اس تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں جہاں جدت طرازی نے ہرمیدان میں انقلاب برپا کیا ہے ، یہ وقت ہے کہ ہم سائنسی میدان میں حالیہ اہم پیش رفتوں پر غور کریں اور اس بات کا جائزہ لیں کہ یہ ایجادات ہماری زندگیوں میں کتنی بڑی تبدیلی لا سکتی ہیں۔ میں اس مضمون میں طب، زراعت اور جینیات کے میدان میں ہونیوالی انقلابی دریافتوں پر روشنی ڈالوں گا جو دنیا کے اہم ترین مسائل جیسے بیماریوں سے نمٹنے، غذائی قلت کا خاتمہ، ماحولیاتی تبدیلی کو کم کرنے اور پائیدار طرزِ زندگی کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔طب کے میدان میں ایک نیا فکری انقلاب رونما ہو رہا ہے، جہاں انقلابی ٹیکنالوجیاں صحت کی دیکھ بھال کو نئے انداذ کرمیں پیش کر رہی ہیں۔ ان میں ایم آر این اے ویکسین ٹیکنالوجی (mRNA Vaccine Technology) ایک بڑی تبدیلی کی عکاسی کر رہی ہے۔یہ ویکسین مصنوعی میسنجر آر این اے کے ذریعے خلیات کو ایسے لحمیات بنانے کی ہدایت دیتی ہیں جو مدافعتی ردِعمل کو متحرک کرتے ہیں۔ یہ طریقہ بیماری سے بچاؤ کیلئے زیادہ تیز اور قابلِ پیمائش حل فراہم کرتا ہے۔ کووِڈ-19 کے علاوہ، اب ملیریا، فلو، سرطان اور خودکار مدافعتی امراض (Autoimmune Disorders) کیلئے بھی یہ ویکسینز تیار کی جا رہی ہیں۔تاہم، اس ٹیکنالوجی کی قیمت اور سرد زنجیر (Cold-Chain Logistics)کی ضروریات جیسی رکاوٹیں غریب ممالک میں مساوی رسائی میں رکاوٹ ہیں۔اسی طرح کرسپر-کاس 9جین ترمیم ٹیکنالوجی بھی انتہائی انقلابی ایجاد ہے، جو ڈی این اے میں تبدیلیاں کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسکے ذریعے سِکل سیل انیمیا جیسی موروثی بیماریوں کے علاج سے لے کر فصلوں میں مزاحمتی خصوصیات پیدا کرنے تک کئی اطلاق ممکن ہیں۔
اگرچہ نابینائی اور پٹھوں کی کمزوری جیسے امراض کیلئے کلینکل تجربات جاری ہیں، تاہم اخلاقی پہلوؤں کی وجہ سے سخت قوانین کی ضرورت ہے تاکہ اس کا غلط استعمال نہ ہو۔مصنوعی ذہانت طبی تشخیص کو انقلاب انگیز انداز میں بدل رہی ہے، جو وسیع شماریات کا تجزیہ کر کے بیماریوں کے نمونوں کی شناخت اور نتائج کی پیشن گوئی کر سکتی ہے۔ڈیپ مائنڈ اورالفا فولڈجیسے سافٹ ویئر،لحمیات کی ساخت کی پیشنگوئی کرتے ہیں، اورمصنوعی ذہانت ریڈیولاجی کے میدان میں بیماریوں کی شناخت اور شخصی علاج کے راستے ہموار کر رہی ہے۔
CAR-T سیل تھراپی ایک مدافعتی علاج ہے، جس میں مریض کے ٹی خلیات کو جینیاتی طور پر تبدیل کر کے انہیں سرطان کے خلیات پر حملے کے قابل بنایا جاتا ہے۔ یہ علاج خاص طور پر خون کے کچھ سرطانوں میں 80فیصدسے زائد مریضوں کو مکمل افاقہ دیتاہے۔ اب اس ٹیکنالوجی کو ٹھوس رسولیوں کیلئے بھی ڈھالا جا رہا ہے۔زراعت میں انقلاب:زراعت کے میدان میں کئی جدید ٹیکنالوجیاں سامنے آ رہی ہیں جو ماحولیاتی تبدیلی اور آبادی کے دباؤ سے نمٹنے میں مدد دے سکتی ہیں۔کرسپر(CRISPR)سے تیار شدہ جین ترمیمی فصلیں جیسے کہ خشک سالی سے محفوظ چاول اور غذائیت سے بھرپور گولڈن رائس ، کم کیمیکل استعمال کے ساتھ زیادہ پیداوار فراہم کر رہی ہیں۔ تاہم ان کے بارے میں عوامی شکوک و شبہات اور قانونی رکاوٹیں اب بھی حائل ہیں۔عمودی کاشتکاری (Vertical Farming) بھی ایک انقلابی قدم ہے، جس میں ہائیڈروپونکس اور ایل ای ڈی لائٹس کی مدد سے کنٹرول شدہ ماحول میں فصلیں اگائی جاتی ہیں۔
