• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنگ چونکہ انہونا واقعہ ہوتا ہے چنانچہ اس کے اثرات بہت دیرپا ہوتے ہیں۔ ہر جنگ تاریخ میں نتائج چھوڑ کر جاتی ہے اسرائیل کی غزہ اور حزب اللہ کے خلاف جنگ کے دنیا پر اثرات کا اظہار ہونا شروع ہو گیا ہے۔ اسرائیل کے ایجنڈے کے حامی یہ سمجھ رہے ہیں کہ اسرائیل نے اپنے خلاف معاندانہ عزائم رکھنے والی تمام قوتوں کو کچل کر اپنے آپ کو محفوظ بنا لیا ہے جبکہ دوسری طرف اسرائیل کے بالخصوص فلسطینیوں اور بالعموم مسلمانوں کےساتھ فسطائی رویّے نے مغربی دنیا میں فکری تبدیلی کا عمل شروع کر دیا ہے ۔غزہ کے مسئلے پر برطانیہ کی حکومتی لیبر پارٹی میں اختلافات اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ پارٹی کےبائیں بازوکے کٹّر رہنما جیریمی کوربن نےایک نئی سوشلسٹ پارٹی کے قیام کا فیصلہ کیا ہے اور کئی مسلم اراکین پارلیمان نے ابھی سے اس جماعت کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ نیو یارک کیلئے امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار زہران ممدانی کھلے عام اسرائیل کی مذمت کر رہے ہیںاور انہیں حمایت بھی مل رہی ہے ۔امریکی صدر ٹرمپ اسرائیل کے اتحادی بھی ہیں اور ایران پر بمباری میں فریق بھی۔ اسرائیل کے ساتھ مل کر جنگ لڑنے کے باوجود ان کے اندر اسرائیلی حمایت کیلئےاس جوش و جذبے کی واضح کمی نظر آ رہی ہے جو ماضی کی ایسی ہر لڑائی میں امریکی صدور کی اسرائیل کیلئے ہوتی تھی۔ غزہ میں اسرائیل نے جس طرح بربریت سے تباہی پھیلائی ہے اس نے دنیا کے ہر حساس دل کو، چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر، ایک بار جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور اسرائیل کی مغربی حمایت میں واضح کمی دیکھی ، سنی اورمحسوس کی جا رہی ہے۔ امریکی اور یورپی اخبارات پہلی بار لکھنے پر مجبور ہیں کہ اسرائیل کی پالیسیوں نے اسے دنیا بھر میں بدنام کرکے رکھ دیا ہے۔

مغربی دنیا میں بدلتے رحجانات کا ایک زندہ ثبوت برطانیہ کے شہر گلاسٹن بری میں ہونے والے سالانہ میلۂ موسیقی کا احوال ہے۔برطانیہ میں ایک لارڈ کی پرائیویٹ ملکیتی زمین پر ہر سال موسیقی کا ایک میلہ منعقد ہوتا ہے سامعین اور شائقین کئی دن کیلئے یہاں آکر کیمپوں میں مقیم ہو جاتے ہیں ہزاروں کے اجتماع کی وجہ سے یہاں کھانے پینے کا ایک شہر بھی آباد ہو جاتا ہے، دنیا بھرکے گلوکار یہاں آکر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یہاں دن رات مقیم رہنے والے لوگ موسیقی سے محظوظ ہوتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں بدلتے رجحانات کا اندازہ موسیقی کے ان میلوں سے لگ جاتا ہے۔ بہت سےنئے سیاسی نظریات اور تحریکوں کی نمو بھی ان اجتماعات میں ہوتی ہے۔ وہی برطانیہ اور امریکہ جہاں اسرائیل کے خلاف بات کرنا بھی انسانیت کے خلاف سمجھا جاتا تھا وہاں اسرائیل کے محکمہ دفاع کے خلاف کھلے عام نعرے لگے برطانوی حکومت نے دباؤ ڈالا کہ موسیقی کایہ میلہ منعقد ہی نہ ہو یا بعض گلوکاروں کو وہاں اپنے فن کا مظاہرہ نہ کرنے دیا جائے مگر اس زمین کا مالک لارڈ اڑ گیا کہ یہ میری پرائیویٹ زمین ہے اور میں ایسی کسی پابندی کو قبول نہیں کروں گا۔ یوں موسیقی کا میلہ زور و شور سےمنعقد ہوا اور وہاں اسرائیل کی پالیسیوں پر کھلے عام تنقید بھی ہوئی۔

