وہ بہت اچھی انگریزی بولتا تھا اردو املا اس کی اپنی بھی کوئی بہت اچھی نہیں تھی جب اخبار والے اسکا نام القما لکھتے تو اسے تعجب نہ ہوتا وہ خواجہ خیرالدین کا بیٹا تھا امریکہ کی ایک یونیورسٹی سے مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش کی طرف سفر کے عوامل پر ڈاکٹریٹ کی ۔بہاولپور یونیورسٹی سے وظیفے پر وہ امریکہ گیا ۔ ظاہر ہے کہ آپ امریکہ جائیں تو منظور شدہ 'ا سٹڈی لیو میں دو چار برس بڑھ جاتے ہیں ۔ واپس آئے تو یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے انہیں جوائن کرانے سے انکار کر دیا تب غلام حیدر وائن پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے والد کے مشورے پر یہ ان کے پاس گئے وہ سادہ دل ننگے پائوں باہر آئے وائس چانسلر کو فون کیا جنہوں نے جرابیں اور بوٹ پہنے پہنے ہمارے خواجہ کو جوائن کرایا ، ادھر ایم اے سیاسیات کے ساتھ ایل ایل بی کرنے والے چوہدری غلام مصطفی نے ملتان کے نامور وکیل صاحب زادہ نصرت علی خان کے چیمبر کو جوائن کیا تاہم ڈیرہ غازی خان اور ملتان کی وکالت میں بہت زیادہ کامیابی نہ ملی تو وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں لیکچرار ہوگئے وہاں سے سرکاری وظیفے پر امریکہ گئے پی ایچ ڈی کی اور ملتان یونیورسٹی سے وابستہ ہوگئے ۔ مزاجا جیالے اور پیش قدم تھے صدر شعبہ ہوئے تو خواجہ سید محمد علقمہ کو یہاں لائے اور پھر یونیورسٹی کالونی میں ان کی ہفتہ وار محفلیں گرم ہو گئیں۔ سید فخر امام آتے جو شاید ہر الیکشن سے پہلے کچھ دوستوں سے مشورہ کرتے کہ مجھے کس پارٹی میں جانا چاہئے ۔ شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی میں آچکے تھے خواجہ علقمہ نے 1970 کے انتخابات اور اس کے ایک برس بعد ذوالفقار علی بھٹو کے کردار کے حوالے سے کچھ ناملائم لفظ استعمال کئے تو قریشی صاحب نے معصومیت سے کہا کہ تب میری عمر 14 برس تھی میں طالب علم تھا اسکول کا ۔خواجہ علقمہ نے کہا مخدوم صاحب آخر کتابیں کس لئے ہوتی ہیں اس موضوع پر درجنوں کتابیں لکھی گئی ہیں وہ پڑھیں ۔ پھر خواجہ صاحب کی قسمت کا ستارہ چمکا وہ مجید نظامی ہی نہیں شریف برادران کے ساتھ یوسف رضا گیلانی بھی مہربان ہوئے تو وہ یمن میں سفیر ہو گئے۔ گیلانی صاحب نے انہیں یمن سے بنگلہ دیش بھیجنے کے لئے نام بھیجا جو وہاں کی وزیر اعظم محترمہ حسینہ واجد نے مسترد کر دیا اسی زمانے میں خواجہ علقمہ نے مجھے شاید رئوف کلاسرا کی موجودگی میں بتایا کہ محترمہ اس بات سے واقف نہیں کہ میرے والد بنگلہ دیش بننے کے بعد ڈھاکہ گئے تو شیخ مجیب نے ائیرپورٹ پر اپنے حریف کا استقبال کیا اور ان پر زور دیا کہ پاکستانی شہریت ترک کرکے ہمارے پاس رہیں میرے والد نے کہا بھئی شیخ صاحب ! یہ تو ممکن نہیں پھر ڈاکٹر خواجہ علقمہ زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہو گئے وہ سب سے کہتے تھے کہ میرے امریکی پروفیسر نے کہا تھا کہ فوکو کی کتابیں پڑھو تاکہ تشدد ، نفرت اوراختیار کے پیچیدہ تعلق کو سمجھ سکو اسی زمانے میں ہماری یونیورسٹی کے بارے میں مشہور تھا کہ داخلہ ، سلیکشن _ پروموشن یا کوئی اور فیور لینی ہے تو آپ کے پاس فوکو کی باتصویر کوئی کتاب ہونی چاہئے ۔