• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی ان دنوں ایک مرتبہ پھر دو برسوں سے اڈیالہ جیل میں بند،اپنے بانی رہنما سابق کھلاڑی، کی رہائی کیلئے تحریک چلانے کا عندیہ ظاہرکررہی ہے لیکن احتجاجی تحریک ہی کے حوالے سے اس وقت پی ٹی آئی میں واضح طور پر دو دھڑے یا گروپ ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ ایک طرف سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ہیں جنکی پشت پناہی پی ٹی آئی پنجاب کی قیادت اور بڑی حد تک صعوبتیں جھیلنےوالے کارکنان کررہے ہیں انہی کے بقول دوسری طرف چُوری کھانےوالے یا اقتدار کے مزے لوٹنے والے لیڈران ہیں جو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں انہیں اس حوالے سے کوئی خاص پریشانی نہیں،بانی کی رہائی کیلئے ان میں وہ بے چینی و بے تابی نہیں جو عام پارٹی ورکرز میں پائی جاتی ہے اور وہ کسی بھی صورت اپنے بانی کو جیل سے باہر دیکھنا چاہتے ہیں ۔اس لیے انکے غم و غصے کا ٹارگٹ بالعموم کے پی کے چیف منسٹر علی امین گنڈاپور بن جاتے ہیں۔‎سچائی سے ملاحظہ کیا جائے تو ان بدترین حالات میں علی امین گنڈا پور نے خود کو ایک منجھا ہوا پریکٹیکل سیاستدان ثابت کیا ہے حالات کے جس تنے ہوئے رسے پر وہ چل رہے ہیں انکی حکومتی صلاحیت کو ثابت کرنے کیلئے یہی کچھ کم نہیں، ایک طرف وہ اپنے خود پسند وشکی مزاج لیڈر اور اسکی بہنوں کا اعتماد لیے ہوئے ہیں تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کو بھی وہ اچھا خاصا رام کیے ہوئے ہیں اور نہیں تو حیلوں بہانوں سے مواقع پیدا کرتے ہوئے وہ اسٹیبلشمنٹ تک اپنے لیڈر کی رہائی کا مطالبہ پہنچاتے ہیں، اس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتے ہیں بدگمانی اور ناتوانی کے بیچوں بیچ وہ رستہ بنانے کیلئے کوشاں ضرور ہیں ‎مہربانوں نے کھلاڑی کو سبق سکھانے کیلئے شاید ہی کوئی کسر باقی رہنے دی ہے،سپیشل سیٹوں کا آخری کیل بھی ٹھوکا جاچکا ہے۔ غیبی عالمی امداد کی جو امیدیں تھیں مودی کی بے حسی اور ٹرمپ کی طوطا چشمی سے وہ بھی بڑی حد تک دم توڑ چکی ہیں کہ اگلوں نےجس کو رہائی کیلئے کال کرنی تھی اسے وائٹ ہاؤس میں لنچ پر بلالیا ۔ ‎ایسے میں امید کی آخری کرن عوام ہی ہیں جنکے ایک حصے کوکھلاڑی کی محبت تعویذ کی طرح گھول کر پلا دی گئی ہے لیکن خالی محبتوں سے کیا حاصل؟ جب تک کہ اندر سے کوئی اشارہ کنایہ نہ ہو، کوئی آنکھ مچولی نہ ہو جسکی گنجائش سانحہ 9 مئی کی شتابی نے راکھ کی چنگاری جتنی بھی نہیں چھوڑی ہے۔اب سوشل میڈیا میں براجمان لال بجھکڑ روز نت نئی فیک نیوز اڑاتے رہتے ہیں، کبھی ہوائی اڑائی جاتی ہے کہ نوازشریف کی جمہوریت نوازی نے ان کی ذہنی کایا پلٹ کردی ہے اور وہ قیدی نمبر 804کو ملنے جلد اڈیالہ جیل جانےکا پروگرام بنارہے ہیں ارے بھلے مانسو! تم نے اس سادہ لوح پر جتنا کیچڑ پھینکا ہے اس کے بعد کیا اسے اس قابل رہنے دیا ہے کہ وہ اپنی روایتی سادگی کے ساتھ وہاں جادھمکے۔‎اب ذہنی کسمپرسی و عملی بدحالی اس پاتال تک پہنچ چکی ہے کہ لندن سے انگلش سپیکنگ دو شہزادے آئیں گے اور عوام کالانعام ان کی محبت میں دیوانہ وار اٹھتے ہوئے پاگلوں کی طرح گھروں سے باہر نکل پڑیں گے یوں 77ء میں بھٹو کے خلاف تحریک کا سماں بن جائے گا۔ میرے پیارے شیخ چلی صاحبان! اپنے اس ادھیڑبُن سے باہر نکلیے،بچوں سے ایسی لمبی چوڑی امیدیں باندھنے سے قبل اپنے لیڈر کی اکھڑ مزاجی پر ہی ایک نظر ڈال لیجئے، وہ مغربی ماحول کے بچے اپنے ابا کو دیکھنے یا اس کے متھے لگنے ہی آجائیں تو کھلاڑی کی کچھ نہ کچھ لاج رہ جائے گی لیکن پانچ اگست کی جس خام خیالی کے آپ لوگ سپنے دیکھ رہے ہیں ایسے کسی جعلی خواب کو ان کی اماں سورج کی کھلی و ننگی روشنی میں توڑ پھوڑ ڈالے گی۔ واقعی بندہ جب کوئی خیالی پلاؤ پکائے تو مصالحہ جات کی کمی ہوتی ہے نہ کوئی حد۔ ‎براہِ کرم اس تلخ حقیقت کا ادراک فرمالیں کہ آپ کے لیڈر کی رہائی کیلئے اگر کوئی جان جوکھوں میں ڈالے گا تو وہ لندن سے آیا ہوا کوئی امیر کبیر بچہ نہیں بلکہ پاکستان میں غربت و افلاس کے مارے ہوئے عوام کاکوئی شیدائی بچہ ہی ہوگا لیکن اب یہ جنونی بھی کم از کم اتنی سی بات تو سمجھ ہی چکا ہے کہ اسے اگر اپنی جان لڑانی ہے تو اپنے مصائب، مسائل اور دکھوں کو دور کرنے کیلئے نہ کہ کسی اناپرست کو اقتدار کے سنگھاسن پر دوبارہ بٹھانے کیلئے۔‎دوسری طرف اس غریب نوجوان کو 9 مئی کے بعد اپنے ساتھ ہونے والے حسن سلوک کا کچھ نہ کچھ ادراک تو ہوچکا ہے جب امیر یا بڑے لوگوں نے اس کو پہچاننے سے انکار کردیا تھا جن کیلئے یہ غریب اپنی جان پر کھیل گیاتھا۔

تازہ ترین