گزشتہ شام، مجلس شام غریباں تھی۔ یاد ہے دروازہ کھٹکھٹایا علامہ رشید ترابی، نصیر اللہ اجتہادی، علامہ طالب جوہری، حافظ کفایت حسین اور کس کس کے نام بتاؤں کہ لگے واقعی شام غریباں تھی۔ نہ ذکر پڑھنے والے،نہ نوحہ پڑھنے والے، نہ سلام پڑھنے والے۔ ارے اگر نئے بہت اچھے نہیں ہیں تو پرانوں میں مہناز اور کجن بیگم کے نوحے سنوا دو۔ ذوالفقار بخاری کا انیس کا مرثیہ پڑھنا۔ ناصر جہاں کا سلام آخر پڑھنا۔ ٹی وی کے سربراہوں تمہیں ٹی ۔ وی کی آرکیا لوجی کھولنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی۔ نیرہ نور کا ’پیغام صبالائی ہے‘پڑھنا اور پھر ضیامحی الدین پروفیسر شائستہ کرار کا خطاب، تمہارے خزانے میں تو آغا ناصر بھی تھے اور ابھی تو فراست رضوی کو ہی بلا لیتے ۔ نوجوان نسل میں نے ایرانی ٹی وی پر دیکھی ، بچے اور نوجوان بہت اچھے اور جذبے کے ساتھ نوحے اور سلام پڑھ رہے تھے ۔ البتہ ہر گلی محلے میں دیگیں حلیم،بریانی کی پک رہی تھیں۔ لوگ تمام دن بیٹھے کھارہے تھے ۔ اچھا ہوا، مگرخواتین توکہیں بھی بیٹھی نظر نہیں آئیں۔ یہی روایت ہوتی ہے عید میلاد پر اور یہی منظر ہوتا ہے ہرشام سموسوں اور پکوڑوں اور چاٹ کی دکانوں پر بس مرد کھڑے کھا رہے ہوتے ہیں ۔ پوچھو اکیلے کیوں، گھر والوں کے ساتھ کیوں نہیں۔ جواب ملےگا۔ بہت خرچہ ہوجاتا ہے ویسے پانی پلانے والوں میں نوجوان بہت محبت سے مسکراتے ہوئے پانی ، شربت دے رہے تھے۔اب سوال یہ پرانے زمانے کےعالم نہیں رہے، تو نوجوانوں میں کسی بھی خانوادے سے آگے کیوں نہیں بڑھا۔ یہی سوال میں کلاسیکی گائیکوں سے کرتی ہوں۔ انکے بچے ، سچ بولتے ہوئے کہتے ہیںہم سے دوگھنٹے راگ نہیں گائے جاتے ، ہم اپنے بڑوں سے سر سیکھ لیتے ہیں، پھر جو کچھ نوجوان ہی لکھ کر دیدیں وہ ہم سب مل کر گاتے ، کوئی گٹار بجاتا ، کوئی وائلن، ویسے اب نہ ستار، نہ سارنگی اور نہ دہر پرگانےوالے ہیں۔ ویسے بھی جنہوں نے استادوں کی نقل کی تواس میں راحت نے خود کو فتح علی خاں بناکر ساری دنیا میں لاکھوں کمائے، اور اب تو انکا بیٹا بھی سامنے آرہا ہے۔میوزک کے آج کے مشہور نام، پوری گرمیاں پاکستان میں نہیں رہتے، چھوٹے سے چھوٹا گائیک30ہزار روپے، اپنے لئے اور سازندوں کے پیسے الگ مانگتا ہے۔ اچھا بھئی ڈالر میں سارے یورپ اور امریکہ میں جوقیمت اور فل لگتاہے۔ اسی کو غریب پاکستانیوں سے کیوں وصول کرناچاہتے ہو۔ انڈیا کے سارے فلم اسٹار، رئیسوں کے گھروں میں پیسے لیکر جاتے ہیں پرفارم کرناوہ الگ، سازندوںکے پیسے الگ ۔وطن لوٹ کر پھر وہی ہزاروی بنے، اپنے ریٹ بڑھاتے جاتے ہیں۔ اس لئے تو غریب ٹی وی پر نہیں آتے۔ جبکہ ہم نے روشن آرا بیگم ہوں کہ سلامت علی برادران اور باقی سب کلاسیکی گانے والوں کا صبح کا راگ ریڈیو پر براہ راست سنایا جاتا تھا اور وہ سب1960تک10سے50روپے کے درمیان معاوضہ حاصل کرتے تھے۔اقبال بانو اور فریدہ خانم، ایک شام کے لئے5ہزار روپے لیتی تھیں اس زمانے میں نئے نئے دبئی اور لندن زدہ امیر نہیں ہوتے تھے۔ تو نہ بیلیں دی جاتی تھیں نہ سازندوں کے الگ پیسے ہوتے تھے۔ اور پھر خوبصورت غزلیں جو اب تک عابدہ پروین گارہی ہیں(خیر وہ بھی معاوضہ لے رہی ہیں)۔کیا کریں آج روپے کی قیمت اس قدر گر گئی کہ 282روپے میں ڈالر ملے تو سب آرٹسٹ ہی پر کیا موقوف۔ آجکل مالک مکان بھی ڈالر مانگتا ہے۔انڈیا میں دولفظوں کی منادی ہوگئی ہے، سوشلسٹ اور سیکولر۔ ہم معترض کیوں ہوں کہ ہمارے تو ووٹ کوئی ڈالتا ہے، کامیابی میں نام کسی اور کا نکل آتا ہے۔ ویسے بھی انگریز جاتے وقت، پہلے تقسیم کا تنازع، پھر بارڈر کا جھگڑا، پھر پانی کا مسئلہ، بات یہیں ختم نہیں ہوتی ہر پارٹی کے اندر خانی جھگڑااس لئے سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کی عملداری میں دیکر، ہم بھی خوش اور وہ بھی مطمئن۔ کس سے پوچھیں کہ عدالتوں میں کن کے جھگڑے ، کتنی نسلوں تک چلتے ہیں۔ اسکے ذمہ دار کون ہیں۔ مجروح شکایت کنندہ کے وکیل کہ محرر کبھی اور کبھی وکیل فوراً اگلی تاریخ ڈلوالیتے ہیں۔ یوں ہی بھگتو ، پانچ دن میں حل ہونے والا مسئلہ گو سال میں بھی حل ہوجائے تو شکر کریں۔ذہین اشخاص کاتذکرہ کرتے ہوئے مجھے خواجہ شاہد حسین کا خیال یوں آیا کہ پاکستان میں جتنے بھی ذہین لوگ آئے اسکے آخری مسافر شاہد حسین صاحب تھےوہ یونیسکو میں پہلے پاکستانی اور آخری شخص تھے جو پاکستان کے سفیر مقرر ہوئے مجھے انکے ساتھ یونیسکو میں کام کرنے اور یونیسکو کے تعاون سے عالمی موسیقی کانفرنس کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ بہت کہا گیا کہ کانفرنس کا افتتاح وزیر اعظم سے کروائیں۔ میری ضدمانی گئی اور میڈم نورجہاں نے گاکر افتتاح کیا، ضیامحی الدین کمپیئر تھے۔ جب نصرت فتح علی خان گا رہے تھے تو جذباتی ہوکر میڈم بھی اسٹیج پر آئیں۔یہ منظر دیکھنے والا تھا۔ ہزاروں لوگ تالیاں بجاتے ہوئے کھڑے ہوگئے۔ کوئی بدتمیزی نہیں ہوئی۔ یہ شوق شاہد حسین کو بھی تھا اور مجھے بھی کہ پاکستان میں کوئی موسیقی کی کانفرنس ہو۔ اب انہیں ڈھونڈ وچراغ رخ زیبا لیکر ۔ شکر ہے وزیر اعظم کے آرڈر پر وہ فتنہ ختم ہوا کہ سارے ادبی ادارے فالتو ہیں۔ انہیں بند کیا جائے۔ تاریخ میں یہ سیاہ باب ہوتے ہوتے رہ گیا۔