یہ طریقہ پانی کے استعمال میں 90فیصدکمی، کیمیکل فری پیداوار، اور سارےسال فصلوں کی دستیابی کو ممکن بناتا ہے، تاہم توانائی کے زیادہ اخراجات ایک چیلنج ہیں۔نائٹروجن حاصل کرنے والی فصلیں بھی ایک بڑی پیش رفت ہیں، جو فضا سے نائٹروجن جذب کر کے کیمیائی کھادوں کی ضرورت کو کم کرتی ہیں۔ اس سے نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کم ہوتی ہے بلکہ مٹی کی صحت بھی بہتر ہوتی ہے۔
اسی طرح، کاربن محفوظ کرنے والی فصلیں جیسے کہ پرینیل ویٹ گراس (Perennial Wheatgrass) زمین میں زیادہ کاربن محفوظ کر کے ماحولیاتی بہتری لاتی ہیں۔لیبارٹری میں تیار کردہ گوشت اور پودوں سے حاصل کردہ لحمیات کے متبادل مویشی پالنے سے وابستہ ماحولیاتی و اخلاقی مسائل کا حل پیش کر رہے ہیں۔
مصنوعی گوشت 96فیصدتک گرین ہاؤس گیسز کم کرتا ہے اور زمین و پانی کا استعمال نمایاں حد تک گھٹاتا ہے۔درست زراعت (Precision Agriculture) جس میں مصنوعی ذہانت اور انٹرنیٹ آف تھنگز استعمال ہوتے ہیں، آبیاری، کیڑوں کے کنٹرول اور کھاد کے استعمال کو بہتر بناتے ہیں۔ ڈرونز اور اسمارٹ سینسر فصلوں کی نگرانی کو مزیدمؤثر بنا رہے ہیں۔حیاتیاتی کیڑے مار ادویات اور حیاتی محرکات، روایتی کیمیکل ادویات کا متبادل بن رہے ہیں جو ماحولیاتی تحفظ اور حیاتیاتی تنوع میں مدد گار ثابت ہو رہے ہیں۔موسمیاتی تبدیلی سےمزاحم بیج کی اقسام خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں موسم غیر یقینی ہو چکا ہے۔جینیات زندگی کے بنیادی رازوں کی کھوج کا وہ علمی میدان ہے جو زندگی کو اس کی بنیادی ترین سطح پر سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ہیومن جینوم پروجیکٹ 2.0نے جینیاتی بیماریوں اور ارتقائی حیاتیات کی فہم میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔مصنوعی جینیات دواؤں، بائیوفیولز اور صنعتی عمل کیلئے مصنوعی ڈی این اے اور مصنوعی حیاتیات جیسے میدانوں میں تحقیق کرنے میں مدد دے رہی ہے۔آبادیاتی جینومکس مختلف اقوام کی جینیاتی ساخت کو سمجھ کر بیماریوں کی حساسیت اور دواؤں کے ردِعمل میں فرق واضح کر رہی ہے، جس سے صحت میں عدم مساوات کم ہو رہی ہے۔AI سے تقویت یافتہ جینومک ڈیٹا تجزیہ نایاب بیماریوں اور ارتقائی مطالعات میں نئی دریافتوں کو تیز تر بنا رہا ہے۔واحد خلیہ جینیات فرداً فرداً خلیات کا مطالعہ کر کے سرطان اور اعصابی بیماریوں کی پیچیدگیوں کو سمجھنے میں مدد دے رہی ہے۔شخصی علاج ، جسے مکمل جینیاتی ترتیب نے ممکن بنایا ہے، خاص طور پر سرطان اور موروثی بیماریوں میں مریض کے جینیاتی خاکے کی بنیاد پر مخصوص علاج تجویز کر رہا ہے۔
طب، زراعت، اور جینیات میں ہونے والی ان شاندار دریافتوں نے انسانیت کیلئے نئی راہیں کھول دی ہیں۔یہ صرف بیماری، غذائی تحفظ، اور ماحولیاتی تحفظ جیسے فوری مسائل کا حل پیش نہیں کرتیں بلکہ ہماری طرزِ زندگی، کام کرنے کے طریقے اور زمین سے تعلق کو بھی بدل سکتی ہیں۔ ان سائنسی ترقیوں کی بدولت وہ ممالک جو اعلیٰ معیار کی تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی، جدت طرازی اور تحقیق میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں، ہزاروں ارب ڈالر کی برآمدات حاصل کر رہے ہیں۔افسوس کہ پاکستان اب بھی صرف قدرتی وسائل پر مبنی معیشت میں الجھا ہوا ہے، جبکہ اصل مواقع ٹیکنالوجی سے چلنے والی علمی معیشت میں ہیں۔