سامنے سے اچانک ایک کار آ جانے پر میں نے اپنے بچاؤ کیلئے موٹر سائیکل کا رُخ بائیں جانب کی ایک لین (Lane) کی طرف موڑ دیا جہاں مٹی میں دبے ہوئے ایک بڑے پتھر کا اُبھار مجھے لٹانے کیلئے غالباً پہلے سے میرا منتظر تھا۔ چنانچہ موٹر سائیکل نے ایک پلٹا کھایا اور میں، میری وائف اور میرا چھوٹا بیٹا علی بڑے اہتمام کے ساتھ پتھریلی سڑک پر آن گرے۔ یہ دیکھ کر چند راہ گیر آگے بڑھے ایک نے علی کو گود میں اُٹھایا دوسرے نے موٹر سائیکل کو سیدھا کر کے سٹینڈ پر کھڑا کیا اور باقی ہماری خیریت دریافت کرنے لگے کہ زیادہ چوٹ وغیرہ تو نہیں آئی۔ علی اس اچانک حادثے کی وجہ سے گھبرا گیا تھا۔ چنانچہ وہ خوفزدگی کے عالم میں مسلسل روئے جا رہا تھا۔ میں نے بیگم سے اسکی خیریت دریافت کی۔ وہ بالکل ٹھیک تھی۔ میں نے اپنے آپ کو ٹٹولا اور خدا کا شکر ادا کیا کہ مجھے بھی خراش تک نہیں آئی تھی بلکہ میرے لئے یہ امر حیرت انگیز تھا کہ پوری قوت سے زمین پر گرنے کے باوجود موٹر سائیکل بھی پوری طرح محفوظ و مامون تھی۔ چنانچہ وہ حسب معمول آدھی کک پر ہی سٹارٹ ہو گئی۔ میں نے قریب کی دکان سے علی کیلئے ٹافیاں خریدیں، ایک ٹافی منہ میں رکھتے ہی وہ حادثے کی سنگینی کو بھول گیا اور اس نے ہنسنا شروع کر دیا۔راہگیروں کا شکریہ ادا کرنے کے بعد علی کے سکول کی طرف جاتے ہوئے جب میں نے بائیں جانب کو مڑنے کیلئے’’انڈیکیٹر‘‘ چلایا تو مجھے پتہ چلا کہ موٹر سائیکل کے پتھریلی سڑک پر گرنے کی وجہ سے ’’انڈیکیٹر ‘‘ تو ٹوٹ چکا ہے چنانچہ میں نے اپنے ہاتھ کو انڈیکیٹر کے طور پر استعمال کیا اور پیچھے سے آنے والی ٹریفک کا جائزہ لینےکیلئے ہینڈل پر لگے شیشے میں جھانکا تو معلوم ہوا کہ یہ شیشہ بھی چکنا چور ہو چکا ہے۔ اس اچانک حادثے کی وجہ سے میرے حواس پوری طرح بحال نہیں تھے۔ جب یہ حواس بحال ہوئے تو مجھے موٹر سائیکل کے مختلف حصوں سے اُٹھنے والی عجیب و غریب آوازیں سنائی دینا شروع ہوئیں۔ چنانچہ میں نے سڑک کے کنارے موٹر سائیکل کھڑی کی اور ان آوازوں کا سراغ لگانے کیلئے موٹر سائیکل کے مختلف حصوں کو ٹٹول ٹٹول کر دیکھنے لگا۔ اس ’’تفتیش‘‘ کے دوران معلوم ہوا کہ اگلے پہیے کا مڈگارڈ ٹیڑھا ہو چکا ہے اور پہیے کیساتھ چپکا ہوا ہے۔ لیگ گارڈ بھی ٹوٹ چکا تھا اور اس کی کھڑکھڑاہٹ بھی موٹر سائیکل کے ’’غل غپاڑے‘‘ میں اضافہ کر رہی تھی۔ میں نے دونوں ہاتھوں کی قوت سے مڈگارڈ کو سیدھا کر کے اسے پہیے سے الگ کیا، تاکہ عارضی طور پر اس کے شور سے محفوظ ہو جاؤں اور ایک بار پھر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔ میں نے علی کو اسکے سکول چھوڑا، وائف کو رکشے میں سوار کرایا تاکہ وہ اپنے طور پر کالج پہنچ جائے اور خود کسی موٹر سائیکل مکینک کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ کیونکہ مجھے موٹر سائیکل کی صورتحال خاصی مخدوش لگ رہی تھی۔ مکینک کی طرف جاتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ موٹر سائیکل کچھ ڈول رہی ہے۔ نیز یہ کہ میں جا کسی اور طرف رہا ہوں اور اسکا رُخ اور طرف ہے۔ چنانچہ میں نے ایک بار پھر سڑک کے کنارے موٹر سائیکل کھڑی کی اور اسکے اگلے پہیے کو اپنی ٹانگوں میں پھنسا کر اسکا سٹیرنگ سیدھا کرنے کی کوشش کی جو اس حادثے کی وجہ سے ٹیڑھا ہو گیا تھا۔ اس دوران ایک اور انکشاف مجھ پر یہ ہوا کہ اسکی اگلی بتی ٹوٹ چکی ہے۔ نیز پٹرول کی ٹینکی پر خاصے ’’چب‘‘ پڑ گئے ہیں۔ اسکے علاوہ اچانک اور شاید جھٹکے کی وجہ سے اس کا ایک ’’شاک آبزرور‘‘ بیٹھ گیا ہے۔ بہرحال میں نے پھر موٹر سائیکل سٹارٹ کی اور اسے لیجا کر مکینک کی خدمت میں پیش کر دیا۔ مکینک نے اسے ٹٹول کر دیکھا۔ کک مار کر اسے سٹارٹ کیا اور اس میں سے برآمد ہونے والی عجیب و غریب آوازیں سنیں اور پھر اسکا انجن بند کرتے ہوئے مجھے مخاطب کیا اور کہا’’ جناب! آپ یہ میرے پاس چھوڑ جائیں۔ اسکا تو انجر پنجر ہل گیا ہے۔ اسکی مرمت میں خاصا وقت لگے گا۔‘‘مکینک کی دکان سے دفتر تک جانے کیلئےمیں قریب رکشہ سٹینڈ کی طرف پیدل روانہ ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ مجھے چلنے میں کافی دشواری پیش آ رہی ہے۔ دائیں ٹانگ کی پنڈلی سے ٹیسیں سی اُٹھ رہی تھیں۔ میں نے شلوار کا پائنچا اوپر اُٹھا کر دیکھا کہ شلوار وہاں سے پھٹی ہوئی تھی اور پنڈلی کے اس حصے سے کھال ادھڑ چکی تھی اور اب وہاں ایک گہرا زخم تھا۔ جس سے خون بہہ رہا تھا۔ دفتر تک پہنچتے پہنچتے میں نے محسوس کیا کہ میرے دونوں کاندھے سخت بوجھل ہو رہے ہیں اور مجھے گردن اِدھر اُدھر موڑنے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ میں نے جلدی جلدی اپنا کام سمیٹا اور رکشہ پکڑ کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ گھنٹی بجانے پر وائف نے دروازہ کھولا۔ اسکے چہرے پر تکلیف کے آثار تھے اور وہ لنگڑا کر چل رہی تھی۔ اسکا ٹخنہ بہت بری طرح سوجا ہوا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ ڈاکٹر سے دوا لیکر آئی ہے۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اب تو آپ کو افاقہ ہو جائیگا۔ مگر خدشہ ہے کہ سردیوں کے موسم میں یہ چوٹیں مزید تکلیف کا باعث بنیں گی۔ اس دوران مجھے کمرے سے علی کے رونے کی آواز سنائی دی۔ شہناز نے بتایا کہ اب وہ ٹافی سے بھی چپ نہیں ہوتا۔ کیونکہ اسے بھی چوٹیں آئی ہیں مگر وہ یہ بتلانے سے قاصر ہے کہ اسے کہاں کہاں چوٹیں آئی ہیں۔ تاہم ڈاکٹر صاحب نے اسے بھی دوا دے دی ہے۔میں نے اپنے کمرے میں جا کر سپرٹ سے اپنا زخم دھویا اس پر مرہم لگائی اور پھر یہ کالم لکھنے بیٹھ گیا جو آپ نے یہاں تک پڑھ لیا ہے۔ اس کالم کی آخری سطریں یہ ہیں کہ صرف فرد ہی نہیں بلکہ جب کوئی قوم بھی کسی اچانک حادثے سے دو چار ہوتی ہے تو اسکے افراد کو فوری طور پر ان نقصانات کا اندازہ نہیں ہوتا جو اس حادثے سے انہیں پہنچتے ہیں۔ بلکہ وہ خود کو پوری طرح محفوظ و مامون تصور کرتے ہیں مگر یہ چوٹیں آہستہ آہستہ اپنا آپ دکھاتی ہیں اور سردیوں کے موسم میں انکی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے بلکہ کبھی کبھار تو یہ مستقل عارضے کی صورت اختیار کر جاتی ہیں۔ رونے والوں کو ٹافیاں دے کر کچھ عرصے تک تو بہلایا جا سکتا ہے۔ مگر جب ان کے درد جاگتے ہیں تو پھر وہ ٹافیوں سے خاموش نہیں ہوتے۔ حادثے کے بعد موٹر سائیکل چلاتے میں نے محسوس کیا تھا کہ اسکا سٹیرنگ ٹیڑھا ہو گیا ہے۔ چنانچہ میرا رُخ کسی اور طرف ہے اور میں جا کسی اور طرف رہا ہوں۔ کسی اچانک حادثے کی صورت میں قوموں کیساتھ بھی یہی ہوتا ہے مگر اس کا اندازہ انہیں کافی دیر بعد ہوتا ہے۔ جو قومیں اپنی سمت درست کر لیتی ہیں۔ وہ بچ جاتی ہیں اور جن قوموں کے ڈرائیور اپنی جہالت پر انحصار کرتے ہیں وہ پہلے سے کہیں زیادہ بڑے حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں۔(قند مکرر)