• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہفتہ گزشتہ بہت سنسنی خیز، خبریت سے بھرپور اور کئی حوالوں سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل تھا، ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی گرفتاری بہت ہی حساس نوعیت کی خبر تھی، اسٹاک مارکیٹ کا گرنا تو کچھ کچھ سمجھ آتا ہے مگر کراچی کے لوگوں کا گھروں میں ہفتوں مہینوں کا راشن جمع کرنا، مارکیٹوں کا بند ہونا، تعلیمی اداروں کی تالا بندی، ایف اے کے امتحانات کا ملتوی ہونا اور درجنوں گاڑیوں کا جلا دینا اس قسم کے واقعات سمجھ نہیں آتے۔ برطانوی پولیس غیرجانبدار ہے وہ ہر قسم کے دبائو سے بے نیاز ہو کر میرٹ پر کام کرتی ہے ایم کیو ایم کو حوصلے اور صبر سے کام لیتے ہوئے ایک خالص سیاسی جماعت کے طور پر حالات کا سامنا کرنا چاہئے، سیاسی زندگی میں اس قسم کے اتار چڑھائو آتے رہتے ہیں ایم کیو ایم کو چاہئے پاکستانی حکومت سے سفارتی اور اخلاقی امداد طلب کرے ۔ الطاف حسین صاحب کی گرفتاری والے دن وفاقی بجٹ بھی پیش ہوا مگر بجٹ کی خبر لندن پولیس کے چھاپے میں دب گئی، بجٹ کا حجم تو 39کھرب 45ارب روپے ہے سرکاری ملازم اور اپوزیشن والے اس بجٹ سے حسب روایت خوش نہیں ہیں مگر ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ گلگت، بلتستان، مالا کنڈ، بلوچستان اور فاٹا میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ان کی انڈسٹری کو 5سال کے لئے انکم ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے، شادی بیاہ کی تقریبات میں ود ہولڈنگ ٹیکس میں کمی بھی خوش آئند ہے، 51ارب 47کروڑ روپے ایٹمی پروگرام کے لئے مختص کرنا بھی دفاعی اعتبار سے احسن اقدام ہے۔ وطن کے دفاع کے لئے 7کھرب روپے رکھنا بھی صحیح، تعلیم کے لئے 64ارب ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے بھی قبول مگر عام آدمی کے لئے تو کچھ نہ ہوا، سرکاری ملازمین کے علاوہ پاکستانیوں کا ایک بڑا حلقہ ہے چوکوں چوراہوں پر بیٹھا اپنی دہاڑی لگنے کا منتظر مزدور کے لئے کیا کیا گیا اس نے عوام ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا ہے، اسے سستی سواری کی ضرورت ہے آٹے کی ارزانی کی خواہش اور خوردنی تیل گھی میں کمی کا انتظار تھا، اس میں شک نہیں کہ حکومت کو آئے ایک سال ہوا ہے قوموں کی زندگی میں ایک سال ایک لمحے کے برابر ہوتا ہے مگر پتہ نہیں کیا بات ہے کہ عام آدمی اس ایک سال میں ہی مایوس ہوتا جارہا ہے۔ صدر محترم جناب ممنون حسین کا سالانہ مشترکہ پارلیمینٹ سے خطاب بھی کوئی گرمجوشی پیدا نہ کر سکا، اس میں شک نہیں کہ صدر محترم نے حکومتی کارکردگی کی سالانہ رپورٹ ہی ایوان میں پیش کی مگر اس میں حکومت کے لئے کسی قسم کی تنبیہ یا لائحہ عمل کی بالکل بھی نشاندہی نہیں تھی۔ حیرت ہے کہ زندگی میں حرارت، گرمجوشی کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہی ہر کوئی ڈنگ ٹپانے میں لگا ہوا ہے، صدر محترم کا خطاب اور بجٹ بھی پورے سکون سے سنا گیا، یہ اچھی روایت ہے مگر عمران خان یا دیگر کسی سیاسی رہنما کو اعتراض ہو تو وہ ایوان میں بات کرے سڑکوں پر آکر واویلا کرنے کی کیا ضرورت ہے، بہت سے ادارے سربراہوں کے بغیر چل رہے ہیں، سپریم کورٹ اور عدالت عالیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہورہا، روایتی، کھینچا تانی اور سازشیں تو ہیں مگر مثبت پیشرفت کا فقدان ہے۔ گزشتہ دنوں ایک نجی چینل پر ہم سے پاکستان کی مغربی سرحد کے حوالے سے پوچھا گیا تو ہم نے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو مسلمانوں کی بربادی پر اربوں کھربوں ڈالر خرچ کر کے بھی حاصل وصول کچھ نہ ہوا اس رقم کا اگر پچیس فیصد ہی مسلمانوں کی فلاح وبہبود پر لگایا ہوتا تو آج فاٹا کا ہر شخص امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے کلمہ خیربلند کررہا ہوتا، ہم نے کہا حیرت ہے کہ فاٹا کے 12قومی اسمبلی کے حلقے ہیں آٹھ لوگ اس کے سینیٹ میں بیٹھتے ہیں چوالیس لاکھ آبادی ہے ساڑے ستائس ہزار مربع کلو میٹر رقبہ ہے مگر اتنے بڑے علاقے میں ایک بھی انڈسٹری نہیں، پینے کے صاف پانی کا باقاعدہ بندوبست نہیں، یونیورسٹی کوئی نہیں بجلی کا نظام بھی مایوس کن ہے، صحت کی سہولتوں کا فقدان ہے اس قسم کے ماحول سے کیسی نسل پروان چڑھے گی،کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ فاٹا کا ایک حلقہ این اے 38 قبائلی علاقہ جات بنیادی ضرورتوں سے وہ محروم تو تھا ہی اسے گزشتہ ایک سال سے جمہوری حق سے بھی محروم رکھا ہوا ہے، 11مئی 2013ء کو الیکشن سے ایک دن پہلے 10مئی کو اچانک جنرل الیکشن اس حلقے میں ملتوی کردیئے گئے ساڑھے چارکلومیٹر رقبے 3لاکھ آبادی اور ایک لاکھ تیرہ ہزار رجسٹرڈ ووٹس والا حلقہ انتخابات سے محروم رکھا ہوا ہے، فاٹا کا حلقہ NA38کرم ایجنسی کا وہ بدنصیب خطہ ہے جسے ایک عرصہ اتحادی افواج کے ڈرون حملوں کا سامنا رہا تورا بورا اسی حلقے میں ہے جہاں شادی کی تقریبات پر گولہ باری کرکے بچوں اور عورتوں کو موت کی نیند سلایا جاتا رہا ہے، ان دنوں جب حالات بہت خراب تھے اور انتخابات ملتوی کر دیئے گئے تھے تو قریبی علاقے میں لوگوں نے نقل مکانی بھی کی تھی مگر بہت جلد حالات ٹھیک ہونے پر 19جون 2013ء کو وہ لوگ واپس بھی آگئے تھے حکومت ایک عرصے سے کہتی آ رہی ہے کہ کرم ایجنسی میں مثالی امن قائم ہے حالات پر حکومت کی مکمل گرفت ہے تو پھر انتخابات کیوں نہیں کرائے جاتے۔ گزشتہ دنوں خیبر پختونخوا کے نئے گورنر مہتاب خان جب کرم ایجنسی حلقہ NA38کے دورے پر گئے تو ایک جرگے میں 600ملک موجود تھے جن میں سے 580 نے جرگے میں کھڑے ہوکر مطالبہ کیا کہ NA38میں انتخابات کرائے جائیں اس حلقہ کا سالانہ ترقیاتی بجٹ ایک ارب روپے ہے لیکن گزرے سال میں وہ ایک ارب کس مد میں خرچ ہوا، کہاں ہوا، اگر نہیں ہوا تو لوگوں کو ترقیاتی کاموں سے کیوں محروم رکھا گیا۔ منیر خان اورکزئی اس حلقہ NA38 سے ایم این اے رہے ہیں وہ 2002ء اور 2008ء کی اسمبلی میں تھے پارلیمانی لیڈر تھے مگر آج کل صوبائی الیکشن کمیشن اور اسلام آباد پاکستان الیکشن کمیشن کو درخواستیں دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ خدا کے لئے ہمیں دیوار کے ساتھ نہ لگایا جائے ہمیں ہمارا جمہوری حق دیا جائے این اے 38 میں انتخابات کرائے جائیں۔
تازہ ترین