• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکمران اگر کہتےہیں کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بہترین، متوازن اور عوام دوست بجٹ پیش کیا ہے تو میں کون اور میری کیا مجال کہ اس کے برعکس رائے دوں۔ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں، اس ملک کے حکمران ہاتھی ہی تو ہیں ۔
اس بجٹ کے عوام دوست ہونے کا سب سے بڑا ثبوت گھی، خوردنی تیل، سیمنٹ اور سگریٹ کا مہنگا ہونا ہے اور سی این جی پر سترہ فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی تجویز۔ البتہ بڑی کاروں، سیٹلائٹ فون اور فون کالز پر ٹیکس اور ڈیوٹی کم کر کے غریب عوام کو یہ موقع فراہم کیا گیا ہے کہ وہ سستی ہونے والی مہنگی گاڑیاں خریدنے کے خواب دیکھیں، جاگنے کے بعد کسی موبائل کمپنی کا سستا پیکیج لے کر اپنے رشتہ داروں، دوستوں، عالموں اور عاملوں سے اس کی تعبیر معلوم کریں اور من پسند تعبیر ملنے پر لمبی تان کر سو جائیں۔
بجٹ ایک ایسی بلائے ناگہانی ہے جو قوم پر عذاب کی صورت میں ہر سال نازل ہوتی ہے اور پورا سال منی بجٹ کے بچے جنتی ہے۔ کبھی بجلی، پٹرول، گیس اور سی این جی کے نرخوں میں اضافے کی صورت میں اور کبھی حکمرانوں کی چہیتی ذخیرہ اندوز، گراں فروش اور مارکیٹ فورس کی من مانی کارروائی کے نتیجے میں۔
اسحاق ڈار قوم کو بجٹ کے شکنجے میں کسنے کی تیاری کررہے تھے کہ لندن پولیس نے الطاف بھائی پر دھاوا بول دیا۔ یوں لگا کہ قدرت نے اس قوم کو کسی کردہ یا ناکردہ جرم کی سزا ایک ہی دن دینے کا فیصلہ کیا۔ پورے ملک کے عوام ڈار بجٹ سے خوفزدہ ہیں جبکہ کراچی اور حیدرآباد کے شہری اور ایم کیو ایم کے ووٹر اس ’’پرامن‘‘ ردعمل سے ہراساں جو ایک برطانوی شہری کی گرفتاری پر پاکستان میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ غصے کا سامنا وہ بے چارے کررہے ہیں جنہوں نے کبھی برطانیہ دیکھا نہ برطانوی پاسپورٹ اور شہریت لینے کا سوچا اور نہ الطاف بھائی یا ایم کیو ایم کے بدخواہ ہیں۔
برطانوی پولیس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ بے مروت اپنی حکومت کی بھی نہیں سنتی اور عدلیہ انصاف کرتی ہے مگر الطاف بھائی حقیقی معنوں میں ایک کروڑ سے زائد انسانوں کے دل کی دھڑکن ہیں اور مقبول لیڈر اس لیے برطانوی پولیس اور عدلیہ کو ان کے پیروکاروں اور جاں نثاروں کے جذبات کا احترام کرنا چاہئے۔ سوشل میڈیا پر الطاف بھائی کی گرفتاری اور ہسپتال روانگی کی تصویر جاری کر کے برطانوی پولیس نے معلوم نہیں کیا تاثر دیا؟ تلک الایام نداولہا بین الناس؎
بس اتنے ہی جری تھے حریفان آفتاب
چمکی ذرا سی دھوپ تو کمروں میں آگئے
اسحاق ڈار کے ’’عوام دوست‘‘ بجٹ کو حقیقی اور فرینڈلی اپوزیشن بھوک، ننگ، بدامنی، لاقانونیت اور لوڈشیڈنگ کے ستائے عوام کے سامنے کس رنگ میں پیش کرتی ہے یہ اس کا درد سر ہے۔ یہ بجٹ سارے کا سارا برا نہیں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں دس فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ ٹیکس نادہندگان پر بوجھ بڑھانے اور جائیدادوں کی خرید و فروخت کے علاوہ پرچون فروشوں پر ٹیکس کا نفاذ بھی برا نہیں، امرا، تاجر، صنعتکار اور سرمایہ کار بھی اس ملک کے شہری ہیں اور ملکی ترقی کا نمایاں کردار اس لیے انہیں زیادہ مراعات کے ذریعے جی ڈی پی میں اضافے کی سوچ حکومت کے ہمدرد قلم، کیمرے اور مائیک کے لیے متاثر کن ہے۔
