• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملتان میں بھی شہنشاہ ایران کےزمانے میں ڈھائی ہزار سالہ جشن شاہی کی تقریبات منائی گئیں اور ایم سی سی گراونڈ اور پریس کلب کے بیچ ایک خوبصورت پارک بنایا گیا اور معمر بادشاہ کی خوبصورت ملکہ فرح پہلوی سے اس پارک کو منسوب کیا گیا اسکے بعد ہی ایران میں شہنشاہ کے خلاف ہنگامے ہونے لگے پھر ڈاکٹر علی شریعتی کی تحریروں کا چرچا ہونے لگا طالبعلموں میں شاہ مخالف مظاہرے ہونے لگے۔ میں تب گورنمنٹ کالج کوئٹہ میں پڑھانے لگا تھا مجھے یاد ہے کہ ایک رات خانہ فرہنگ کوئٹہ نے پر تکلف عشائیہ دیا وہاں کافی مہمان جھومتے نظر آئے مگر صبح کوئٹہ کے اخبارات میں خبریں تھیں کہ خانہ فرہنگ ایران کو کسی نے آگ لگانے کی کوشش کی کسی گستاخ نے شہنشاہ کیساتھ ملکہ فرح دیبا پہلوی کی تصویر کو بھی بگاڑنے کی کوشش کی تب اعلان ہوا کہ کوئٹہ کے جلسہ عام سے صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو شہنشاہ کی بہن شہزادی اشرف پہلوی کیساتھ خطاب کرینگے اس میں شک نہیں کہ جلسہ گاہ کے آس پاس لیویز کے بندوق بردار لوگ تھے مگر یہ کھلا جلسہ تھا جس میں،میں بھی موجود تھا ۔بھٹو نے شہزادی کو بہت بڑی کرسی پر بٹھایا تھا اور خود کہا کہ ہمارا ملک ٹوٹ چکا ہے ہمیں ایران جیسے آزمائےہوئے دوستوں کو ناراض نہیں کرنا چاہئے ایک مقام پر بھٹو نے جوش خطابت میں کہا کہ اگر آپ میں ایک بھی اٹھ کے کہہ دے کہ ایران پاکستان کا دوست نہیں تو میں ابھی استعفیٰ دیدونگا ہمارے ساتھ بیٹھا ہوا ایک بلوچ اٹھا تو ہم لوگ دوستانہ انداز میں اس پر ٹوٹ پڑے اور اس نے بھی کہا میں تو ’’بھٹو زندہ باد‘‘ کہنے لگا تھا ۔ تاہم پھر ایران میں سے ایک انقلاب کی دھمک آنے لگی، کچھ ایرانی شاعروں کے پمفلٹ کوئٹہ بھی پہنچنے لگے اور تعجب کی بات ہے ان شاعروں کےیہ پمفلٹ علامہ محمد اقبال کے نام معنون تھے ۔ اس سے ایک برس پہلے ہم نے پڑھا تھا کہ ملکہ فرح پہلوی نے اردو کی عظیم مصنف قرہ العین حیدر کو اپنے مہمان کے طور پر شاہی محل میں ٹھہرایا ہے کہ وہ شاہ بانو کی سوانح عمری لکھیں ان کے ساتھ ہیلی کاپٹر، شاہی جہاز اور لیموزین پر پھریں۔ امام حسین کی ایرانی نژاد اہلیہ کےمزار پر جائیں دیگر زیارات پر بھی اور ملکہ کی عوامی اور ثقافتی دلچسپیوں کو خود دیکھیں ۔پھر سب کچھ تلپٹ ہو گیا ملتان والوں نے بھی گلستان فرح پہلوی کا نام بدل دیا اور قرہ العین حیدر نے ایک رپورتاژ ’کوہ دماوند‘ اور ایک افسانہ ’قید خانے میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے ' لکھا۔ میں نے اس کتاب کو ڈھونڈنا شروع کیا تو کتاب نگر کے شاکرحسین شاکر اوررئوف کلاسرا نے دو ایک لنک بھیجے کہ یوٹیوب پر اسے پڑھ لیں ۔اردو کی عظیم مصنفہ نے جہاں شہنشاہ کی ساواک کی سفاکی پر تنقید کی وہاں درباری کلچر کے خلاف بھی لکھا جو حکمرانوں کے دیکھنے اور سننے کی صلاحیت کو محدود کر دیتے ہیں مگر منتقم مزاج ججوں کے من چاہی شریعت نافذ کرنے کے عمل کو بھی ناپسند کیا ۔

