• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں یہ کالم متحدہ عرب امارات (UAE) کے شہر دبئی سے تحریر کررہا ہوں۔ میرا تقریباً ہر ماہ بزنس کے سلسلے میں دبئی آنا جانا رہتا ہے اور میں یہاں کی ترقی سے بے حد متاثر ہوں۔ دبئی میں قیام کے دوران میری نظر مقامی اخبار ’’خلیج ٹائمز‘‘ میں شہ سرخی کے ساتھ شائع اس خبر پر پڑی جس میں بتایا گیا تھا کہ 2024 کا سال یو اے ای کیلئے معاشی ترقی کا سال ثابت ہوا اور ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) میں شاندار 49فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، اس طرح یو اے ای 2024 ءمیں 45 ارب ڈالر سے زائد کی غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کرکے FDI حاصل کرنے والے دنیا کے سرفہرست ممالک میں شامل ہوگیا۔ اقوام متحدہ کی ورلڈ انویسٹمنٹ کے حوالے سے جاری حالیہ رپورٹ کے مطابق 2024 میں یو اے ای کی FDIبڑھ کر 45ارب ڈالر تک پہنچ گئی اور 2025میںیو اے ای میں 63 ارب ڈالر(231ارب درہم) کی غیر ملکی سرمایہ کاری کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ 2023 میں یو اے ای میں 31ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی تھی جو 2024 ءمیں بڑھ کر 45.63 ارب ڈالر (167 ارب درہم) تک پہنچ گئی اور یو اے ای 2024 میں خطے میں ہونے والی غیر ملکی سرمایہ کاری کا 37 فیصد شیئر حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ اس کامیابی کی نوید یو اے ای کے نائب صدر اور دبئی کے حکمراں شیخ محمد بن راشد المکتوم نے اپنے آفیشل ایکس (ٹوئٹر) اکائونٹ پر قوم کو سنائی اور کہا کہ عالمی سطح پر UAE پچھلے سال شروع کئے گئے نئے FDI منصوبوں کی تعداد میں امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے جس نے بین الاقوامی سرمائے کیلئے ایک اعلیٰ سطح درجے کی منزل کے طور پر اپنی پوزیشن کو مستحکم کیا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2024ءمیں یو اے ای کے مقابلے میںخطے کے دیگر ممالک سعودی عرب میں 16 ارب ڈالر، ترکی میں 11ارب ڈالر اور عمان میں 9 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری آئی جبکہ پاکستان میں حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود غیر ملکی سرمایہ کاری مایوس کن رہی اور پاکستان 2024 میں صرف 1.9 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کرسکا۔

یو اے ای نے دنیا بھر کے امیر ترین افراد کیلئے اپنے دروازے کھول رکھے ہیں۔ یہ ملک دنیا کے امیر ترین افراد کیلئے ایک پرکشش مقام اور جنت کی حیثیت رکھتا ہے جسکی بنیادی وجہ سیکورٹی کی بے مثال صورتحال، آمدنی، دولت پر زیرو ٹیکس اور امراء کیلئے گولڈن ویزا جیسی مراعات شامل ہیں۔ اسکے برعکس یورپی یونین کے بیشتر ممالک میں ذاتی آمدنی، کیپٹل گین یا وراثت پر ٹیکس عائد ہیں جسکے باعث ان ممالک کے کروڑ پتی افراد یو اے ای کا رخ کررہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق متحدہ عرب امارات میں ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد کروڑ پتی مقیم ہیں جن میں 28 ارب پتی بھی شامل ہیں اور ان امراء کی دولت کا حجم 785 ارب ڈالر لگایا گیا ہے جس میں 450 ارب ڈالر دبئی انٹرنیشنل فنانشل سینٹر (DIFC) کے بینکوں میں ہیں۔ دبئی چیمبرز آف کامرس کے تجزیئے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 2025 میں چیمبر میں شامل ہونے والی غیر اماراتی کمپنیوں کی فہرست میںبھارتی سرفہرست ہیں اور بھارت سے مجموعی 4543نئے اراکین نے چیمبر میں شمولیت اختیار کی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان دوسرے نمبر پر رہا جسکی 2154 نئی کمپنیاں چیمبر کے ممبر کے طور پر رجسٹرڈ ہوئیں۔

کسی بھی ملک میں ٹیکسوں کی بھرمار اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال ایسی بنیادی وجوہات ہیں جسکے باعث سرمایہ کار طبقہ اپنا سرمایہ ایسے ملک منتقل کردیتا ہے جہاں معیشت مستحکم، واضح پالیسی سازی اور سیکورٹی صورتحال بہتر ہو۔ اقوام متحدہ کی ورلڈ انویسٹمنٹ رپورٹ کے مطابق دنیا میں امریکہ کے بعد یو اے ای غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ FDI میں حیرت انگیز اضافہ نہ صرف خطے میں یو اے ای کی قیادت کو مستحکم کرتا ہے بلکہ عالمی سرمایہ کاروں کے اعتماد کا بھی مظہر ہے۔ گزشتہ چندسال کے دوران یو اے ای حکومت نے بین الاقوامی سرمایہ کاری کیلئے ایک اعلیٰ درجے کی پوزیشن کو مستحکم کیا ہے۔ کاروبار دوست پالیسیوں، انفراسٹرکچر کی بہتری، ٹیکنالوجی کے فروغ اور 10 سالہ گولڈن ویزا جیسی سہولتیں دی گئی ہیں۔ ساتھ ہی عالمی سطح کے شفاف اور منصفانہ تجارتی قوانین کے نفاذ نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو یو اے ای کی طرف کھینچنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یو اے ای میں ٹیکنالوجی، قابل تجدید توانائی اور مالیاتی خدمات کے شعبے میں غیر معمولی ترقی دیکھنے میں آئی ہے جو اس بات کا مظہر ہے کہ ملک تیزی سے مستقبل کی معیشت کی طرف بڑھ رہا ہے اور اگر یہی رفتار برقرار رہی تو آنے والے برسوں میں یو اے ای عالمی سرمایہ کاری کا ایک نمایاں مرکز بن کر ابھرے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان بھی UAE کی ترقی سے سبق حاصل کرے اور دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو پرکشش مراعات کی آفر کرے تاکہ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوسکے۔

تازہ ترین