتا تھا، اب آئین، جمہوریت، عدلیہ اور انسانی حقوق پر بھی سوال اٹھاتا ہے۔

عوام کی یہ فکری بیداری ہی وہ چیلنج ہے جس کا سامنا مسلم لیگ (ن) کو آج کرنا پڑ رہا ہے۔ ترقیاتی منصوبے اس وقت سیاسی سرمایہ بنتے ہیں، جب وہ ایک مضبوط، واضح، اور عوامی جذبات سے ہم آہنگ بیانیے کے ساتھ جُڑے ہوں۔ بصورت دیگر، وہ صرف فائلوں میں درج کامیابیاں بن کر رہ جاتے ہیں۔سو صرف کام ہی کافی نہیں ،پرویز رشید ، عطاالحق قاسمی اور شعیب بن عزیز جیسے لوگ بھی ضروری ہیں۔

تازہ ترین