• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تیل کی قیمت آسمان کو چھونے لگے تو زمین پر بسنے والے غریب کے ہونٹوں سے روٹی کا مزہ اُٹھ جاتا ہے۔ تیل صرف ایک ایندھن نہیں، بلکہ زندگی کی رگوں میں دوڑتا خون ہے، جسکے بغیر ہر پہیہ جام رہ جاتا ہے، ہر فاصلہ رکا رہتا ہے، اور ہر چیز کی ترسیل رک جاتی ہے۔ جب تیل مہنگا ہوتا ہے تو وہ ایک خاموش زہر کی مانند معیشت کی نسوں میں رچ بس جاتا ہے — ٹرانسپورٹ کے کرایے میں اضافہ، خوراک کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ، اور گھروں کے چولہوں کی چمک ماند پڑ جاتی ہے۔

مہنگائی کوئی محض عدد نہیں، بلکہ ایک ایسا درد ہے جو ماں کی آنکھوں میں چھپی مایوسی، مزدور کی خالی جیب کی سسکی، اور طالب علم کی فیس نہ دینے کی ناامیدی میں باآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ تیل کی قیمت کے بڑھتے ہی صنعتوں پر بوجھ بڑھتا ہے، چھوٹے کاروبارکے قدم لڑکھڑاجاتے ہیں۔ مزدور، کسان، اور متوسط طبقہ سانس روک کر مہنگائی کی راہوں پر چلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ محض بازار کی لہر نہیں، بلکہ ایک ایسا قومی زخم ہے جو ہر گھر کے دروازے پر دستک دیتا ہے اور ہر خواب کو ایک دن اور مؤخر کر دیتا ہے۔

بیس جولائی دو ہزار پچیس کو پاکستان میں پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں پانچ روپے چھتیس پیسے کا اضافہ کر کے اسے دو سو بہتر روپے پندرہ پیسے پر پہنچا دیا گیا، جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت گیارہ روپے سترہ پیسے بڑھا کر دو سو چوراسی روپے پینتیس پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے۔ حکومتی بیان کے مطابق یہ تبدیلی عالمی تیل مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ، روپے کی گرتی ہوئی قدر اور درآمدی چارجز کا نتیجہ تھی۔ مگر یہ اضافہ صرف ایک عدد نہیں بلکہ یہ عوام کی ہمت اور برداشت کا ایک امتحان ہے۔ جون دو ہزار بیس میں جب دنیا لاک ڈاؤن کے قید خانوں میں تھی اور عالمی تیل کی قیمت منفی سطح پر جا رہی تھی، تب عمران خان حکومت نے آئی ایم ایف کے دباؤ میں آ کر پیٹرول کی قیمت تقریباً چوبیس روپے بڑھا کر چالیس روپے کے قریب پہنچا دی۔ اگلے سال روپے کی قدر میں گراوٹ نے قیمتوں کو مزید ہوا دی، روپے کی قدر دس سے بارہ روپے تک کم ہوئی، جس نے مہنگائی کی آگ کو بھڑکایا۔

دسمبر دو ہزار بائیس میں روس،یوکرین جنگ کے باعث عالمی مارکیٹ میں تہلکہ مچ گیا، روپے کی قدر اور کمزور ہو گئی، اور عبوری حکومت نے شہباز شریف کی قیادت میں پیٹرول کی قیمت دو سو پندرہ روپے فی لیٹر تک بڑھا دی۔ ستمبر دو ہزار تیئس میں قیمت کی چوٹ ایک نئے عروج پر پہنچ گئی ۔ تین سو ایک روپے 38پیسے کی بلند چوٹی جہاں سے گرنا عوام کی جیبوں پر مہنگا ثابت ہوا۔

دو ہزار چوبیس میں عالمی استحکام نےقیمت کو دو سو پچاس کے لگ بھگ روک رکھا تھا، لیکن جون جولائی دو ہزار پچیس میں عالمی مارکیٹ کی غیر یقینی صورتحال اور روپے کی بے قدری نے پھر سے قیمتوں کو جھٹکا دیا۔ جون میں معمولی اضافہ، جولائی کے شروع میں آٹھ روپے 38 پیسے، اور بیس جولائی کو پانچ روپے چھتیس پیسے کا نیا اضافہ یقیناً یہ ایک ایسا سفر تھا جو صرف سرکاری اعداد و شمار کا نہیں بلکہ ہر ٹرانسپورٹ کے ٹائر پر بوجھ، ہر کسان کی پیداوار کی کمی، ہر مزدور کی کم ہوتی کمائی اور ہر طالب علم کے خواب کی شکست کی داستان ہے۔

تیل کی بڑھتی قیمتوں کے اثرات صرف مالی نہیں بلکہ پورے سماجی اور معاشی ڈھانچے کو لرزہ بر اندام کر رہے ہیں۔ ہر اضافے کے ساتھ کرایے میں اضافہ ہوتا ہے، اشیائے خورونوش مہنگی ہوتی ہیں، اور چھوٹے کاروبار اپنی کمائی اور ملازمتیں برقرار رکھنے میں مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ کسانوں کیلئے ٹریکٹر چلانا مشکل ہو جاتا ہے اور طلبہ کی فیسوں کا بوجھ ان کی تعلیم کی راہوں میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ روزمرہ کی زندگی میں ایک روپے کا اضافہ بھی کسی خاندان کی جمع پونجی کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔

حکومت کی وضاحت ہے کہ یہ تمام فیصلے اوگرا اور وزارت خزانہ کی سفارشات کی روشنی میں، عالمی قیمتوں اور کرنسی کی قدر میں اتار چڑھاؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے جاتے ہیں۔ مگر ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ یہ فیصلے عوام کے مفاد کے بجائے مالی و سیاسی دباؤ کے تحت ہوتے ہیںاور مستقل حل کی تلاش نہ ہونا ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ہر نئی قیمت کے اعلان کے ساتھ عوام میں بے چینی اور خوف کی کیفیت بڑھتی جاتی ہے، جو ملک کے مستقبل کیلئے ایک سنجیدہ خطرہ ہے۔

سولر توانائی، الیکٹرک گاڑیوں کا فروغ، پبلک ٹرانسپورٹ کا استحکام اور سبسڈی کا صرف کم آمدنی والے طبقے تک محدود ہونا وہ اقدامات ہیں جو ملک کو اس دردناک سفر سے نکال سکتے ہیں۔ ورنہ یہ بڑھتی قیمتیں ہر دکان کے بل، ہر طالب علم کی کتاب اور ہر گھر کی امید پر ایک تلخ سائے کی طرح چھا جائیں گی، اور یہ معاشرتی زخم گہرا ہوتا جائے گا۔مگر کیا حکمرانوں کو اس کا ادراک ہے؟ کیا انہیں عوام کی حالت زار سے کوئی غرض ہے؟ ان کی توجہ اقتدار کی کرسی تک محدود ہے، اور عوامی مفادات کی بجائے سیاسی مفادات کو فوقیت دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی مسائل نظر انداز ہوتے رہتے ہیںاور مہنگائی کا ماراعام آدمی اپنی زندگی کی جنگ تنہائی میں لڑتا رہتا ہے۔

تازہ ترین