امریکہ میں بھی اس بدلتے رجحان کے اثرات نظر آنے لگے ہیں۔ ہٹلر کے یہودی عوام پر ظلم کے بعد کی دنیا جو یہودیوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتی تھی اسرائیل نے خود غزہ میں اپنی پالیسیوں سے اسے برگشتہ کر دیا ہے اور پہلی بار یورپ اور امریکہ کی رائے عامہ غزہ کے فلسطینیوں کی حمایت میں بول رہی ہے۔ بین الاقوامی سیاسی اور سماجی مبصر مشل گولڈ برگ نے نیویارک ٹائمز میں لکھا ہےکہ جہاں نئے بائیں بازو کی تشکیل میںنئے عناصر شامل ہو رہے ہیں وہاں دایاں بازو، قدامت پسندی اور روایت پسندی سے نکل کر متشدد ہوتا جارہا ہے، یورپ کی وہ جماعتیں جو امیگریشن کے خلاف ہیں اور آزادیوں کے بارے میں محدود نظریات رکھتی ہیں ،ان کا رجحان جارحانہ ہوتا جا رہا ہے پہلے بایاں بازو باغی اور متشدد قرار دیا جاتا تھا جبکہ دایاں بازو پرامن سمجھا جاتا تھا، اب معاملہ الٹ ہو رہا ہے۔ بایاں بازو انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں کا حامی ہو گیا ہے جبکہ پہلے بایاں بازو جمہوریت کو ناکافی سمجھ کر سوشلسٹ یا کمیونسٹ انقلاب لانے کا متمنی تھا۔باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی دائیں اور بائیں بازو کی واضح تقسیم ختم ہو کر دھندلی ہو چکی ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کا خواب ختم ہو گیا، کچھ بائیں بازو والے سماجی انصاف اور مساوات کے انسانی اصولوں کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہوئے پرامن جمہوری جدوجہد کو مستقبل کا لائحہ عمل سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف ماضی میں پاکستان کا مذہبی دایاں بازو جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام ہوا کرتی تھیںجو جمہوری اور آئینی جدوجہد کے ذریعے اپنا نظریہ نافذ کرنا چاہتی تھیںمگر آج کا دایاں بازو بدل گیا ہے۔ طالبان، القاعدہ اور ISISمتشدد نظریات کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی حامی ہیں کہ ایک پرتشدد جنگ یا انقلاب کے بغیر انکے نظریات ریاست میں نافذ نہیں ہوسکتے ۔پہلے چی گویرا دنیا بھر کی ریاستوں کے مخالفوں کا ہیرو تھا، مسلم دنیا میں آج کی ریاستوں اور حکمرانوں کے مخالفوںکا ہیرو اسامہ بن لادن ہے۔ اسی طرح پہلی اور دوسری جنگ عظیم کےنتائج کے بعد امن، انسانیت اور انصاف کے جو اصول طے ہوئے تھے اب وہ نئے سرے سے ترتیب پائیں گے ۔آج کا دایاں اور بایاں بازو بھی نئے نظریات کا حامل ہے۔ یہ نظریاتی تقسیم بھی اسرائیل عرب جنگ اور اسرائیل ایران جنگ کے بعد سے نئی شکل اختیار کرے گی۔ سوشلسٹ ممالک کے علاوہ دنیا کے اکثر ممالک میں کمیونسٹ اور سوشلسٹ عتاب کا شکار رہتے تھے۔ ویت نام جنگ میں امریکی اداکاروں اور مصنفوں کو غدار اور باغی قرار دیکرتختہِ مشق بنایا گیا دوسری طرف کمیونسٹ حکومتوں نے بھی کوئی دوسری یا مختلف سوچ رکھنے والوں کو انقلاب مخالف کہہ کر تہ تیغ کیا۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ بدلتے ہوئے حالات میں اب ریاستیں نظریاتی رہیں گی یا نہیں؟ کیا دائیں بازو کا نظریہ انقلابی اور بائیں بازو کا جمہوری ہو جائے گا؟

مسلم دنیا اور بالخصوص پاکستان پر بھی بدلتے ہوئے نظریاتی تصورات ضرور پہنچیں گے۔ کیا حالیہ جنگ میں پراکسیز کا حشر دیکھنے کے بعد اِس خطے میں پراکسی وار جاری رہے گی یا رُک جائے گی ؟ ریاست دائیں بازو کی طرف جھکائو جاری رکھے گی یا پھر لبرل ہو جائے گی؟۔ دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اپنے اندر بڑھتے متشدد رویوں کو کیسے روکیں گی اور بائیں بازو اور لبرل نظریات کی جماعتیں عالمی رائے عامہ سے کیا سیکھیں گی۔ دنیا بدل رہی ہے ہم بھی بدلیں گے۔

تازہ ترین