• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابراہیم اکارڈ کیا ہے؟مسلمانوں اور یہودیوں کی صلح ۔صلح سے اچھی چیز اور کیا ہو سکتی ہے مگر آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ اس دنیا میں زیادہ تر فراڈ کرنے والے پہلے خود کو مذہبی ظاہر کرتے ہیں ۔ موقع ملتے ہی پیسے لے کر رفو چکر ۔ ابراہیمؑ کیا اس بات پر کبھی رضامند ہو سکتے تھے کہ یہودی غزہ میں قتلِ عام کرتے رہیں اور باقی مسلمان ان سے صلح کر لیں ۔ مسلمان تو ابراہیمؑ، موسیٰؑ اور عیسیٰ ؑ تمام پیغمبروں کو سر آنکھوں پہ بٹھاتے ہیں ۔ یہ تو عیسائی ہیں ، جنہوں نے رسالت مآب ﷺکا انکار کیا۔ یہ یہودی ہیں ، جنہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ اور رسالت مآبﷺ کا انکار کیا ۔ابراہیم اکارڈ نہیں،آپ ہمارے ساتھ محمد ﷺاکارڈ کر لیں مگر غزہ کو جینے کا حق تو دو۔

کیا آپ نے کبھی ایسے دو لوگوں کو دیکھا، جو بحث کر رہے ہوں۔ تلخی میں کوئی ایک ہی حق پر ہوسکتا ہے۔ آپ اس صورت حال کا جائزہ لیں تو ایک حیران کن انکشاف ہوتا ہے۔ دونوں افراد کو سو فیصد یقین ہوتاہے کہ وہ حق پر ہے اور دوسرا باطل۔

میاں بیوی کے 90 فیصد تنازعات میں دونوں کو اپنی سچائی کا یقین ہوتاہے اور اپنے شریکِ حیات کے ظالم ہونے کا ۔یہ بھی یقین ہوتاہے کہ جس قدر زیادتی میرے ساتھ ہو رہی ہے ، جس قدر صبر میں نے کیا،ایسی کوئی مثال نہیں ۔ فریقِ ثانی کا موقف بھی یہی ہوتاہے ۔ دونوں دلائل کے انبار لگا دیتے ہیں ۔ غصے کے کیمیکلز دماغ میں خارج ہو جاتے ہیں ۔ غصہ ہو یا کوئی اورجذبہ، جذبات ہیوی ویٹ باکسر کی طرح ہوتے ہیں ۔ جتنی دیر وہ اکھاڑے میں رہتے ہیں ، عقل کی نازک پری وہاں پر بھی نہیں ما ر سکتی ۔بعض اوقات انسان کی پوری زندگی ایک جذبے کی حکمرانی میں گزر جاتی ہے، مثلاً انتقام کا جذبہ۔

غصے کے کیمیکلز کو ختم ہونے میں کچھ وقت لگتا ہے۔سب سے زیادہ تیزی سے وہ تب ٹھنڈے ہوتے ہیں ، جب انسان جواب نہ دینے کا تہیہ کرلے اور اگر جواب دے تو آواز بلند نہ ہونے دے۔انا ایسا ہونے نہیں دیتی۔غصے کی حالت میں انسان عمر بھر کا نقصان کر لیتا ہے ۔ آج کے دور میں ایک بہت ناقص تصور مقبول ہو گیا ہے کہ آپ کتھارسز کریں ۔فریقِ ثانی کے خلاف بار بار گفتگو کریں ،حالانکہ اس سے طبیعت میں بے پناہ کوفت پیدا ہوتی ہے ۔ بار بار دماغ میں ایسے کیمیکلز خارج ہوتے ہیں ، جو اس شخص کو سکون سے جینے نہیں دیتے ۔یہ کیمیکلز خودترسی پید اکرتے ہیں ۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جب زخم مندمل ہونے لگیں ، آپ انہیں چھیل ڈالیں ۔ سب سے اچھا راستہ معاف کردینے اور زندگی میں ایک نیا راستہ تلاش کرنے کا ہوتا ہے ۔