آپ جانتے ہیں کہ مقدر کے تاروں کی چمک دمک ماند پڑ جاتی ہے خواجہ صاحب جیل میں ڈال دئیے گئے شریف برادران بھی ان کے نام سے گھبرانے لگے تب پاکستان میں قانون اور انصاف کی دیوی عاصمہ جہانگیر سپریم کورٹ میں جا پہنچیں احتساب بیورو کے دانت کمزور ہوئے اور ہمارے خواجہ کی ضمانت ہوئی ۔کہنا یہ تھا وقت بدلتے دیر نہیں لگتی آج خواجہ علقمہ کو بنگلہ دیش میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا جاسکتا ہے اور طاقت ور حلقے چاہیں تو خواجہ صاحب ہمارے عمران خان کو بھی فوکو کی کچھ کتابیں پڑھا کر 5 اگست کی ہڑتال پر نظر ثانی کرا سکتے ہیں ۔ ایک وقت تھا کہ لوگوں کو ان سے اللہ واسطے کا بیر ہو گیا تھا، اب 'اللہ واسطے کا پیارہو چکا ہے ۔
٭٭٭٭
ہمارے بچے اور بچوں کے بچے کہتے ہیں کہ اپنی معمر یادداشت پر بھروسہ نہ کریں کتابیں پڑھا کریں وہ کہتے ہیں کہ '’پاکستان کی 9 زندگیاں‘نامی کتاب پڑھیں جو ڈیکلان والش نے لکھی ہے ۔ 322 صفحے کی کتاب میں ڈیلی ٹیلگراف اور واشنگٹن پوسٹ کے لئے مکتوبات بھیجنے والے کو جب پاکستان سے نکالا گیا تو اس نے اس کے انتساب میں فیض احمد فیض کے اس مصرعے کا انگریزی ترجمہ لکھا
آج بازار میں پا بہ جولاں چلو ۔ یہی نہیں مری بروری کی روح افزا سے فیض یاب ہونے والی اشرافیہ کی میزبانی کرنے والے مینو بھنڈاری کا ذکر ہے تو مرحوم عارف نظامی کی باخبری کا بھی جنہوں نے کہا ' تم بلوچستان کیوں گئے تھے '؟
اسی کتاب میں عاصمہ جہانگیر کے ساتھ حامد میر کا بھی دلچسپ ذکر ہے ۔
٭٭٭٭
کل سے ملتان کسی قدر اداس ہے کہ دو نوجوان بھائی کار حادثے کی نذر ہوئے ان کی بہن بھی شدید زخمی ہے۔ المناک بات یہ ہے کہ ان کے والد پروفیسر جعفری سول لائنز کالج کے پرنسپل تھے ضیا الحق کو وہ ان کی کرنیلی کے زمانے سے جانتے تھے اس لئے اپنے جرات مندانہ انداز میں جنرل صاحب کا بازو تھام کے کہا ' اگر ملک میں الیکشن نہیں کرانے تھے تو تعلیمی اداروں کی طالب علم یونینوں کے الیکشن کیوں کرائے ؟ اب بھگتیں !پھر ' ان کا اشارہ اس طرف تھا کہ ملتان کے بیشتر اداروں میں پی ایس ایف اور این ایس ایف نے الیکشن جیتے تھے ۔ جعفری صاحب کی اس بات پر ضیاء الحق نے اپنے چہرے پر اپنی معروف مسکراہٹ سجائے رکھی مگر مارچ 81 میں ملتان کے استادوں ، صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاری کا موسم آیا تو جعفری صاحب کی نظربندی کا حکم آیا وہ تو ڈپٹی کمشنر ذرا باہمت تھا اس نے پرنسپل لاج کو سب جیل قرار دے دیا۔ اب یہ دونوں بیٹے انہی جعفری صاحب کے ہیں کس میں ہمت ہے کہ انہیں پرسہ دے ؟