٭٭٭٭

جب علامہ اقبال نے کہا تھا :قاسم از دکن وجعفر از بنگال تو میر جعفر اور میر قاسم غداروں یا وطن فروشوں کے طور پر ایک محاورہ بن گیا پھر جب معلوم ہوا میجر جنرل اسکندر مرزا انہی میر جعفر کے خانوادے میں سے ہیں تو ان کے ذکر کے ساتھ نواب سراج الدولہ کی شکست ذہن میں آتی ۔سمجھ دار لوگ مجھے مشورہ دیتے ہیں کہ اپنے کالم کو کوچہ وبازار کے عوام تک رکھو کلاس روم لیکچر نہ دو مگر کیا کروں دو کتابوں کا حوالہ میں دوں گا ایک اسکندر مرزا کے بیٹے ہمایوں مرزا کی ہے ’’فرام پلاسی ٹو پاکستان‘‘ میں ہے جنہوں نے اپنے جدامجد میر جعفر کا دفاع کیا کہ نواب سراج الدولہ کی ’عیاشی‘ اور ضد کے بعد طے ہوچکاتھا کہ لارڈ کلایو کوفتح ملے گی سراج الدولہ قتل ہوگا اسلئے بنگال کے لوگوں کو مشکلات سے بچانے کیلئے میر جعفر حقیقت پسند یا عملیت پسند سیاست دان کے طور پر سامنے آئے مگر ان کے حقیقی کردار کو پہچانا نہیں گیا ۔

دوسری کتاب کا عنوان ایسا ہے :’’مال گاڑی میں امانتیں‘‘ کہ پہلے میں سمجھا کہ ریلوے کی خدمات کا اشتہار ہے ،کتاب کو پڑھا تو میں دنگ رہ گیا کہ دلی میں ان سرکاری ملازمین کے اسباب خاص طور پر انکی کتابوں اور فائلوں کو پاکستان کے نئے دارالحکومت کراچی تک پہنچانے کا ٹھیکہ خواجہ محمد اسماعیل کو دیا گیا جس کی روداد محمد حنیف بندھانی نے بیان کی ہے جس میں دو باتیں بہت اہم ہیں ایک تو قدرت اللہ شہاب، چوہدری محمد علی اور ایسے لوگوں کی کتابیں اور فائلیں کراچی جا رہی تھیں (ان کی ترجیحات) کا بھی اندازہ ہوتا ہے دوسرا پہلے بھی کچھ لوگ دبی زبان سے ذکر کرتے ہیں کہ بیگم ناہید مرزا کی گورنر جنرل ہائوس میں تاش وغیرہ سے رغبت اپنی جگہ مگر اسکندر مرزا کے بیرونی اکائونٹ نہیں تھے اسلئے جلاوطن ہوئے تو لندن کے ایک ریستوران میں برتن دھوتے رہے اس کتاب میں بھی ہے کہ انہوں نے 5000روپے دلی میں قرض لیا تھا کتاب کے مصنف کے والد سے جو انہیں یاد دلایا گیا تو وہ انہوں نے ادا کر دیا۔

٭٭٭٭

گزشتہ کالم کے حوالے سے مجھے ایک معذرت کرنی ہے کہ سول لائنز کالج ملتان کے ایک پرنسپل جعفری صاحب کا ذکر آیا کہ ٹریفک حادثے میں ان کے دو بیٹے اپنی جان گنوا بیٹھے تو میں نے باقر جعفری اور حسنین جعفری کے ناموں کو جوڑ دیا بے شک اس عمر میں جوان اولاد کی وفات کا سانحہ برداشت کرنا بہت مشکل ہے تاہم وہ حسنین جعفری تھے جو جنرل ضیاء الحق کی کرنیلی کے زمانے کے واقف تھے جنہوں نے بے دھڑک ہو کر جنرل ضیا سے بات کی اور مارچ 1981 ء میں انہیں بھی نظر بند کر دیا گیا۔

تازہ ترین