میرے ایک دوست کو اخبارات پڑھنے کا بہت چسکا تھا جسکے نتیجے میں وہ پاگل ہو گیا ہے اور اسکے ذہن میں عجیب طرح کے خوف اور واہمے جمع ہو گئے ہیں۔ ایک دن وہ میرے پاس آیا تو بہت گھبرایا ہوا تھا۔کہنے لگا ’’مجھے کچھ ہو گیا ہے۔‘‘میں نے کہا ’’کیا مطلب؟‘‘بولا ’’کوئی ایک ہو تو بتائوں۔ میں جب اپنے گھر کی گھنٹی بجاتا ہوں اور اگر اندر سے چند منٹ تک جواب نہ ملے تو میرا ذہن وہ تمام کہانیاں تیار کرنے لگتا ہے جو روزانہ شہ سرخیوں کے ساتھ اخبارات میں شائع ہوتی ہیں۔ میں تصوراتی طور پر دیوار پھاند کر گھر میں داخل ہوتا ہوں تو مجھے ٹی وی لاؤنج میں اپنے بچے خون میں لت پت نظر آتے ہیں۔ ان کی گردنیں تن سے اسی طرح جدا ہوتی ہیں جیسے اخباروں میں چھپی ہوئی تصویروں میں دکھایا گیا ہوتا ہے۔ میں چیختا ہوا گھر سے باہر نکل جاتا ہوں۔ اہل محلہ مجھے دلاسہ دیتے ہیں۔ پھر اگلے روز کے اخبارات کی سرخیاں مجھے یاد آتی ہیں جب سات جنازے اکٹھے اُٹھے تو کہرام مچ گیا۔ برابر برابر پڑی ہوئی سات لاشوں کی تصویر بھی چھپی ہوتی ہے۔ بین کرتی ہوئی عورتوں میں کسی خوش شکل خاتون کو آہ و زاری کرتے دکھایا جاتا ہے۔‘‘ ’’دو منٹ دروازہ نہ کھلنے پر تمہارا یہ حال ہو جاتا ہے تم پاگل تو نہیں ہو گئے؟‘‘ ’’میں تمہیں اپنے پاگل پن کا حال ہی تو بتا رہا ہوں۔ میری بیٹی ایک دن کالج سے شام تک گھر واپس نہ پہنچی تو میں نے محسوس کیا جیسے اس کی لاش اگلے روز سڑک پر پڑی ملی ہے۔ اس کی جیب سے جو شناختی کارڈ برآمد ہوا تھا اس میں لگی تصویر اخبار میں شائع ہوئی تھی۔ ساتھ رپورٹر کی تفصیلی کہانی تھی جس کے مطابق اسے چند روز پیشتر ایک نامی گرامی اسمگلر کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔ میری بیٹی کی خالہ کے متعلق اس شبے کا اظہار کیا گیا کہ وہ بدکردار خاتون ہے اور میری بیٹی کی اس اسمگلر سے ملاقات اس خالہ کی وساطت سے ہوئی تھی۔‘‘ ’’یار تمہاری دماغی حالت تو واقعی قابل رحم ہے۔‘‘’’میں تم سے رحم کی بھیک مانگنے نہیں آیا۔ میں نے اخباروں میں مظلوموں کی کہانیاں اتنی وافر تعداد میں پڑھی ہیں کہ ہر وقت مریضوں میں رہنے والے ڈاکٹروں کی طرح میں بھی بے حس ہو گیا ہوں۔ چنانچہ نہ اب مجھے خود پر رحم آتا ہے اور نہ کسی دوسرے پر۔ جب ظلم کی داستانیں بے نتیجہ شائع ہوں تو پڑھنے والے سنگدل ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا تم اپنی رحم دلی اپنے پاس رکھو۔‘‘’’چلو چھوڑو اس بات کو کہ کون غلط ہے کون صحیح ہے۔ سچ اور جھوٹ سب گڈمڈ ہو کر رہ گئے ہیں۔ میں تمہیں بتا رہا تھا کہ بعض اخباروں کی چنگھاڑتی ہوئی سرخیوں نے مجھے پاگل کر دیا ہے۔ میں جب پولیس کی موبائل گاڑی دیکھتا ہوں تو خوف سے میرا رنگ پیلا پڑ جاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے ابھی پانچ چھ سپاہی گاڑی سے اُتریں گے اور مجھے رائفل کے بٹ مارتے ہوئے وین میں بٹھا کر تھانے لے جائیں گے اور اگلے روز میری تصویر کے ساتھ اخبار میں خبر چھپی ہوگی کہ مجرموں کے گروہ کا ایک اور سر کردہ رکن گرفتار کر لیا گیا۔‘‘ ’’مجھے تمہاری بات کی سمجھ نہیں آئی۔ جب تم نے کبھی کوئی جرم نہیں کیا تو پھر تمہیں یہ خوف کیوں ہے؟‘‘’’تم عجیب آدمی ہو کیا تم اخبار میں آئے دن یہ خبر نہیں پڑھتے کہ فلاں ملزم کی گرفتاری کے بعد اس کی جیب سے ٹیلی فون ڈائری برآمد ہوئی جس میں درج ناموں کو شامل تفتیش کر لیا گیا ہے۔ عنقریب ہولناک انکشاف ہوں گے۔‘‘’’مجھے واقعی تمہارے بارے میں تشویش شروع ہو گئی ہے۔‘‘’’تم اپنی تشویش اپنے پاس رہنے دو۔ فی الحال صرف میری بات سنو۔ ایک اور وہم مجھے دن بدن ہلکان کیے جا رہا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کسی دن سوتے میں مجھے ہارٹ اٹیک ہو اور میں اپنے بستر پر مردہ پایا جاؤں۔ اس خیال کے ذہن میں آتے ہی ایک پوری فلم میرے دماغ میں چلنے لگتی ہے۔ صبح کے اخبار میں سرخی چھپی ہوتی ہے۔ فلاں ابن فلاں اپنے بستر پر پراسرار طور پر مردہ پائے گئے۔ساتھ تصویر جس میں میری گردن ایک طرف کو ڈھلکی ہوگی۔ اگلے روز کرائم رپورٹر کی اسٹوری شائع ہوتی ہے کہ محلے داروں سے پتا چلا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان ایک عرصے سے چپقلش چلی آ رہی تھی۔ انہیں کئی دفعہ اونچی آواز میں جھگڑتے بھی سنا گیا۔ شواہد سے پتا چلتا ہے کہ مرحوم کو زہر دیا گیا اس خبر کے بعد میرے بیٹے اپنی ماں کے خلاف ہو جائیں گے۔ میری بیوہ کو بلیک میل کریں گے۔ وہ اس سے....‘‘’’بس کرو خدا کیلئے بس کرو۔ تمہاری بیماری خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ اب تمہارا علاج ضروری ہے۔ چلو میں تمہیں کسی ماہر نفسیات کے پاس لے چلوں۔‘‘’’صرف مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جانے سے بات نہیں بنے گی۔ تم سروے کرا کر دیکھ لو میری طرح لاکھوں لوگ اس نوع کی ذہنی بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔‘‘’’لیکن مجھے تو تم سے دلچسپی ہے۔ اُٹھو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔‘‘’’تمہیں صرف مجھ سے نہیں بلکہ پوری قوم سے دلچسپی ہونی چاہیے۔ اگر قوم اسی طرح ذہنی طور پر مفلوج ہوتی گئی تو پاکستان دشمنوں کیلئے تر نوالہ بن جائے گا۔ تمہیں مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی ضرورت نہیں۔ میں تمہیں چند رپورٹوں، فیچر رائٹروں اور چند ایڈیٹروں کے ایڈریس دیتا ہوں۔ ہو سکے تو انہیں کسی ماہر نفسیات کے پاس لے جائو۔‘‘