تاہم ڈر یہ ہے کہ مخالفت برائے مخالفت پر کمربستہ اپوزیشن بالخصوص تحریک انصاف، عوامی تحریک (ڈاکٹر طاہر القادری) اور مسلم لیگ (ق) ان مثبت اقدامات میں سے بھی عوام دشمنی کا کوئی نہ کوئی پہلو تلاش کر ہی لیں گی۔ یہ تو وہ بہرحال کہہ سکتی ہے کہ عوام کی کمر پر مہنگائی، افراط زر اور قرضوں کا جو بوجھ لادا گیا ہے یہ ریلیف اس کا ایک چوتھائی بھی نہیں اور پرچون فروش ہوں یا جائیدادوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنے والے یہ سارا بوجھ خریدار کو منتقل کردیں گے جبکہ جن ٹیکس نادہندگان کو حکومت نے ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی ہے وہ بھی اظہار ناراضگی کے لئے حکومت کے سیاسی مخالفین کی ہاں میں ہاں ملائیں گے جبکہ برطانوی پولیس نے ایم کیو ایم کو بجٹ کے روز سڑکوں پر لا بٹھایا ہے۔ اپوزیشن اس سے فائدہ نہ اٹھائے تو یہ اس کی نالائقی۔
ڈار کے ڈرائونے بجٹ کی پرتیں پندرہ جون کے بعد کھلنا شروع ہوں گی جولائی میں جب غریب اور متوسط طبقے کے گروسری بل میں اضافہ ہوگا۔ صارفین کو گھی، خوردنی تیل، سیمنٹ، سی این جی وغیرہ مہنگے داموں خریدنا پڑے اور حکومتی پالیسی کے باعث سستی ہونے والی مہنگی گاڑیوں نے جہازی سائز سگنل فری سڑکوں پر دوڑنا، غریبوں کے سینے پر مونگ دلنا شروع کیا تو احتجاجی تحریک کے لئے بے تاب اپوزیشن کے وارے نیارے ہوں گے۔
کوئی تو ہوگا جو اعداد وشمار کے ذریعے اس حکومتی واردات کو کھلا جھوٹ ثابت کر کے حبیب جالب کی زبان میں پکارے گا ؎
پھول شاخوں پر کھلنے لگے، تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے، تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے، تم کہو
اس کھلے جھوٹ کو، ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
آخراسحاق ڈار نے یہ کیسے سمجھ لیاہے کہ ترکی اور چین کی مہنگی سرمایہ کاری سے عوام کی آنکھیں چندھیا گئی ہیں۔سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب اور دماغ مفلوج کردیا ہے۔
لاہور میں ترقی و خوشحالی کا سیلاب آچکا ہے میٹرو بس، فلائی اوورز، انڈر پاسز اور دیگر ترقیاتی منصوبوں نے ہر ایک کو مسحور کیا ہے مگر سرکاری شعبے میں جناح ہسپتال کے بعد کوئی ڈھنگ کا ہسپتال نہیں بنا۔ سرکاری ہسپتالوں میں غریب کو علاج معالجے کی وہ سہولتیں بھی حاصل نہیں جن کا اعلان حکومت نے کر رکھا ہے جبکہ سرکاری شعبے میں کوئی نئی یونیورسٹی بھی نہیں بنی جن سرکاری کالجوں کو یونیورسٹی کا درجہ ملا ان کی فیسیں بڑھ کرناقابل برداشت ہوگئیں۔
نجی ہسپتالوں و تعلیمی اداروں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا ہے۔ قرضوں اور انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر بھیک کے بجائے غریب و متوسط طبقے کو روزگار کے نئے اور آساں مواقع فراہم کرنے کا کوئی مژدہ ڈار صاحب نے نہیں سنایا اور امن و امان کو یقینی بنانے کے لئے قابل عمل، موثر، تیز رفتار، پائیدار اقدامات کی نوید بھی نہیں ملی۔ جو ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔
چودہ کھرب روپے خسارے والے بجٹ میں اس کی شاید گنجائش نہ تھی مگر یہ خسارہ بھی تو ہمارا خون نچوڑ کر پورا کیا جائیگا۔ ملکی معیشت آئی سی یو میں پڑی ہے۔ ’’عوام دوست‘‘ ’’متوازن‘‘ بجٹ پیش کرنے والے وزیر خزانہ کا خیال ہے کارپوریٹ سیکٹر اسے آکسیجن فراہم کرسکتا ہے جبکہ خون بہم پہچانا غریب اور متوسط طبقے کی ذمہ داری ہے۔ مگر اس بار لگتا ہے کہ دونوں ہی بے اطمینانی کا شکار ہیں اور احتجاجی مظاہروں، ہڑتالوں اور ہنگامہ آرائی کا حصہ بننے کے لئے ذہنی طور پر تیار۔ کراچی اور حیدرآباد میں آغاز ہو چکا۔ کسی نہ کسی بہانے یہ سلسلہ وسیع اور طویل ہوگا اور ’’متوازن‘‘ بجٹ شائد اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہو۔ بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔
تازہ ترین