بہت سے لوگوں کو یہ شکوہ ہوتاہے کہ میرے شریکِ حیات میں فلاں فلاں خامیاں پائی جاتی ہیں ۔ میں اسے سمجھا سمجھا کر تھک گیا ، وہ سمجھتا کیوں نہیں ۔ ساری زندگی انسان اس حقیقت کو سمجھ نہیں پاتا کہ ہر انسان نے اپنی فطرت ، اپنی خواہش اور اپنی سمجھ کے مطابق ہی عمل کرنا ہے ۔آپ کی امنگوں کے مطابق نہیں ۔مجھ سمیت انسانوں کی ایک عظیم اکثریت اپنے علم پر نہیں بلکہ اپنی افتادِ طبع(مزاج اور خواہش) کے مطابق زندگی بسر کر تی ہے ۔ ہاں اگر اس دنیا میں انسان کسی کو بدل سکتاہے تو وہ خود اس کی اپنی ذات ہے مگر یہ بڑا مشکل کام ہے ۔اس کیلئے مسلسل غور و فکراور اپنا تنقیدی جائزہ درکار ہوتاہے ۔

آپ کو ساری زندگی ایک انسان کے ساتھ گزارنا ہے مگر دل میں انتقام کی آرزو ہے ۔ کیایہ اپنے اور اپنی اولاد پر ظلم نہیں ؟ ایسا شخص کینسر زدہ آدمی کی طرح ہے ، جس کا جسم خود پہ حملہ آور ہو ۔ میاں بیوی کو چاہئے کہ ان کم از کم شرائط پر صلح کر لیں ، جو اولاد کی پرورش اور ایک گھر میں رہنے کیلئے ضروری ہیں ۔ اگر نہیں تو علیحدگی اختیار کر لیں ۔کچھ سال پہلے مغرب کی بھونڈی نقالی میں پنجاب اسمبلی میں ایک بل منظور کیا گیا۔ اسمبلی میں بیٹھے افلاطون یہ بھول گئے کہ ریاست گھر کے اندر گھس کر میاں بیوی کے تعلقات ٹھیک نہیں کر سکتی ۔ اگر یہ ممکن ہوتا تو فرانسیسی وزیراعظم طیارے سے اترتے ہوئے بیوی سے تھپڑ نہ کھا رہا ہوتا۔

یہ ساری باتیں تو دو افراد سے متعلق تھیں ، جن میں سے ہر ایک کو اپنے حق پر ہونے کا یقین ہو ۔ اقوام کے درمیان بھی ایسا ہوتاہے ۔ ایران اسرائیل جنگ میں سب سے بڑا لطیفہ یہ ہے کہ نتین یاہو دیوارِ گریہ گیا اور اپنی فتح کیلئے دعا کی ۔ وہ شخص خدا کے سامنے گڑگڑا رہا ہے ، جس نے غزہ میں چالیس ہزار بچوں اور عورتوں کو قتل کرڈالا۔ غالبؔنے تو کسی کو قتل نہیں کیا تھا ۔ پھر بھی بول اٹھا تھا

کعبہ کس منہ سے جائو گے غالبؔ

شرم تم کو مگر نہیں آتی

ایران اسرائیل جنگ شروع ہونے سے پہلے فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے غزہ کے قتل ِ عام پر اسرائیل سے تعلقات محدود کرنے کا عندیہ دیا تو نتین یاہو نے کہا: تم قاتلوں کا ساتھ دے رہے ہو۔ تم انسانیت اور انصاف کی غلط طرف کھڑے ہو۔نہایت سنجیدگی سے اسرائیلی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خدا کی برگزیدہ قوم ہیں اور ہرحال میں برگزیدہ ہی رہیں گے۔ فلسطین سے لیکر لبنان ، اردن اور شام تک ، یہ ساری زمین وہ ہے جسے وہ خدا کی طرف سے وعدہ شدہ زمین (Promised Land) سمجھتے ہیں ۔ اگر عرب اس پر آباد ہو گئے تو کیا ہوا ۔خدا نے وعدہ ہم سے کیا تھا۔

صرف مسلمان عیسیٰ ؑ کے منتظر نہیں ۔ یہودی اور عیسائی ہم سے بڑھ کر ۔ یہودیوں نے جو حال مسلمانوں کا کیا ہے ، کبھی یہی حال فرعون نے بنی اسرائیل کا کیا تھا ۔جب تک تکلیف میں رہے ، یہودی ایک نہایت عاجز قوم ثابت ہو تے رہے ۔

مسلمان، عیسائی اور یہودی، آج ہر فریق خود کو حق پر سمجھ رہا ہے ۔ یہ جھگڑا کیسے سلجھ سکتا ہے ؟طاقت کے توازن سے ۔ اسرائیلی طیارہ اڑے تو مسلمانوں کے جنگی جہاز کا سامنا ہو ،جیسے پاکستان نے بھارتی طیارے گرائے ۔ یا پھر اللہ امام مہدی اور عیسیٰ ؑ کو بھیجے تو یہ مسئلہ سلجھےیا پھر یہ میدانِ حشر میں خدا سلجھائے گا۔

تازہ ترین